مذہبی ہم آہنگی اور خلفاء راشدین کا طرزِ عمل

ہجرتِ مدینہ کے ساتھ ہی اسلامی ریاست معرض وجود میں آئی۔اس ریاست کی بدولت جزیرۂ عرب کی حالت بدل گئی ۔ ماضی کے حالات یکسر بدل گئے۔ درجنوں سرداروں کی بادشاہت ختم ہوئی اور ایک خلیفہ کے ماتحت رعیت زندگی گزارنے لگی۔ ماضی کے کمزوروں پر کیے جانے والے مظالم کا خاتمہ ہوا۔معاشی استحکام پروان چڑھنے لگا۔ معاشرتی ظلم و ستم اصلاحات میں بدلنے لگے۔کمزور ، غریب اور مالدارو جاگیردار کےمابین فرق ختم ہونے لگا۔ بچیوں کو زندہ درگور کرنےکی جاہلانہ رسم و سوچ کا خاتمہ ہوا۔ غلام اور آزاد کے برابری کی سطح پر حقوق متعین ہونے لگے۔ سب سے اہم یہ کہ ظلم کو ظلم، نیکی کو نیکی اور اچھے برے میں فرق کیا جانے لگا۔مذہب پر عمل کرنے والوں کو مذہبی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی مل گئی۔

قرآن کی نزول کے ساتھ ہی مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے اصول مل گئے۔ حضرت محمد الرسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و اھل بیتہ اجمعین الطیبین الطاہرین کی صورت میں مسلمانوں کو زندگی گزارنے کا نمونہ اور تمثیل مل گیا۔ مسلمانوں کو انفرادی و اجتماعی زندگی گزارنے کے اصول مل گئے ۔نبوی تعلیمات سے معلوم ہوا کہ میثاقِ مدینہ کی صورت میں ہر مذہب والوں کو اپنے معبود کی پرستش کی آزادی مل گئی۔

خلفاءِ راشدین کا زمانہ خیر القرون کا زمانہ کہلاتا ہے۔حضور نبی کریم علیہ السلام نے اپنی امت کا بہترین زمانہ خیر القرون کو قرار دیا ہے۔ حدیث کی رو سے نبی کریم علیہ السلام نے اپنے قریب دورانیے کے مسلمانوں کو اعمال کے اعتبار سے بہترین زمانہ قرار دیا ہے۔یہی وہ دور ہے جس میں مسلمان جزیرۂ عرب سے نکل گئے اور دوسرے علاقوں میں پھیل گئے۔ مختلف اطرافِ عالم میں پھیل گئے ۔مسلمانوں کا دیگر مذاہب کے پیروکاروں سے واسطہ پڑنے لگا اور اسلام کی بہتر تصویر اس کے سامنے ظاہر ہونے لگی۔ مسلمانوں کے اچھے اخلاق سے متاثر ہونے لگے اور دنیا میں امن و ترویج کی فضائیں قائم ہونے لگیں۔

اسلامی تعلیمات عدم تشدد کے قائل ہیں۔قرنِ اول میں خصوصاً خلفاءِ راشدین کے حالات و واقعات اورحکمرانی ثابت کرتی ہے کہ مسلمان خلفاء اورحکمرانوں نے دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی دی ۔اسلام کی اسی حسنِ سلوک کی بدولت غیر مسلمان اقوام اسلام کے گیت گانے لگے اور بہت جلدامن، برابری ، اخوت ، بھائی چارے اور حسن ِسلوک کے اس مذہب کو قبول کرنے لگے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں ایک اقلیتی عورت نے اسلام اور مسلمانوں کی ہجو کی، جس پر مقامی حاکم نے سزا دی، ابوبکر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو خط لکھ کر حاکم سے فرمایا ” جب ہم نے ان کے کفر و شرک کو برداشت کر لیا، "ہجو” تو بہرحال اس سے کم تر درجہ کا جرم ہے”۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان پر اہلِ عانات سے معاہدہ کیا۔ معاہدے کے شرائط تھے کہ

1: گرجے و خانقاہیں محفوظ ہوں گی۔
2: نمازِ پنجگانہ کے علاوہ ناقوس بجا سکتے ہیں۔
3: وہ اپنے مذہب کے مطابق عید پر صلیب نکال کر اپنے رسوم ادا کر سکتے ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دس سالہ دورِ خلافت میں ایران اور روم کی سلطنتیں مسلمانوں کے حصے میں آئیں۔ شمالی افریقہ سے بر صغیر کی سرحد تک اسلام کا پرچم لہرایا جانے لگا۔ تقریباً دس سالہ دور ِخلافت میں اسلام پھیلتا گیا۔ اسلام کی اشاعت کے لیے کسی بھی جبر ، اکراہ اور طاقت کا طریقہ استعمال نہیں کیا گیا۔

اقلیتوں اور ذمیوں کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے چند اصول اور طریقے تھےکہ

1: جبر و اکراہ کی ہمیشہ ممانعت فرماتے ، یہاں تک کہ اپنے غلام کو دعوتِ اسلام کی تبلیغ کر کے مسلمان نہ کر سکے۔
2: ذمیوں کے جان و مال کا تحفظ مسلمانوں کے برابر قرار دیا گیا۔ حیرہ علاقےکےایک عیسائی کے بدلے مسلمان کو قصاص کیا گیا۔
3: ملکی انتظامات میں ذمیوں سے مشورے لیتے تھے ۔
4: ذمیوں کے فصلوں کو پامال کرنے پر 10 ہزار درہم کا معاوضہ ادا کیا۔
5: مذاہب کے حوالے سے مکمل آزادی تھی۔ذمیوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی۔ ناقوس بجاتے، صلیب نکالتے، پیشوا مذہبی رسومات ادا کرتے ۔
6: غیر مسلموں سے معاہدات میں مذہبی آزادی کی باقاعدہ شق رکھی جاتی تھی۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیت المقدس امن معاہدہ ، جس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایلیا کے باشندوں کو جان و مال ،عبادت گاہوں، صلیب ، تندرست اورمریض سب کو امان دی۔ گرجوں کو مسدود کرنے سے منع فرمایا۔ مذہب کے معاملے میں کسی پر جبر کرنے سے ممانعت کے حکم صادر ہوئے۔۔اس طرح اہلِ فارس کے ساتھ بھی ایک معاہدہ تشکیل پایا تھا۔ معاہدۂ ایران کے مطابق سب سے اہم بات یہ تھی کہ اہلِ ایران کو دین سے ہٹایا جائے گا اور نہ ہی ان کی شریعت سے کسی قسم کا تعرض کیا جائے گا۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اہلِ آذربیجان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کی اہم بات تھی کہ "ہر چھوٹے بڑے کی جان و مال کا تحفظ، مذہب اور شریعت میں دخل اندازی نہ کرنااور مذہب کے مطابق عمل کی آزادی سب کو حاصل ہے ” جیسی اہم باتیں شاملِ معاہدہ تھیں۔اہلِ شام، اہلِ مصر اور اہلِ رے کے ساتھ بھی مختلف معاہدے ہوئے تھے۔ ان معاہدات کے علاوہ مختلف گورنروں اور حکمرانوں کو لکھے گئے خطوط میں ذمیوں کو مذہبی آزادی اور ان سے نرمی کے احکامات کے متعلق ارشادات موجود تھے۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں مسلمان اور غیر مسلم کے خون کی حرمت برابر تھی۔ اس دورانیے میں عمر رضی اللہ عنہ کے معاہدات کو جاری رکھا گیا۔ غیر مسلموں سے شکایات موصول ہوتے ہی حالات کے مطابق ترمیم کر کے مسائل حل فرماتے ۔عہدِ عثمانی میں غیر مسلموں سے معاہدے حسنِ سلوک کی بہترین مثالیں ہیں۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اہلِ "صعیدِ مصر "کے مسلمانوں اور ذمیوں کے مابین مذہبی آزادی کا معاہدہ بہترین مثال ہے۔ اس معاہدے کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ "نہ تم سے لڑائی کریں گے اور نہ تمہیں مرعوب کرنے کے لیے لشکر لائیں گے” اس طرح گورنروں، سرحدی کمانڈروں اور خراج دفتروں کے نام ذمیوں سے بہتر سلوک کے احکامات ملتے تھے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں غیر مسلموں کے ساتھ کچھ خاص معاہدات کا ذکر نہیں ملتا، لیکن ذمیوں سے حسن سلوک کےاحکام کی مثالیں ضرور موجود ہیں۔ اس دور میں امیر و غریب بلا امتیاز ِمذہب سب برابر تھے۔اس دور میں نئے معاہدات نہیں ہوئے البتہ پچھلی خلافتوں کے معاہدات کی پابندی کرتے ہوئے غیر مسلم رعایا کے ساتھ مکمل عدل، انصاف اور حسنِ سلوک کی اعلیٰ روایت کو جاری رکھا گیا۔

مندرجہ بالا ادوارکا تذکرہ اور خلفاءِ راشدین کے معاہدات ، احکامات، خطوط اور طرزِ عمل مسلمانوں کی طرح دیگر مذاہب کے پیروکاروں کومذہبی آزادی کی اجازت دیتا ہے۔ کسی پر کوئی پابندی نہیں۔ مذہبی عبادت گاہیں ہوں یا مذہبی نشانیاں ، مذہبی رسم و رواج ہوں یا طور طریقے، اسلامی تعلیمات کوئی پابندی نہیں لگاتا۔ یہی اسلام کی حقانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ یہی اسلام کا طرہ امتیاز ہے۔اس حسنِ سلوک کی بدولت اسلام پھیل رہا ہے۔جمود توڑ رہا ہے اور ہر انسان کے سینے میں موجود دل پر اثر انداز ہو رہا ہے۔

قرآن کی تعلیمات، نبوی سنت اور اسلامی فقہ میں انسان کو محبت کی نظر سے دیکھنے کا حکم ملے گا، جبکہ برائیوں اور گناہوں سےنفرت کرنے کی تعلیم ملے گی۔کسی انسان سے نفرت ، تعصب اور عداوت کے اشارے اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں۔موجودہ دور کے اسلامی ممالک کے لیے خصوصاً اور عام مسلمانوں کے لیے عموماً اسلامی تعلیمات راحت اور ترقی کا ذریعہ ہے۔ امن و محبت اور بھائی چارے کا دین ہے۔ سکون سے رہو اور لوگوں کے راحت کا ذریعہ بنو۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور خلفاءِ راشدین کا طرز ِعمل اہل ِاسلام کے لیےقابلِ تقلید ہے۔ یہی خوبصورت تعلیمات دیگر مذاہب و ممالک کے لیے ایک رول ماڈل کے طور پر بیان کر سکتے ہیں۔ ان تعلیمات ، احکامات، طریقوں اور نصائح پر عمل نہ صرف ایک مخصوص علاقے کے لوگوں بلکہ تمام علاقوں، سلطنتوں اور ریاستوں کے عوام کے لیے فلاح و کامیابی کی بنیاد ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے