کشمیریوں کی نئے سیاسی فیصلوں پر سید صلاح الدین کو تشویش کیوں؟

جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کی ریاستی الیکشن میں حصہ لینے کی تیاری ہورہی ہے، جس کے خلاف پاکستان میں مقیم چئیرمین حریت کانفرنس غلام محمد صفی صاحب اور حزب المجاہدین کے امیر سید صلاح الدین صاحب نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ایک اخبار میں جماعت اسلامی جموں وکشمیر کی عسکری ونگ ، حزب المجاہدین کے سپریموں ، محترم سید صلاح الدین صاحب نے ایک بیان میں “ جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر کے حالیہ فیصلے افسوس ناک اور ناقابل قبول ہیں “ قرار دیا ہے .

ان سے پہلے میری نظروں سے کشمیر میں جماعت کے سرگرم رہنما اور اس وقت حریت کانفرنس آزاد کشمیر چیپٹر کے چئیرمین محترم غلام صفی صاحب کا بھی ایسا ہی بیان گزرا ہے – وہ فیصلے کیا تھے ، اس کا تذکرہ تو ان کے بیانات میں موجود نہیں لیکن مقبوضہ کشمیر جماعت اسلامی کی چھوٹی بڑی قیادت کے اس سال مئی سے تواتر کے ساتھ یہ بیان چلے آرہے ہیں کہ اگر جماعت سے پابندی اٹھائی گئی تو وہ پہلے کی طرح ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے گی – اس کی تفصیل مجھے ہندوستانی اخباروں میں پڑھ کر حقیقت کا ادراک ہوا.

جماعت اسلامی کشمیر، آزاد کشمیر کی جماعت اسلامی کے برعکس ، جماعت اسلامی ہند کا حصہ نہیں نہ اس کی پارٹی کی پالیسی کی پابند ہے – جماعت اسلامی ہند صرف تبلیغی اور نظریہ اسلام کے فروغ پہ کام کرتی ہے جبکہ جماعت اسلامی کشمیر 1972 سے 1987 تک مسلسل اسمبلی اور پارلیمنٹ کے انتخاب لڑتی رہی ہے – خود سید صلاح الدین صاحب نے بھی الیکشن لڑا تھا – 1987 کے اسمبلی انتخاب کی ریکارڈ دھاندلی کے بعد جماعت اسلامی نے باقی مقامی عَلَیحِدَگی پسند جماعتوں “ مف “ MUF کے ساتھ مل کر اسمبلی انتخابات کا بائیکاٹ کیا جو ابھی تک جاری ہے .

اگر ہندوستان نے “ مف “ کو ہرانے اور فاروق عبد اللہ کو اقتدار میں لانے کے لئے دھاندلی نہ کی ہوتی ، نہ جماعت نے بائیکاٹ کیا ہوتا، نہ حریت کانفرنس وجود میں آئی ہوتی اور اگر مف کی ابتدائی تحریک اسی طرح سیاسی طور چلی ہوتی اور اس میں گن کلچر شامل نہ ہوا ہوتا ہندوستان کو اسے سنبھالنا ناممکن ہوتا جس کا ثبوت وزیر اعظم ہند نرسما راؤ کی sky is the limit for autonomy اور نہ ہی اس تحریک کو دہشت گرد اور اس پشت بانوں پر دۂشت گردی کا الزام لگتا.

نرسما راؤ کی پیشکش کے بعد نریندرا مودی ہی کی حکومت کے دوران 2016 میں ہندوستان کے ستائیس سرکردہ رہنماؤں سے ملاقات سے انکار کردیا، جن کی قیادت اس وقت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور وزیر خزانہ ارون جیٹلی کر رہے تھے ، بلکہ مرحوم گیلانی صاحب نے گھر کا دروازہ ہی نہیں کھولا – پھر 2019 میں ان کا انتقام بھی دیکھ لیا – معاملات روٹھنے سے نہیں بار بار اور مسلسل بات چیت اور ملاقاتوں سے حل ہوتے ہیں – یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے تھا اور رہنا چاہئے – کشمیر کے تشخص اور اس کے مسائل کا تزکرہ بھارتی پارلیمنٹ اور کشمیر اسمبلی میں جاری رہنا بھی کشمیر کاز کی بڑی خدمت ہے ، بھلے وہ مین سٹریم سیاست دان کریں یا آزادی پسند – اس کا زندہ رہنا ہی اس کی کامیابی کا ضامن ہے –

میری معلومات کے مطابق بائیکاٹ کے فیصلہ میں جماعت اسلامی سے زیادہ مرحوم عبد الغنی لون اور لبریشن فرنٹ کے محترم یاسین ملک زیادہ متشدد تھے جو کچھ عرصہ بعد ہندوستان کے ساتھ مکالمہ کے لئے تیار ہوگئے لیکن جماعت اسلامی کو نکلنا نہیں آیا – میری اطلاع کے مطابق لون صاحب مرحوم نے دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی ایک میٹنگ میں گیلانی صاحب اور دیگر لیڈروں کو جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے حریت کے رہنما فردوس عاصمی کو دہلی میں حریت کے ترجمان کے عہدے سے فوری طور بر طرفی کا مطالبہ کیا جو انتخاب کے حق میں پر چار کرتے تھے ، جبکہ خود کرگل کی جنگ کے بعد اپنی رائے بدل دی – جماعت کے جو لوگ جیل سے باہر رہے ان کی اکثریت الیکشن کے حق میں رہی ہے-

میری یاداشت کے مطابق کشمیر کے بارے میں جماعت اسلامی کا ابتدائی آئینی موقف “اقامت دین “ تھا اور “دارلاسلام سیاسی اصطلاع کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا- لیکن حریت کانفرنس کا آئین بننے کے بعد اس کا موقف اور حریت میں شامل باقی جماعتوں کا ایک ہی رہا “ یو این قرار دادو کے مطابق حق خود ارادیت “- حق خود ارادیت کی مزید وضاحت میں “ ریاست کے آزاد ی اور خود مختاری “ بھی شامل ہے ، جو لبریشن فرنٹ کو حریت کے دائیرے کے اندر لانے کے لئے رکھا گیا تھا – تاہم سید علی گیلانی کی تحریک حریت کی طرح غیر مبہم “ ہم پاکستانی ہیں ، پاکستان ہمارا ہے “ نہیں – میری یاداشت کے مطابق جماعت کے نمایاں کرتا دھرتا لوگوں میں سے غلام احمد بٹ امیر جماعت اسلامی، غلام حسن اور متعدد لوگ جن میں سے اکثر نظر بند بھی نہیں کئے گئے ، ملیٹنسی کے خلاف اور الیکشنز کے حق میں تھے، جو نظر بند ہیں انہوں نے جماعت سے پابندی ھٹا کے الیکشن میں حصہ لینے کے لئے حکومت کے ساتھ بات چیت بھی شروع کر دی ہے –

اخباری رپورٹوں کے مطابق جماعت کی شوری نے ریاستی الیکشن میں حصہ لینے کے لئے ہندوستانی حکومت سے جماعت پر سے پابندی اٹھانے کے لئے جماعتی کارکنوں کا ایک پینل بھی مقرر کیا ہے – چند دن پہلے جیل سے پیرول پر رہا ہونے والے سابق امیر جماعت ڈاکٹر عبد الحمید گنائی المعروف ڈاکٹر حمید فیاض صاحب اور سابق سیکریٹری جنرل عبد الحمید گنائی المعروف فہیم محمد رمضان نے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے مجلس شوری سے مقرر کردہ پینل کی سفارشات پر عمل کرنے کا واشگاف عندیہ دیا ہے اور یہاں تک بھی کہا کہ “ جماعت ہمیشہ الیکشنز میں ہر سطح پر حصہ لیتی رہی ہےُیہ کوئی نئی بات نہیں” – ان کی ویڈیو بیان سے بین السطور یہ بات واضع ہے کہ جماعت کا پینل حکومت سے بات کر رہا ہے پابندی اٹھانے کی بات چیت چل رہی ہے اور پابندی اٹھائی جانے کی صورت میں وہ آئیندہ اسمبلی انتخاب میں حصہ لے گی .

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق حالیہ پارلیمانی الیکشن میں جیل سے باہر جماعت کے لیڈروں نے کئی انتخابی حلقوں میں جلسے بھی کئے اور ووٹ بھی ڈالے – رپورٹس کے مطابق اس الیکشن میں رضاکارانہ طور پچاس فیصد سے زائید ووٹرز نے ووٹ ڈالے جبکہ اس سے پہلے انتظامیہ اور فوجی دباؤ کے باوجود ٹرن آوٹ نہ ہونے کے باوجود ہوتی تھی –

یہ صورت حال ہندوستانی، بلکہ بی جے پی حکومت کے فائدہ میں ہے – جماعت اسلامی کا کشمیر میں کافی اثر رسوخ ہے اور جماعت کے سکولوں ، یتیم خانوں اور دیگر فلاحی اداروں کے زریعہ لوگ مستفید ہوتے رہے جو پابندی لگنے کی وجہ سے ان سہولتوں سے محروم ہو گئے ہیں – ہندوستانی پریس نے یہ رپورٹنگ بھی کی ہے کہ کچھ یتیم خانے کے بچوں اور بیواؤں کی اب RSS نگرانی کر رہی ہے -کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ جماعت اسلامی کے اثر رسوخ ، لوگوں میں ساکھ اور فلاح اداروں کے زریعہ خدمت کے پیش نظر حکومت ہند کو دائش ، القاعدہ اور دنیا کی دیگر ایسی شدت پسند تنظیموں کے اثر و رسوخ پھیلنے سے روکنے کا موقع ملے گا اور یہ کشمیر میں ایک ڈھال ثابت ہوگی –

بارہمولہ کے پارلیمانی حلقے سے عبد الر شید انجینئیر جیسے بے باق لیڈر کے جیل میں ہونے کے باوجود غیر معمولی اکثریت سے جیتنے نے حکومت ہند کو ہلا کے رکھ دیا ہے – اس پارلیمانی حلقے میں اسمبلی کی چودہ نشستیں ہیں – اگر یہ ٹرینڈ اور ٹیمپو قائم رہا تو اس حلقے کی چودہ نشستیں یقینا مین سٹریم جماعتوں کے خلاف ہونگی – اس کے علاوہ صوبہ کشمیر کے دیگر حلقوں میں بھی جماعت اسلامی کا کیڈر موجود ہے جو باقی نشستوں پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے – حالیہ حلقہ بندیوں میں پونچھ اور راجوری کو اننت ناگ کے ساتھ شامل کر کے مسلمان دوٹروں کو مزید consolidate کردیا ہے ایسی صورت میں دفعہ 370 اور لاکھوں غیر ریاستی باشندوں کو کشمیر میں بسانے کا خواب چکنا چور ہو جائے گا – “سارا جاتے دیکھیئو آدھا دے جئیو بانٹ “ کی مصداق جماعت اسلامی کے ساتھ ہاتھ ملانا بی جے پی کے لئے کوئی مہنگا سودا نہیں – دونوں جماعتیں اپنے اپنے مذہب کی بالا دستی کی داعی ہیں – “ “ قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو ؛ خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو” اس سے مودی جی کے” شیخوں اور مفتیوں” کو مٹانے کا عزم بھی “ پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے “ جیسی مثال ہوگی – جس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے “پاسباں مل گئے پنڈتوں کو آستانوں سے-“

البتہ سید صلاح الدین صاحب حزب المجاہدین کے قائد کی حیثیت سے جانے پہچانے اور مانے جانے والی شخصیت ہیں جن کا ماضی میں عسکری تحریک کے حوالے سے بڑا کردار اور نام رہاہے، کی مخالفت سے جماعت اسلامی کشمیر کو الیکشن میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا- لان کی مخالفت سے جہاں کشمیر میں جماعت کو مشکلات ہونگی وہاں ان کی حمایت سے بھی جماعت اسلامی اور بی جے پی” کو مقامی اور مرکزی سیکولر جماعتوں کے ہاتھوں مطعون کرنے کا بھر پور موقعہ ملے گا کہ “ یہ دہشت گردوں کا گھٹ جوڑ ہے” – ایسے حالات میں سید صلاح الدین صاحب کا موقف بہر صورت دو دہاری تلوار ہے-

میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ جماعت اسلامی عوامی مفاد کی کسی بھی سیاسی یا سماجی تحریک کے وجود میں آنے کے بعد شامل ہوتی ہے ، اس پر غالب آجاتی ہے لیکن پھر اس سے نکلنا نہیں آتا – میں نے کشمیر کی تحریک میں بھی ایسا ہی مشاہدہ کیا ہے – عَلَیحِدَگی کی تحریک محاز رائے شماری کے بعد لبریشن فرنٹ نے عسکری مذاہمت بھی شامل کی ، جماعت اسلامی اس کے بعد شامل ہوئی لیکن سب پر غالب آگئی – باقی تو نکل گئے لیکن حالات بدلنے کے با وجود بھی یہ اسی کی اسیر رہی – مرحوم گیلانی صاحب پہلے عسکری مزاحمت کے خلاف تھے، الیکشن کے حق میں تھے لیکن بعد ازاں ان میں ایسے شامل ہوئے کہ جیسے بانی مبانی وہی ہیں – مرتے دم تک الیکشن سے بائیکاٹ اور مختلف نوعیت کی عسکریت اور عوام الناس کی سوچ و فکر پر غالب تھے .

جماعت اسلامی پر 2019 علاوہ 1975 اور 1990 میں بھی پابندی لگ چکی ہے – غالبآ 1972 والی اسمبلی میں حزب اختلاف کی قیادت بھی جماعتی اسمبلی کے قاری سیف الدین صاحب مرحوم کے پاس تھی – خود گیلانی صاحب مرحوم تین بار اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں لیکن شنید ہے کہ 1990 کے بعد وہ سابق ممبران اسمبلی کی مراعات کی سہولیات سے مکمل طور دستبردار ہوگئے – اور الیکش کے بھ خلاف رہے –

میں 2005 سے 2017 تک کئی بار کشمیر گیا اور جب بھی گیا وہاں بلا تفریق ان سب لوگوں سے ملتا رہا جن کے ساتھ 1976 تک میری براہ راست شناسائی تھی – ان میں حریت اور ہندوستانی قومی دھارے والے بھی شامل تھے – یقین مانیں کہ کشمیر کے تشخص اور حالات کے حوالے سے سب کا concern اور خواہش ایک جیسی تھی – اس زمانے میں مرکز میں سیکولر اور لبرلز کا کافی اثر رسوخ تھا جو 2014 کے بعد کم ہوتا ہوا بی جے پی کے جبر کے تحت 2024 تک مفقود ہوگیا –

اس زمانے میں دنیا کے حالات اتنے گھمبیر اور کشمیر کے حوالے سے دنیا اتنی لا تعلق بھی نہیں تھی – پاکستان دنیا میں ایک مقام رکھتا تھا اور ایک مضبوط فریق کے طور ہندوستان کی کشمیر پالیسی پر اثر انداز بھی ہوتا تھا – کشمیر کی آزادی پسند اور ہندوستان نواز پاکستان کو اپنی پالیسیز کا محور سمجھتا تھا – مفتی سعید ، فاروق عبد اللہ ، پیپلز لیگ کے سجاد لون کے بالخصوص اور دوسروں کے کشمیر کے حل کے بارے میں فارمولوں کا مرکز و محور پاکستان ہوا کرتا تھا – اس کے بعد ، بالخصوص 2019 کے بعد کشمیر کو متنازعہ کہنا غداری اورپاکستان کا نام لیوا غدار سمجھا جارہا ہے –

میں اس زمانے میں بھی حریت اور دیگر سب آزادی پسند تحریکوں کے انتخابات میں حصہ لینے کے حق میں تھا اور آج بھی ہوں – آزادی کی تحریک میں عوام اور تحریک پر اثر انداز ہونے والے کسی پلیٹ فارم کو خالی نہیں چھوڑنا چاہئے خواہ وہ Bullet ہو یا Ballot – گیلانی مرحوم سے اس بات پر میرا اکثر مکالمہ ہوا کرتا تھا – وہ اس سلسلے میں گوکہ سخت گیر تھے لیکن اس حد تک نرمی دکھاتے تھے کہ “ آپ وہاں اپنوں کو بھی مناؤ”- میری دلیل یہ ہے کہ یہ ایک عوامی عمل ہے اور عوامی سماجی اور انتظامی نظام کا حصہ ہے – اس میں حصہ نہ لینے والوں سے عوام دور ہوجاتی ہے اور غیر مستحکم جمہوری نظام میں ان سے تعلق رکھنے والے عوامی مفادات کے روز مرہ کے کاموں سے محروم رہتے ہیں –

ان کی جائز بات بھی جائز اور مناسب جگہ تک نہیں پہنچتی – 1996 کے بعد کشمیر میں بائیکاٹ کی وہ حیثیت نہیں رہی جو اس سے پہلے تھی- مفتی محمد سعید صاحب مرحوم کی حکومت کے دوران پٹن کے انتخابی حلقے میں مرحوم گیلانی صاحب اور یاسین ملک صآحب گھر گر جاکر بائیکاٹ کی اپیل کرتے تھے – مجھے بتایا گیا کہ ایک گاؤں میں ایک دیہاتی نے گیلانی صاحب کو کہا کہ ہماری زندگی اور موت آپ کے ساتھ ہے آپ کو صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نالے کے اس پار افتخار انصاری صاحب کا حلقہ ہے، اس نے وہاں ترقیاتی کام کرائے ہیں، ان کی سڑکوں ، پانی ، بجلی دیکھیں اور ہماری حالت دیکھیں ، ہم اس کے لئے کس کے پاس جائیں ، کیا ہم اپنے کھیتوں کو درکار پانی کے لئے آزاد ی کا انتظار کریں ؟ یہ زمینی حقائق ہیں اور یہی آج بھی ہیں – ہندوستان اور پاکستان کے عام اور بے نوا لوگوں کے مسائل ایک جیسے ہیں اور ان کا حل سرکار کے اندر طاقت ور آواز کے زریعہ ہی حل ہوتے ہیں اور وہ طاقت ور لوگوں کے نمائیندے ہوتے ہیںُ –

پاکستان میں مقیم عام جذباتی لوگوں کو اس بات کا ادراک نہیں ہو سکتا کہ وادئی کشمیر کے لوگ بالخصوص اور باقی ریاست کے مذاہمت کا ر جس کرب کی زندگی گذار رہے ہیں – کسی کا بچہ ، کسی کا خاوند ، کسی کا بھائی اور ایسے ہی دیگر رشتے کے عزیز یا تو لاپتہ ہیں یا ہندوستان کے مختلف کونوں کی ایسی جیلوں میں جن کے نام سے لوگ کانپتے ہیں ، جہاں ان سے ملاقات ممکن نہیں ، اگر ممکن بن سکے تو وہاں پہنچنے کی مالی اور جانی سکت نہیں – گھر میں کوئی کمانے والا ، یتیموں کو پڑھانے والا، بہنوں بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے والا –

اس پہ ظلم یہ کہ ہندوستانی فوجوں کا غلبہ ، ان عزیزو رشتہ داروں کی جائیداد چھینی جارہی ہے، جن کا تعلق عسکریت سے رہا ہو یا اس وقت پاکستان میں ہیں ، غیر کشمیری اڑوس پڑوس میں آباد ہورہے ہیں، مقامی معاملات پر اثر انداز ہونے والے قوانین مقامی اسمبلی کے بجائے ہندوستانی پارلیمنٹ بنا رہی ہے – چند دن پہلے پارلیمنٹ کے اندر ریاست کے لئے بجٹ سشن میں میں روح اللہ .. کی تقریر نے کم از کم عام کشمیریوں کی آس تو بندھائی لیکن اس سے پارلیمنٹ کاور مرکزی حکومت کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف بولنے والی کوئی آواز نہیں – مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے اندر حریت اور حزب کے قائیدین کے علاوہ کیمپوں میں آباد مہاجرین کو اس کا یقیناً ادراک ہوگا کیونکہ وہ اس کرب سے گذرے ہیں اور اب جدائی کے کرب سے گزر رہے ہیں –

نظام کو تبدیل کرنے کی خواہش مند نظام کا حصہ بن کے ہی نظام کو تبدیل کر سکتے ہیں جس طرح دنیا بھر کی غلام قوموں نے سامراجی تسلط کے باوجود نظام کا حصہ دار بن کے اپنے لوگوں کی خدمت بھی کی اور آزادی بھی حاصل کی- ہندوستان کی آزادی میں کانگرس اور مسلم لیگ کا کردار ایک کلاسیکل مثال ہے جنہوں برطانوی غلامی کے دوران ان ہی کے نظام کے تحت الیکشن لڑے، ان کے بادشاہ کا حلف اٹھایا ، ان ہی کی بنائی ہوئی حکومت میں حصہ لیا ، ان ہی کے خلاف آزادی کی جنگ بھی لڑی ، ہندوستان کو آزاد بھی کرایا اور پاکستان بھی بنایا- کشمیر بھی اس وقت ہندوستان کے قبضے میں ہے اور اس کی حالت بھی ڈوگرہ زمانے یا آزادی سے پہلے ہندوستان والوں جیسی ہے – ان کی نیت اور ارادوں سے سب جانتے ہیں ، ان کو اسی مثال کو سامنے رکھ کے آگے بڑھنے دیں- آپ ان کی کوئی مالی اور عملی مدد کرنے جوگے نہیں جیسا کہ 2019 کے آئینی اور اس کے بعد انتظامی واردات سے ظاہر ہے – ان کو اپنے فیصلے اور مدد خود کرنے سے تو نہ روکیں-

کشمیر سے تعلق رکھنے والے فاروق عبد اللہ اور غلام نبی آزاد پارلیمنٹ میں ایک توانا آواز تھے اور اب سرینگر سے روح اللہ جو پارلیمنٹ میں گئے ہیںُ نے بجٹ اجلاس میں بھری پارلیمنٹ میں ہندوستان کا بھانڈہ پھوڑ دیا .

اگر عبد الرشید انجینئیر کو شامل ہونے دیا گیا ان کی پارلیمنٹ کے فلور پر ایک گرج دار آواز ہزاروں بائیکاٹوں سے بھاری ہوگی – گوکہ ان کی سیاست اور مفادات مختلف ہیں ، لیکن کشمیر کی مخدوش صورت حال پر ان کی آواز ایوان کو ہلا دیتی ہیں – کسی مرکزی فورم موقع ، محل اور نمائندہ حیثیت میں کی گئی بات اور گلی محلے کی بات کے وزن میں زمین و آسمان کا فر ق ہوتا ہے – ہندوستانی پارلیمنٹ کے ممبر اسد الدین اویسی بھارت میں پسے ہوئے مسلمانوں کی اتنی مضبوط آواز ہے، جتنی پچاس مسلمان ملکو ں کی نہیں – ہندوستانی پارلیمنٹ میں “ فلسطین زندہ باد” کے ایک نعرے نے ساری مسلمان دنیا کی مجرمانہ غفلت کا کفارہ ادا کر دیا – قاری سیف الدین اور سید علی گیلانی کی کشمیر اسمبلی میں بات ہندوستان کو ہلا دیتی تھی- صرف سیف الدین سوز کے ایک ووٹ نے 2000 میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کو عدم اعتماد سے دوچار کرکے ہندوستان میں زلزلہ برپا کردیا تھا .

آزادی اور روز مرہ کے انتظامی معاملات کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھیں – انڈورا کا مسئلہ تقریبآ ایک ہزار سال کے بعد فریقین کی مفاہمت سے حل ہوا – ہندوستان کی آزادی کی تحریک بھی تقریبآ دو سو سال کے بعد مفاہمت سے ہی حل ہوئی – آئیرلینڈ کی ابھی تک چل رہی ہے –

پاکستان میں آباد کشمیری اور پاکستان سے محبت کرنے والے پاکستانی اس ملک میں قومی یکجہتی ، سیاسی استحکام ، اقتصادی خوش حالی ، آئینی حکمرانی اور سفارتی بر تری حاصل کرنے میں مدد کریں تو پاکستان ، کشمیر اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی نشاط ثانیہ کا دور شروع ہو جائیگا –

کشمیر کے اندر رہتے ہوئے ، زمینی حقائق کی روشنی میں کھلی آنکھوں اور کانوں والے اکابرین اگر شوری کی مشاورت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں ، جیسا کہ 1987 تک یہ کرتے رہے ، یہ ان کا صائب فیصلہ ہی ہوگا – اسلام آباد میں بیٹھ کرسرینگر کو چلانے سے نہ پہلے کوئی تبدیلی آئی نہ اس فارمولے کو دہرا کر اب کوئی تبدلی آسکتی ہے – بقول آئینسٹائین غلطی کو بار بار دہرانے سے صحیح نتائج پیدا نہیں ہو سکتے –

مناسب یہ ہے کہ اپنا مقصد اور منزل بدلے بغیر اس کے حصول کا طریقہ کار بدلتے رہنا چاھئے – اگر اور کچھ نہیں ہو سکتا ان کو مقامی حالات میں اپنی پالیسی خود مرتب کرنے کی آزادی دی جائے – میرا ایمان ہے وادئی کشمیر نے ضرور آزاد ہونا ہے لیکن اس کے لئے ان کو اپنے فیصلے اپنی زمینی حالات کے مطابق کرنے دیں .

جدید دنیا میں مقامی حکمت عملی سے ہی کامیابی ہو سکتی ہے، سلامتی کونسل ، بین الاقوامی عدالت انصاف ، پچاس مسلمان ملک ، یورپی یا امریکی طاقیں irrelevant ہیں –

اپنی طاقت آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے