مذہبی و مسلکی ہم آہنگی اور ہماری ذمہ داری

نیکی کرنے سے نیکی پھیلتی ہے۔ دیئےسے دیا جلتا ہے۔ اچھی بات پھیلانے سے اچھائیاں پھیلتی ہیں۔ ایک چھوٹا سا جملہ انسان کی زندگی بدل دیتی ہے۔ ایک چھوٹی مگر حکمت و نصیحت آموز جملہ انسانی زندگی جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ خاموشی عبادت ہے، لیکن جہاں بولنے کی ضرورت ہو، وہاں خاموشی گھمبیر حالات پیدا کر دیتے ہیں، جس پر بعد میں قابو لانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ زبان کے نرم جملے انسانوں کے دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی بات جو شایدکہنے والے کے لیے زیادہ اہم نہ ہو ، لیکن کئی افراد تک پہنچ کر ان کی زندگی راہِ راست پرآجاتی ہے اوروہ کامیاب ترین انسان بن جاتے ہیں۔

انسان اللہ تعالیٰ کے محبوب مخلوقات میں سے ہیں۔ نبوی تعلیمات کا مرکز انسان کی فلاح و کامیابی ہے۔قرآن کا موضوع انسان ہے۔ انسان کی کامیابی اس کتاب کامحور ہے۔ اس لحاظ سے قرآن کی آیتیں انسان کو راہِ راست پر لانے اور انسان کی مدد پر دلالت کرتی ہیں۔ معاشرے میں رہتے ہوئے ہر شخص کی حتی الوسع کوشش ہوتی ہے کہ معاشرہ پرامن رہے اور مسائل کا شکار نہ ہو۔ ایک معاشرہ مختلف رنگ و نسل، قوم، وطن ، رسم و رواج اور عقائد و نظریات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ مختلف نظریات کی وجہ سے معاشرے میں اونچ نیچ اور اتار چڑھاؤ یا اختلافات کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ ان مسائل کو حل کرنا انسانی فطرت اور معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے۔

معاشرے کی بری رسموں، برے اعمال کی اصلاح اور امن کے لیے کردار ادا کرناہر ذی شعور کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس طرح انفرادی سے اجتماعی اختلافات بڑھنے کی صورت میں معاشرے کو ایک اجتماعی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔نقصان کے خاتمے کے لیے پیشگی منصوبہ بندی کرنا عقلمند لوگوں کی نشانی ہے۔ اس نیکی کے متعلق قرآن کچھ یوں تعلیم دیتا ہے کہ "مسلمانوں کے دو گروہوں میں باہم لڑائی ہو تو ان میں صلح کر لیا کرو”۔آپس کے اختلافات ختم کرنے اور امن کی بقا کے لیے کردار ادا کرنے والوں کے متعلق اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے "اللہ کی رضا کے لیے صدقہ، بھلائی اور لوگوں کے درمیان صلح کرنے والوں کو ہم اجرِ عظیم سے نوازیں گے” مسلمانوں کی انفرادی اختلافات کے خاتمے کے متعلق قرآن کا ارشاد ہے "مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، بھائیوں کے درمیان صلح کر لیا کرو” معاشرے کی برائیوں اور نا سمجھ لوگوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے ایک جماعت کی ضرورت ہوتی، جس کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے” آپ لوگوں میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے، جو نیکی کی طرف دعوت دے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے "۔

قرآن نے نیکی کرنے کا اجر دس گنا بیان کیا ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے کہ ایک نیکی کے بدلے سات سو نیکیوں کے برابر اجر و ثواب ملے گا، اس کے ساتھ مذکور ہے کہ” اللہ جس کو چاہے اس سے زیادہ اجر و ثواب سے نوازے گا” نیکی کا تعلق صرف انفرادی اعمال سے نہیں بلکہ اجتماعی او معاشرتی اعمال سے بھی ہے۔ راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا نیکی ہے، اچھی بات بیان کرنا نیکی ہے ، اس طرح کسی کو راستہ دکھانا نیکی ہے تو کسی کو ایسی بات بیان کرنا جس کی وجہ سے وہ راہِ راست پر آ جائے ، نیکی ہے، بلکہ ایسی نیکی کو صدقۂ جاریہ کا نام دیا گیا ہے، جس کا اجر و ثواب بعد از مرگ بھی جاری رہتا ہے۔انسانیت کی اصلاح اور امن کی بقا کے لیے صدقاتِ جاریات اپنے نام کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

قرآن کی عملی تفسیر اور شارحِ قرآن ﷺ کی تعلیمات اتفاق و اتحاد کا درس دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے باہم یا دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ وابستہ معاشرے میں اسلام حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہے اور بھلائی پھیلانے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس حوالے سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عظیم الشان کا مفہوم ہے "میری طرف سے لوگوں کو پہنچاؤ، خواہ چھوٹی سی بات کیوں نہ ہو” اس طرح ایک اور روایتِ حدیث کا مفہوم ہے کہ” نیکی کی طرف راغب کرنا یا نیکی پر دلالت کرنے کا ثواب ایسا ہے جیسے اس نے خود یہ عمل کیا ہو” اس لحاظ سے اس ضمن میں ایک اور حدیث بھی ہے کہ ” مومن کی نیک نیت اس کے عمل سے بہتر ہے”۔ مندرجہ بالا احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے سے انسانیت کو فائدہ پہنچاؤ کہ انسان نقصان سے محفوظ رہے۔ کسی کے تکلیف و آزمائش کا سبب نہ بنے۔ مسلمانوں کے انفرادی و اجتماعی تمام مسائل کا حل قرآنی آیات میں موجود ہیں، بس پہل کرنے کی دیر ہے۔

موجودہ حالات کو دیکھ کر عوام اور معاشرہ جس سے کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے یا جس کی باتوں کو بنیاد بنا کر زندگی گزارنے کی ہمت و جستجو کرتے ہیں، وہ ائمہ کرام و خطباءِ مساجد ہیں۔ ائمہ کرام و خطباءِ عظام معاشرے سے اختلافات کم کرنے میں بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مذہبی و مسلکی اختلافات کو اتفاقیات میں بدل سکتے ہیں، مذاہب و مسالک کی قدر و منزلت معاشرے کے دلوں میں پیدا کرسکتے ہیں، عوام کے دلوں سے نفرت ختم کر سکتے ہیں۔ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں، ان کے رسم و رواج اور مذہبی مقامات کی تقدس قائم رکھ سکتے ہیں۔ اسلام یہی حقوق دیگر تمام مذاہب کو آزادی سے ادا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ خطباء کرام خصوصی طور پرحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیگر مذاہب سے معاہدات ، صحابہ کرام کے حسنِ سلوک اور خلفاءِراشدین کی طرزِ خلافت دیکھ کر اپنے تقاریر اور وعظ و نصیحت کو موضوع بنا سکتے ہیں۔

ارمڑ پشاور کا نواحی علاقہ ہے۔ یہاں کے علماءِ کرام کا اتفاق ہے کہ مذہبی اختلافات کو سپیکر پر علی الاعلان بیان کرنے سے احتراز کیا جائے۔ یہاں کے مولانا عبد الماجد صاحب فرماتے ہیں کہ تقریباً پندرہ مختلف مساجد کے خطباء جو مختلف مکاتبِ فکر کے نمائندے ہیں، آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں اور ایک دوسرے کی غمی خوشی و رسم و رواج میں شریک ہوتے رہتے ہیں۔ ان ائمہ و خطباء کا اتفاق ہے کہ اختلافی مسائل کو پسِ پشت ڈال کر اتفاقی مسائل بیان کریں گے اور عوام کی شیرازہ بندی کو بکھرنے نہیں دیں گے۔

"ایک قصبہ، سات مساجد اور ایک اذان” کے حوالے سے پنجاب کے ایک گاؤں کے متعلق رپورٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ایک قصبے کے سات مساجد ہیں اور ساتوں مساجد سے ایک ہی وقت میں ایک اذان کی صدا بلند ہوتی ہے. ایک ہی وقت پر نماز ادا ہوتی ہے۔ اس قصبے میں کسی قسم کے کوئی نشہ آور اشیاء موجود نہیں۔ علاقے میں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوجائے تو یہاں کے ائمہ و خطیب بیٹھ کر اس کی حل تلاش کر لیتے ہیں۔ تھانے تک کسی ناخوشگوار بات کو پہنچانے نہیں دیتے۔ قصبے کے باشندگان ائمہ کرام کی کوششوں کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

اساتذہ کرام معاشرے کے معمار ہیں۔ مذاہب کا احترام کرتے ہوئے طلباء کو انسان دوست تعلیم دلوا کر مفید شہری بنا سکتے ہیں۔ طلباء کو اختلافات کی بجائے مل جل کر حسنِ سلوک کے عادی بنائیں اور اچھے اخلاق کی تربیت دے کر اپنی ذمہ داری کا حق ادا کریں۔ اس وقت ہر مسجد و مدرسہ کسی نہ کسی مکتبِ فکر کی ترجمانی میں مصروفِ عمل ہے۔ دوسرے مکاتب پر کسی اور مدرسے یا مسجد کے دروازے بند نظر آ رہے ہیں۔ تمام مدارس اور مساجد قرآن اوردینِ اسلام کے حقیقی ترجمان بن کر متفرقات سے نکل کر عوام کے اتحاد کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہر مسجد و مدرسہ الگ فرقے کی ترجمانی پیش کر رہا ہوتا ہے ، جو نہ چاہتے ہوئے عوام اور معاشرے میں تفریق کا سبب بن رہا ہے۔

