پاکستان کی وفاقی حکومت نے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کو قومی سلامتی کے مفاد میں شہریوں کی فون کالز اور میسجز ’انٹرسیپٹ‘ کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس پر نہ صرف اپوزیشن رہنما بلکہ سماجی کارکن بھی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں جن کی رائے میں یہ اقدام آئین میں دیے گئے شہریوں کے حقوق کے خلاف ہے۔
آٹھ جولائی کو جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کے مطابق وفاقی حکومت نے آئی ایس آئی کے افسران کو یہ اختیار پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1996 کے سیکشن 54 کے تحت دیا ہے اور اس کی بنیاد قومی سلامتی کا تحفظ اور جرائم کا خدشہ ہے۔
ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1996 کی شق 54/1 کے مطابق وفاقی حکومت قومی سلامتی کے مفاد یا کسی جرم کے تناظر میں کسی بھی شخص کو کالز اور میسجز کو انٹرسیپٹ یا کسی ٹیلی کمیونیشن سسٹم کے ذریعے کالز کو ٹریس کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔
تاہم وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ کال ریکارڈ کرنے یا سننے کے عمل کے لیے خفیہ ادارے کی جانب سے جو افسران نامزد کیے جائیں گے وہ 18 گریڈ سے کم کے نہیں ہوں گے۔
ماضی میں پاکستان کے وزرائے اعظم، خاتون اول، وفاقی وزرا اور اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات اپنی ذاتی ٹیلیفونک گفتگو منظر عام پر لائے جانے کا دعویٰ کر چکے ہیں جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی جانب سے ان کی اپنے وکیل سے گفتگو افشا کیے جانے کا معاملہ زیر سماعت ہے۔
اس معاملے کی سماعت کے دوران یہ معلومات بھی سامنے آئی ہیں کہ پاکستان میں ٹیلی کام کمپنیاں ’لا فُل انٹرسیپٹ مینیجمنٹ سسٹم‘ نامی ایک مخصوص نظام کے تحت خفیہ اداروں کو صارفین کا ڈیٹا فراہم کرتی ہیں۔
عدالت نے اس معاملے میں اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ اسے بتایا گیا ہے کہ ملک میں کام کرنے والی ٹیلی کام کمپنیوں نے پاکستانی خفیہ اداراوں کو اپنے دو فیصد (تقریباً 40 لاکھ) صارفین کے فون کال، میسجز اور دیگر ڈیٹا تک ’لافُل انٹرسیپٹ مینجمنٹ سسٹم‘ کے ذریعے رسائی دے رکھی ہے۔
عدالت نے اس معاملے میں اپنے حکم نامے میں یہ بھی لکھا ہے کہ پاکستانی حکومت اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے عدالت کو بتایا تھا کہ کسی بھی ایجنسی کو نگرانی کی اجازت نہیں دی گئی اور حکومتِ پاکستان عدالت میں رپورٹ جمع کروائے کہ ’لا فُل انٹرسیپٹ مینیجمنٹ سسٹم‘ لگانے کا ذمہ دار کون ہے جو شہریوں کی نجی زندگی میں مداخلت کر رہا ہے۔
آئی ایس آئی کو ’فون ٹیپنگ‘ کی اجازت کا دفاع
منگل کو قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ملک کی سب سے اعلیٰ انٹیلیجنس ایجنسی کو ’لافُل انٹرسیپشن‘ کا یہ اختیار 28 سال پرانے قانون پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1996 کے تحت دیا گیا ہے تاکہ قومی سلامتی کے مفاد میں اور ضروری پڑنے پر اس کے اِن اہلکاروں کے پاس ڈیٹا تک رسائی ہوگی جو گریڈ 18 سے اوپر کام کر رہے ہیں اور ان افسران کی ایک فہرست بھی موجود ہو گی۔
انھوں نے راولپنڈی میں سابق وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو اور لاہور میں ڈی آئی جی مبین کے قتل کے مقدمات کا حوالہ دے کر کہا کہ ان میں فون ٹیپنگ اور جیو فینسنگ کے ذریعے شواہد جمع کیے گئے تھے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ وقتاً فوقتاً نوٹیفیکیشن جاری کیے جاتے ہیں جن کے تحت حکومت ایجنسیوں اور ان کے افسران کو قانون کے مطابق اختیارات دیتی ہے۔
’حکومت نے یہ یقینی بنانے کے لیے کہ یہ (اختیارات) انسدادِ دہشتگردی، ملکی سکیورٹی اور جرائم کا پتا لگانے کے لیے استعمال کیے جائیں، اس لیے ’پریمیئر انٹیلی جنس‘ ایجنسی کو نوٹیفکیشن کے ذریعے اختیارات دیے ہیں۔‘
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ حکومت نہیں چاہتی تھی کہ دائرہ کار 50 ایجنسیوں تک پھیلایا جائے اور ’ہر کسی کو اختیارات دیے جاتے تو یہ بھی بُرا تھا۔‘
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ ’انھیں (آئی ایس آئی) کو پابند کیا گیا ہے کہ گریڈ 18 سے اوپر کے افسران کے نام دیے جائیں اور انھیں جو ایریا سونپے گئے ہیں، اس کا بھی بتایا جائے تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہو سکے۔‘
حکومت کی جانب سے ان کی وزارت کو بھیجی گئی سمری کے متعلق وفاقی وزیر کا کہنا تھا جب یہ سمری وزارت کو بھیجی گئی تو اس میں کہا گیا کہ یہ سب کچھ کرتے ہوئے لوگوں کی داتی زندگی اور پرائیوسی کا بھی خیال رکھا جائے گا، اور قانون کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف ایکشن ہوگا۔
وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ کوئی نیا یا انہونا کام نہیں ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون پچھلے 28 سالوں سے لاگو ہے اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسے قوانین موحود ہیں۔ برطانیہ کے قانون ’ٹیلی کام لا فل انٹرسیپشن آف کمینیکیشن ریگولیشن‘ کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہاں بھی یہ چیزیں موجود ہیں۔
’[اس قانون کے] استعمال کے غلط یا صحیح ہونے پر چیک ہو سکتے ہیں لیکن میں ثابت یہ کرنا چاہتا تھا 1996 سے یہ قانون موجود ہے۔‘
حزبِ اختلاف کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ قانون اتنا ہی برا اور ملک دشمن ہے تو چار سال آپ حکومت میں تھے تو اسے ختم کر دیتے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے آئی ایس آئی کو لافل انٹرسیپشن کا مکمل اختیار دیے جانے کی حمایت کی ہے۔
پاکستان کے نجی چینل جیو نیوز سے گفتگو کے دوران انھوں نے قائد حزب اختلاف عمر ایوب پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے رہنما اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے خود ایک انٹرویو میں فون ٹیپنگ اور کال ٹریسنگ کے فوائد بتائے تھے۔
خواجہ آصف نے عمران خان کے الفاظ دہرائے کہ ’میں تو بہت خوش ہوں۔ یہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ میرا اپنا فون ٹیپ ہوتا ہے۔ میری کالز میرے تحفظ کے لیے سنی جاتی ہیں۔‘
ایک موقع پر اینکر شاہزیب خانزادہ نے ’کل کو آپ بھی رسیونگ اینڈ پر ہوں گے‘ تو اس پر وزیر دفاع نے کہا کہ ’میں آپ کی دلیل سے اختلاف نہیں کرتا۔ یہ قانون کا محاورہ ہے کہ آپ وہ چیز مانگیں جس سے آپ کے ہاتھ پاک صاف ہوں۔ یہ (لافُل انٹرسیپشن) ایک ادبی بحث ہے جو سیاسی، عدالتی حلقوں میں ہوسکتی ہے کہ انمرسیشن کن حالات میں کی جا سکتی ہے، کن ضروریات کے تحت کی جا سکتی ہے، کیسے خطرات ہوں۔۔۔ کن لوگوں کی، کی جا سکتی ہے۔ ان تمام چیزوں کووضاحت کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے، مگر بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں یہ کام ہوتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ میں بھی قومی سلامتی کے نام پر لافُل انٹرسیپشن کی جاتی ہے۔ ’یہ کرنا صحیح ہے یا غلط، یہ ایک بحث ہے۔‘
اس پر اینکر شاہزیب خانزادہ نے تبصرہ کیا کہ ’انڈیا میں ایسا یونین ہوم سیکریٹری کی اجازت سے ہوتا ہے۔ برطانیہ میں انٹیلیجنس یا پولیس کا سربراہ باقاعدہ طور پر عدالت سے وارنٹ لیتا ہے، اس کی درخواست دیتا ہے۔
’پاکستان میں تو ویسے ہی کیا جا رہا ہے۔ عدالتیں وزیر اعظم سے کہہ رہی تھیں کہ آپ ایجنسیوں سے رپورٹ طلب کریں اور وزیر اعظم نے پورا اختیار ہی آئی ایس آئی کو دے دیا۔‘
وزیر دفاع نے جواب دیا کہ ’آپ جن ممالک کا نام لے رہے ہیں وہ اپنے ملکوں میں نہیں ہمارے ملک میں ٹیپنگ کرتے ہیں۔ ہماری باتیں سنتے ہیں، جاسوسی کرتے ہیں۔‘
’اوپر ان گنت سیٹلائٹ یہی کام کر رہے ہیں، وہ کون سا ہمیں لوو لیٹر لکھ رہے ہیں۔‘
جب اینکر نے پوچھا کہ وہ اپنے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین بناتے ہیں اور ’ہم بھی اپنے شہریوں کے لیے بات کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم نے پورا اختیار ہی آئی ایس آئی کو دے دیا۔‘
اس پر وزیر دفاع نے کہا کہ ’اس کا مطلب ہے جنھیں آپ مثالی جمہوریت کہتے ہیں ان میں بھی دوہرے معیار ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ قومی سلامتی کی من مرضی کی تعریف بنا لی جاتی ہے تو خواجہ آصف نے کہا کہ ’ہم نے اے پی سی (آل پارٹیز کانفرنس) بلائی ہے۔ اس میں یہ سارے اصول طے کر لیتے ہیں۔‘
آئی ایس آئی کو ’کھلی چھوٹ‘ ملنے پر اتنی تنقید کیوں؟
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف عمر ایوب خان کا کہنا ہے کہ یہ نوٹیفیکیشن شہباز شریف نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ کسی انٹیلی جنس ایجنسی کو ایسی ’کھلی چھوٹ‘ صرف ایک فاشسٹ حکومت ہی دے سکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’شہباز شریف نے عملی طور پر اپنی شہ رگ کاٹ دی ہے کیونکہ آئی ایس آئی اس حکم کے ذریعے بلاول بھٹو، آصف زرداری، مریم نواز، تمام سیاستدانوں اور میڈیا والوں کو بلیک میل اور تنگ کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔‘
اپوزیشن لیڈر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے وکیل بابر اعوان کے ذریعے اس حکم کو چیلنج کریں گے کیونکہ یہ غیر آئینی ہے اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے منافی ہے۔
پاکستانی سوشل میڈیا پر صارفین کی ایک بڑی تعداد اس فیصلے کی مخالفت میں سامنے آئی ہے اور اسے اپنے بنیادی حقوق سے متصادم قرار دیا ہے۔
وکیل ردا حسین کی رائے میں یہ حکومتی اقدام اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس بابر ستار کے حکم کی خلاف ورزی ہے جنھوں نے اپنے حکمنامے میں لکھا تھا کہ ’انویسٹیگیشن آف فیئر ٹرائل ایکٹ 2013 کے مطابق انٹرسیپشن کے لیے جوڈیشل وارنٹ ضروی قرار دیا گیا ہے۔‘
صحافی عباس ناصر کا کہنا ہے کہ ’ہائبرڈ حکومت نے پاکستانیوں سے ان کی پرائیویسی چھین لی ہے اور آئی ایس آئی کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ شہریوں کی نجی، ذاتی گفتگو کی نگرانی کرے۔ ہائبرڈ سسٹم چین جیسا آمرانہ نظام لانا چاہتا ہے، معاشی پیداوار کے بغیر۔‘
سماجی کارکن عمار راشد نے شہباز شریف کی حکومت کو دہائیوں کی سب سے کمزور سویلین حکومت قرار دیا ہے جبکہ صارف حمد نواز نے طنزیہ کہا کہ وہ ملک میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی سربراہی میں اس ’ترقی پسند صبح‘ کو بہت پسند کر رہی ہیں۔
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی سربراہ نگہت داد کا خیال ہے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 14 کے مطابق شہریوں کو پرائیویسی کا حق حاصل ہے اور اب آئی ایس آئی کو ان کی کال ٹیپ کرنے کا مکمل اختیار دینا اس سے متصادم ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ نوٹیفیکیشن کے ذریعے آئی ایس آئی کو ایک بلا رکاوٹ اور وسیع اختیار دیا گیا ہے حالانکہ ’کسی بھی ملک میں جب سرویلنس کی جاتی ہے تو اس کے کچھ قوائد و ضوابط طے ہوتے ہیں جو کہ ہماری اعلیٰ عدالتوں نے بھی کئی بار طے کیے ہیں۔‘
نگہت داد کہتی ہیں کہ فیئر ٹرائل ایکٹ میں بھی یہ کہا گیا کہ کسی کی سرویلینس یا کال ریکارڈنگ کے لیے ہائیکورٹ کے جج سے وارنٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔
ان کی رائے میں یہ اقدام تشویش ناک ہے اور اس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں جیسے ’کون اوورسائٹ (نگرانی) کرے گا؟ کیا قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے؟ کیا کسی خلاف ورزی کی صورت میں احتساب ہوگا؟ کیا ان شہریوں کی بھی پرائیویسی خراب ہوگی جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں؟‘
’جب سرویلنس کے حکمنامے جاری ہوتے ہیں تو یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس کا کیا مقصد ہے، اس کی قانونی حیثیت کیا ہے، اس کی ضرورت کیوں ہے اور اس حوالے سے کیا حدود طے کی جا رہی ہیں۔۔۔ آپ انٹرنیشنل لا اور ہمارے آئین کو پورا کیے بغیر خود کو اس چیز کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘
دوسری طرف ٹیکنالوجی کے امور پر حکومت کو تجاویز دینے والی ایوروکس نامی ٹیکنالوجی کمپنی کے سربراہ سلمان محمود کہتے ہیں کہ لیگل انٹرسیپشن کے بعض فوائد بھی ہیں جیسے اس کی مدد سے دنیا بھر میں دہشتگردی کے واقعات روکے گئے ہیں۔
تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ قانون یہ اجازت نہیں دیتا کہ کسی کی پرائیویسی پر سمجھوتہ کیا جائے مگر ان کے مطابق وسیع تر مفاد میں دیکھا جائے تو بعض صورتوں میں پرائیویسی کی بجائے یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ آیا کسی کی زندگی کو کوئی خطرہ تو لاحق نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ لافُل انٹرسیپشن میں اب ’مختلف تکنیک موجود ہیں، مثلاً سسٹم ’کی ورڈز‘ (مخصوص اصطلاحات) کی مدد سے بھی چلایا جاتا ہے۔ آپ بعض مخصوص الفاظ کی مدد سے یہ دیکھ سکتے ہیں کہ آیا اُس بارے میں گفتگو ہو رہی ہے اور اسے ٹریک کرنا شروع کر دیتے ہیں۔‘
سلمان نے بتایا کہ جیسے کوئی طویل گھنٹوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں دیکھ سکتا، اسی طرح پورا دن کسی کی کالز نہیں سنی جا سکتیں۔ ’یہ غلط فہمی ہے کہ لوگوں کی اپنی فملی یا دوست احباب کے ساتھ کی جانے والی گفتگو سنی جا رہی ہوتی ہے۔ صرف وہ کالز سنی جاتی ہیں جن کے حوالے سے سسٹم رجحانات کی بنیاد پر نشاندہی کرتا ہے۔‘
تاہم وہ اتفاق کرتے ہیں کہ ان سسٹمز کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے جن کی مدد سے لا فُل انٹرسیپشن کی جا رہی ہوتی ہے اور اب مصنوعی ذہانت کے ذریعے کئی چیزوں کو خودکار بنایا جاسکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں دیگر ممالک کی طرح پہلے سے لافل انٹرسیپشن ہو رہی ہے مگر اب اسے مزید قانونی جواز فراہم کیا گیا ہے اور اس میں موجود خامیاں دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو