حسرت ہے تجھے سامنے بیٹھے کبھی دیکھوں
میں تجھ سے مخاطب ہوں، تیرا حال بھی پوچھوں
دل میں ہے ملاقات کی خواہش کی دبی آگ
مہندی لگے ہاتھوں کو چھپا کر کہاں رکھوں
جس نام سے تُو نے مجھے بچپن سے پکارا
اک عمر گزرنے پہ بھی وہ نام نہ بھولوں
مننی بیگم اپنا سگنچر ہارمونیم چھوڑ کر بڑے سٹائل سے کھڑے ہو کر ایک ہاتھ سے مائک پکڑے بیٹ والی دھن کے ساتھ یہ غزل پی ٹی وی پر ساڑی کا آنچل لہرا لہرا کر گا رہی تھیں اور بیچ بیچ میں شاعرہ کشور ناہید کے "انسرٹس ” یہ لمحہ اب بھی مرے بچپن کی یادوں میں محفوظ ہے -بلکل اسی طرح جب میں چھ یا سات سال کی رہی ہوں گی اور اپنی فیملی کے ساتھ پہلی بار لاہور گئی تھی کہ ابو جان کو ان کے پنجابی دوستوں نے اصرار کر کے بلایا تھا اور ساتھ یہ پریشان کن خبر بھی دی تھی کہ "جِنے لاہور نئیں ویکھیا، او جمیا ای نئیں”. ہجرتوں اور نفرتوں کے دکھ تلے سانس لیتے ہویے میرے سادہ لوح ادیب والد کو یہ جملہ کھب گیا تھا اور میری یاداشت کے مطابق یہ پہلا پنجابی جملہ تھا جو ہم سب نے اجتماعی طور پر سیکھا تھا اس کے بعد تو مجھ کو پنجابی زبان سے عشق ہی ہو چلا اور اس کا اظہار میں اپنی کئی تحریروں اور تقریروں میں کرتی رہی ہوں .
جب ہمارا پاکستانی بہاری خاندان لاہور پہنچا تو ابّو جان کی وجہ سے کی ادیبوں اور شاعروں سے ملاقات رکھوائی گئی. ہم لوگ کشور ناہید کے آفس میں ان سے ملے تھے . حنیف رامے نے اپنی کتاب پنجاب کا مقدمہ میں مرحوم والد صاحب کو پنجابیوں کی فہرست میں جگہ دی اور ہم نے پنجاب کی اس وسعت قلبی کو سراہا بھی اور محظوظ بھی ہوئے . تاہم خوبصورت ادبی معرکے اور مہربانیاں بھی حقیقی مکروہات کو زائل نہیں کرتیں .
میں افسانوی سی سوئٹ سی پروین شاکر کی "مسخر ” کر دینے والی جادوئی دنیا سے کسی حد تک واقف ہونے کے باوجود نجانے کیوں "کڑوی کسیلی کشور ” کی جانب ہی کھینچتی رہی .
یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں
جو اہلِ جبہّ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں
نہ جان بیچیں
نہ سر جھکائیں
نہ ہاتھ جوڑیں
یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں
کہ جن کے جسموں کی فصل بیچیں جو لوگ
وہ سرفراز ٹھہریں
نیابتِ اِمتیاز ٹھہریں
وہ داورِ اہلِ ساز ٹھہریں
یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں
کہ سچ کا پرچم اُٹھا کے نکلیں
تو جھوٹ سے شاہراہیں اٹی ملے ہیں
ہر ایک دہلیز پہ سزاوٰں کی داستانیں رکھی ملے ہیں
جو بول سکتی تھیں وہ زبانیں کٹی ملے ہیں
یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں
کہ اب تعاقب میں رات بھی آئے
تو یہ آنکھیں نہیں بجھیں گی
کہ اب جو دیوار گر چکی ہے
اُسے اُٹھانے کی ضِد نہ کرنا
یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں
جو اہلِ جبہّ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں
نہ جان بیچیں
نہ سر جھکائیں
نہ ہاتھ جوڑیں
پھر جب میں خود 1995 میں پی ٹی کی اینکر بنی تو ان کو لائیو انٹرویو کرنے کا نایاب موقع بھی ملا . اس طرح ان سے میری شناسائی کا سلسلہ شروع ہوا. میں باپ اور شوہر جیسے رشتوں کی بنیاد پر تعلقات نہیں بناتی . کشور ناہید رفتہ رفتہ میری کشور آپی بن گئیں. ہماری ملاقات بہت کم رہی ہے اور نہ ہی میں ان کے قریبی حلقے میں ہوں . مجھ کو خوش رکھنے کے لئیے یہی کافی ہے کہ میں پی ٹی وی پر ان کی "محفل دوستاں” میں شامل تھی. مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ مجھ سے ایک مدھم سا تعلق بھی ان کے اکثر جانے مانے پیس آکٹی وسٹس اور چیمپئن فیمنسٹ دوستوں کو کس قدر کھلتا ہے . اس کے باوجود انہوں نے میرے باپ کے مرنے پر گھر آ کر مجھ سے تعزیت کی تھی اور شائد تب ہی ان کو میرے باپ کا نام معلوم ہوا تھا .اس کے علاوہ انھوں نے مختلف وقتوں میں اپنے جنگ اخبار کے کالمز میں میرا تذکرہ کیا اور انھوں نے مجھے کبھی اس "جرم ” کی سزا نہیں دی جو میں نے کیا ہی نہیں تھا . میں نے ان کو ایک بہت ہی حساس ‘ نرم دل مگر "مس انڈر سٹوڈ” انسان پایا .
میں نے اپنی ایوارڈ یافتہ ٹی وی سیریز میں جب اردو کی فیمنسٹ شاعری کا ایک سیگمنٹ رکھا تو ابتدا ،ان کی نظم کھیل سرائے سے کی تھی .
کھیل سرائے
تم سوامی رام بنے میرے
تم مجنوں قیس بنے میرے
کبھی کھیل لیا
کبھی چھوڑ دیا
کبھی پچکارا
کبھی دھتکارا
کبھی پہنا مسلا پھینک دیا
کبھی پچھواڑے میں داب دیا
کبھی ہاتھ پہ مہندی دکھلا کر
میرے چہرے پہ ہلدی ملدی
کبھی بیگم نام پہنوا کر میری ذات کٹھولی گم کردی
تم سوامی مجنوں یاد کرو
جب صحرا صحرا دوڑایا
میری ایڑی سے چشمے پھوٹے
جب عیب لگا کر دھتکارا
میری کوکھ پیمبر بن دمکی
جب ویشیا کہہ کر پلٹے تھے
میرا بستر عمر تمہاری تھی
تم سوامی مجنوں پل بھر کے
دنیا کہ تماشے میں تم نے مجھے جائے نماز سی عزت دی
دنیا کے ترازو میں تم نے مجھے ہیرے موتی قیمت دی
اس کھیل سرائے سے باہر تم رشتوں کی ٹکسالوں میں مجھے کھوٹا کہہ کر الگ کرو
تمُ شہوت کی دیواروں میں مجھے عزت کہہ کر دفن کرو
مجھے چوکھٹ تھپڑ بپتا دو
مجھے مالک داسی رچنا دو
یہ کھیل سرائے بہت چلا
یہ سجدہ چوکھٹ بہت ہوا
وہ جل مرنا چولہے پھٹنا یہ آگ تماشا بہت ہوا
یہ قیس قبا بے رنگ ہوئی
اس کھیل سرائے سے نکلو
تمُ میرے جیسے انساں ہو
میرے دوست بنو۔۔۔!
میرے دوست بنو۔۔۔۔۔۔!
سال ١٩٩٩-٢٠٠٠ میں اس نظم کا پی ٹی وی پر پیش ہونا بھی ایک نمایاں اور نیا کام تھا، صنف” آہن ” اس وقت بھی تھی . اگر پی آر نہ ہو اور تعصب بہت ہو تو پذیرائی بھی کم کم اور نپے تلے انداز میں ہوتی ہے .
تن تنہا بہت ساری تہمتوں کا بوجھ اٹھا کر اس سنگ دل معاشرے میں رہنا ، پنپنا ، مسلسل لڑتے رہنا -کتنا دشوار ہے یہ راز صرف وہی جان سکتے ہیں جو اس راہ گزرکی مسافت طے کرتے ہیں.میری جنریشن کے لیے اور خاص طور پر اصلی فمنسم کی راہ پر چلنے والوں کے لئیے وہ رول ماڈل تھیں اور رہیں گی .
پچھلی دہائی سے میں آجیزم (ageism ) کے حوالے سے بھی کام کر رہی ہوں اور اس معاملے میں بھی وہ میرے لئیے مشعل راہ ہیں .
عمر میں اس سے بڑی تھی لیکن پہلے ٹوٹ کے بکھری میں
عمر میں اس سے بڑی تھی لیکن پہلے ٹوٹ کے بکھری میں
ساحل ساحل جذبے تھے اور دریا دریا پہنچی میں
شہر میں اس کے نام کے جتنے شخص تھے سب ہی اچھے تھے
صبح سفر تو دھند بہت تھی دھوپیں بن کر نکلی میں
اس کی ہتھیلی کے دامن میں سارے موسم سمٹے تھے
اس کے ہاتھ میں جاگی میں اور اس کے ہاتھ سے اجلی میں
اک مٹھی تاریکی میں تھا اک مٹھی سے بڑھ کر پیار
لمس کے جگنو پلو باندھے زینہ زینہ اتری میں
اس کے آنگن میں کھلتا تھا شہر مراد کا دروازہ
کنویں کے پاس سے خالی گاگر ہاتھ میں لے کر پلٹی میں
میں نے جو سوچا تھا یوں تو اس نے بھی وہی سوچا تھا
دن نکلا تو وہ بھی نہیں تھا اور موجود نہیں تھی میں
لمحہ لمحہ جاں پگھلے گی قطرہ قطرہ شب ہوگی
اپنے ہاتھ لرزتے دیکھے اپنے آپ ہی سنبھلی میں
شائد میرے زیادہ تر قارئین کے لئیے یہ بات دلچسپ ہو کہ کشور ناہید ایک باقاعدہ اینٹرپرینور بھی ہیں اور خواتین کی کی اقتصادی بہتری اور معاشی خود مختاری کے لئیے پاکستان میں قریہ قریہ گھومتی ہیں ، ان کو مڈل مین کے استحصال سے بچنے کے گربتاتی ہیں اور ان کی تخلیق کردہ مصنوعات کو "حوا کرافٹ ” کے پلیٹ فارم سے روشناس کرتی ہیں . انہوں نے پنجاب یونیورسٹی، لاہور سے معاشیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ ایک ورسٹائل شخصیت ہیں – انہوں نے بچوں کے لئے بھی آٹھ کتابیں لکھی ہیں اور بچوں کے ادب کے لئے یونیسکو کا باوقار ایوارڈ بھی جیتا ہے۔ کشور ناہید کی شاعری اور نثر فیمنسٹ لوگوں کو تو جگاتی ہے ، رلاتی ہے، تڑپاتی ہے- کچھ بدلو کچھ کر گزرو کر دینے پر اکساتی ہے —- لیکن روایت پرست اور پدر سری کے سرپرست اور پرستار ان کے صرف اسی یا اس جیسے اشعار کے دلداده ہیں.
کچھ یوں ہی زرد زرد سی ‘ناہید’ آج تھی
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا
عورت سوچتی بھی ہے ای وولو (evolve ) بھی ہوتی ہے، اس کا ارتقا شائد ناقابل یقین یا ناقابل برداشت ہے . شائد یہی وجہ ہو کہ کشور ناہید معروف ہیں شہرت کی بلندیوں پر ہیں لیکن دلبری کے منصب پر فائز نہیں ہیں اور عہدوں کو تو انھوں نے ہمیشہ ٹھوکر ماری ہے ، یہ بھی ان کی شخصیت کا اہم خاصا ہے .
ہمیں دیکھو ہمارے پاس بیٹھو ہم سے کچھ سیکھو
ہم نے پیار مانگا تھا، ہم نے داغ پائے ہیں
آپ کو آپ کی ٨4 ویں سالگرہ مبارک. پاکستان خوش نصیب ہے کہ بلند شہر، یو پی ہندوستان میں ١٨ جون 1940 کو جنم لینے والی سیدہ کشور ناہید ہماری ستارہ امتیاز بھی ہیں.
——–
ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے بھی ایک آواز بن رہی ہیں ۔
بشکریہ ڈاکٹر رخشندہ پروین فیس بک ،عید کی چھٹیوں کے باعث 18 جون کو کالم شائع نہ ہو پایا اس لیئے ابھی شائع ہواہے.