اسلامی تعلیمات میں اتفاقیات کو ترویج و ترقی دینے کی ضرورت ہے۔

ذیل کی سطروں میں چند گزارشات پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جو معاشرے میں اتحاد و اتفاق کے ساتھ ساتھ امن و آشتی کے ماحول کے لیے نہایت ضروری ہیں۔

1: ایک شخص کی حیثیت کے مطابق مناسب آواز دینا، معاشرتی آداب کا حصہ ہے۔ کسی سے ملنا ہو تو مناسب آواز، موزوں نام اور مناسب وقفے کے ساتھ تین دفعہ نام پکارنا، آرام کے اوقات کے علاوہ کسی کے گھر جانا، جبکہ اس کے مقابلے میں تین دفعہ سے ذیادہ بلانا، غیر شائستہ انداز اور غلط نام یا القابات سے پکارنا جہالت کے علاوہ کچھ نہیں، جولڑائی جھگڑے کا سبب بن سکتا ہے۔

2: تمام مسلمان آپس میں بھائی ہیں۔ کسی کے ساتھ جو بھی معاملہ کریں، صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کو ملحوظِ نظر رکھا جائے۔ کوئی بھی شخص خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، کو طعنہ دینے، مذاق اڑانے، بدگمانی کرنے، چغلی کرنے اور کسی کی جاسوسی کرنے سے بچیں، ورنہ سکون کی زندگی کے لیے ترس جائیں گے۔

3: ایک معاشرے میں مختلف رنگ، نسل، زبان، قوم، وطن ، رسم و رواج کے ساتھ ساتھ الگ سوچ، نظریے اور عقیدے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوں گے، کسی کو کم تر، کمزور اور نفرت سے دیکھنا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب کو حضرت آدمؑ اور بی بی حواؑ سے پیدا کیا ہے۔ کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں، البتہ اللہ تعالیٰ کے ہاں عزت والا وہ ہے، جو زیادہ متقی و پرہیزگار ہو۔

4: معاشرےمیں رہتے ہوئے جھوٹ اور سچ کی تحقیق کرنا ہر شخص کی ذمہ داری ہے۔ کوئی بات بغیر تحقیق کے نہ پھیلائیں اور نہ اس پر عمل کریں۔ سنی سنائی بات پر عمل کرنا، ندامت اور شرمندگی کے سوا کچھ نہیں۔ دین و مذہب اور ملکی و ملی مسائل کو سنی سنائی باتوں تک محدود رکھنا، تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں۔

5: باہم میل جول کی وجہ سے مسائل پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اس فطری عمل سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل بھی معاشرتی اور اخلاقی طرز پر حل کرنا اہم ذمہ داری ہے۔ عدل و انصاف ہر معاشرے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر انسان تباہ اور علاقے ویران ہوجاتے ہیں۔ تعلق توڑنے والے سے جوڑنا اور ظلم کرنے والوں کو معاف کرنا نبوی تعلیمات کا حصہ ہے۔ ایک جماعت جو صلح کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، معاشرے کی اصلاح کے لیے کردار ادا کریں۔

قرآنی آیات، احادیثِ مبارکہ اور عملی زندگی کی چند مثالوں کا تذکرہ اصلاحِ معاشرہ کی ایک جھلک ہے۔لوگوں کے درمیان صلح و آشتی، اتفاق و اتحاد ، اخوت و بھائی چارے اور انسانیت کو فائدہ پہنچانے کی خاطر رسولِ کریم ؑ کی عملی زندگی ہمارے سامنے بہترین مثال ہے۔ مکہ کے مہاجرین اور مدینہ کے انصار کی اخوت و بھائی چارے کی سب سے بڑی مثال تمام انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ جس کا کوئی نہیں جیسے حضرت بلال حبشی اور سلمانِ فارسی رضی اللہ عنہما ” ان کے لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سایۂ شفقت بنفسِ نفیس خود موجود ہے۔

ایک بہتر اور اچھے کردار بیان کرنے سے اچھائی پھیلے گی۔ نیکی کرنے یا بیان کرنے سے نیکیاں پھیلتی ہیں۔ اپنے قلم کو مثبت استعمال کرکے قلم کا حق ادا کریں۔ اپنی زبان کو بہتر صحافت کی رنگ میں رنگ کر صحافت کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ بس قلم کو معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے کی دیر ہے۔ قلم اٹھائیں، امن پھیلائیں اور معاشرے کو امن و سکون سے جینے کا حق دلوائیں۔ ایک لکھاری کی بہتر مستقبل، مذاہب و مسالک میں اتفاق، معاشرے سے جہالت کے خاتمے اور امن کی بقا کے لیے کردار ادا کرنے سے اور کیا اہم ذمہ داری ہو سکتی ہے؟ مثبت تحاریر امن و بقا کے ساتھ ساتھ ترقی کا پیش خیمہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے