"تم ایک مینٹل کیس ہو” ؛ گیس لائٹنگ سے بچیں

زندگی کے کئی خانوں میں ایک ماضی کا ڈسٹ بن بھی ہوتا ہے جو خالی کر بھی دو تو اپنی بساند زندہ رکھتا ہے . میرے پاس ایک ہی شخص کے خوشبو بھرے خط بھی ہیں اور نفرت بھرے ازیت نامے بھی ہیں . وہ تو الزامات کی بوچھاڑ کر کے اس دنیا سے بھی چلے گئے. "تم ایک مینٹل کیس ہو” کتنی بار انھوں نے لکھا تھا . میرے پاس غم ، آنسو، تنہائی اور رسوائی ہے. میں اتنی خوفزدہ تھی اور ان کا اتنا احترام بھی تھا پھر بھرم رکھنے کا بھی معاملہ تھا کہ پلٹ کے جواب بھی نہ دیا. صفائی کس کو دیتی ؟ کیا ان کو معلوم نہیں تھا کہ میں کون ہوں ؟ میرا حق کیا ہے ؟ میری الجھن کیا ہے ؟ لوگ میرے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ اب میں کیا کروں؟ کس کو مدعی کروں ؟ کس سے منصفی چاہوں ؟ کہاں جاؤں ؟ وہ ایک پچاس سالہ خاتون تھیں اور ایک چھوٹے بچے کی طرح رو رہی تھیں.

میں نے ان کو تین تجاویز دے دیں . دوسروں کو مشوره دینا اور اپنے ڈا کٹری لائسنس کا استعمال میں کم ہی کم کرتی ہوں . پہلی تجویز یہ کہ آپ ایک مہنگے کلینکل ماہر نفسیات کی مریضہ بن جائیں. پیسےخرچ کر کے شائد سکون حاصل ہو یا عارضی طور پر دھیان بٹے . میں نفسیاتی علاج کی مخالف نہیں ہوں مگر معالج قابل بھروسہ ہو اور بہت مہنگا نہ ہو . پاکستان میں ایسا مجھے خال خال ہی نظر آیا .

دوسری تجویز یہ ہے کہ آپ کشور ناہید کی خودنوشت "بری عورت کی کہانی” پڑھ لیں یا پروین شاکر کی کچھ تلخ نظمیں پڑھ لیں. شائد آپ کو سکون ملے کہ اتنی زہین عورتوں کو بھی گھر اور دفتر میں کیا کچھ سنے کو اور سہنے کو ملا.

تیسری تجویز یہ ہے کہ آپ اس شخص پر رحم کھا لیں کہ اس نے اپنی سفاکی اور ستم گری کو چھپانے کے لیے آپ کو گیس لائٹنگ کا بڑی مہارت سے نشانہ بنایا. اس پر وہ روتے روتے ایک دم چپ ہو گیئں اور کہنے لگیں کہ یہ لفظ سنا ہے مگر اس کا مطلب کیا ہے؟

میں نے جو اُن کو بتایا اس کو آج کا کالم جان لیں جو چار ہفتوں کی غیر حاضری کے بعد آج لکھا گیا.

انگریزی کے ایک لفظ "گَیس لائٹنگ” کی ابتداء 1938 کے ایک ڈرامے سے ہوئی ہے، جس کا نام Gas Light ہے، جسے برطانوی ڈرامہ نگار پیٹرک ہیملٹن نے لکھا تھا۔ یہ ڈرامہ بعد میں 1940 اور 1944 میں دو فلموں میں ڈھالا گیا۔ کہانی میں، ایک آدمی اپنی بیوی کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ وہ پاگل ہو رہی ہے، گیس لائٹس کو مدھم کر دیتا ہے اور پھر انکار کرتا ہے کہ روشنی کی سطح میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ اس قسم کی ذہنی مداخلت "گَیس لائٹنگ” کے نام سے جانی جانے لگی، اور اب اسی طرح کی تکنیکوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے جو کسی کو اپنی حسوں یا حقیقت پر شک کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔

گَیس لائٹنگ کے رویوں کی مثالوں میں شامل ہیں؛ ایسی چیز کا انکار کرنا جسے دوسرا شخص سچ جانتا ہو، ان کے بارے میں افواہیں پھیلانا، اور متاثرہ شخص کو الزام دینا۔ گَیس لائٹنگ کے ذہنی صحت پر اثرات میں بے بسی، الجھن، تنہائی، غیر یقینی صورتحال، اور کم خود اعتمادی شامل ہیں.

اردو میں "گَیس لائٹنگ” کو دماغی دھوکہ دہی کہا جا سکتا ہے، جو "نفسیاتی فریب” کے معنی میں ہے۔ یہ اصطلاح کسی کو ان کی اپنی حقیقت پر شک کرنے کے لیے چلانے کی نوعیت کو ظاہر کرتی ہے.

گَیس لائٹنگ کسی بھی شخص کو متاثر کر سکتی ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، یہ مختلف قسم کے تعلقات میں ہو سکتی ہے۔ گَیس لائٹنگ دونوں مردوں اور عورتوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مداخلت کس طرح کی جارہی ہے، نہ کہ متاثرہ شخص کا جنس۔ گَیس لائٹنگ اکثر رومانوی شراکت داروں یا شوہر اور بیوی کے درمیان ہوتی ہے۔ ایک پارٹنر دوسرے کی حقیقت کی تفہیم کو کمزور کرنے کے لیے مداخلت کر سکتا ہے۔

گَیس لائٹنگ دوستوں، خاندان کے اراکین، کولیگوں، اور یہاں تک کہ پیشہ ورانہ ماحول میں بھی ہو سکتی ہے۔

میرے نزدیک تو یہ بھی صنفی تشدد ہے مگر یاد رکھیں کہ عورتیں دوسری عورتوں کو گَیس لائٹ کر سکتی ہیں؛ جی ہاں، عورتیں دوسری عورتوں کو بھی گَیس لائٹ کر سکتی ہیں۔ گَیس لائٹنگ کی بنیاد جنس پر مبنی نہیں ہوتی؛ یہ مداخلتی رویئے اور متاثرہ شخص پر اس کے اثرات کے بارے میں ہے۔ یعنی گیم ساری پاور کی ہے . جو کمزور ہے، جس کی گردن پتلی ہے اسی کے گرد گھیرا تنگ ہے.

گسلائٹنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے چند مؤثر طریقے ہیں:

1. علامات کو پہچانیں

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ گیس لائٹنگ کیسی ہوتی ہے۔ عام علامات میں واقعات یا حقائق کی تردید، آپ کی یادداشت یا مشاہدے پر شک کرنا، اور آپ کو الجھن یا عدم اعتماد میں مبتلا کرنے والی چالاکیاں شامل ہیں۔

2. اپنی ادراک پر اعتماد کریں

اپنے تجربات اور جذبات پر یقین رکھیں۔ گیس لائٹنگ آپ کو خود پر شک کرنے پر مجبور کرتی ہے، اس لیے حقیقت پر قائم رہنا ضروری ہے۔

3. سب کچھ دستاویز کریں

واقعات، گفتگو، اور کسی بھی دھوکہ دہی کی کارروائیوں کا ریکارڈ رکھیں۔ تحریری دستاویزات آپ کو حقیقت کی بنیاد فراہم کر سکتی ہیں اور آپ کو مستحکم رکھنے میں مدد کر سکتی ہیں۔

4. حمایت حاصل کریں

دوستوں، خاندان یا کسی اچھے قابل بھروسہ ماہر نفسیات سے بات کریں۔ وہ آپ کے تجربات کو درست تسلیم کر سکتے ہیں اور بہتر طریقے سے صورتحال کا سامنا کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

5. حدود مقرر کریں

گیس لائٹر کے ساتھ واضح حدیں قائم کریں۔ انہیں بتائیں کہ آپ کون سی حرکت برداشت نہیں کریں گے اور ان حدود پر قائم رہیں۔

6. خود کی دیکھ بھال کریں

ذہنی اور جذباتی صحت کو فروغ دینے والی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کریں۔ یہ آپ کو دھوکہ دہی کے اثرات سے بچانے میں مدد کرے گا۔

7. پیشہ ورانہ مدد پر غور کریں

معالج یا مشیر گیس لائٹنگ کا سامنا کرنے کے طریقے فراہم کر سکتے ہیں اور آپ کی خود اعتمادی اور خود اعتمادی کو دوبارہ تعمیر کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

8. جھگڑالو بات چیت سے گریز کریں

گیس لائٹر اکثر تنازعہ سے خوش ہوتے ہیں۔ جھگڑالو بات چیت میں مشغول ہونے کی بجائے، اپنی ذہنی وضاحت برقرار رکھنے پر توجہ دیں۔

یہ طریقے اپنانے سے آپ گیس لائٹنگ کے اثرات کو بہتر طور پر منظم کر سکتے ہیں اور اپنی شناخت برقرار رکھ سکتے ہیں۔

گیس لائٹنگ ایک نفسیاتی زیادتی یا دھوکہ ہے، جس میں زیادتی کرنے والا شخص اپنے شکار کے ذہن میں خود سے شک اور الجھن بکھرانے کی کوشش کرتا ہے۔ عموماً گیس لائٹنگ کرنے والے افراد دوسرے شخص پر قدرت اور کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حقیقت کو بدل کر اور انہیں ان کی اپنی فیصلہ سازی اور بصیرت پر شک کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔شکار کو الزام دینا یعنی وکٹم بلمینگ بھی گیس لائٹنگ کی ایک شکل ہے۔

ان خاتون نے کیا کیا? یہ تو میں نہیں بتا سکتی ہوں نہ ہی اس سے کسی کو کوئی غرض ہونی چاہیے . لیکن ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ جب میں اپنی تقریر ختم کر کے اٹھی تو سر کسی چیز سے ٹکرا گیا . دیکھا تو کمرے کا قد آدم آئینہ تھا.

ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس بارہ سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں پاکستانی بہاری محصورین کے کےحوالے سے آگاہی بیدار کر رہی ہیں .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے