وہ آرام دہ کرسی پر بیٹھا تھا ۔ ہاتھ میں پرانی سی ڈائری پکڑے ۔جس کا کور نیلے رنگ کا تھا ۔ کور پر کالے رنگ کی آڑھی ترچھی لکیریں خوبصورت سا پیٹرن بنا رہی تھیں ۔ساتھ پڑی ٹیبل پر چائے کی پیالی دھری تھی۔ بھاپ اڑاتی چائے میں سے الائچی کی خوشبو آرہی تھی۔ کمرہ نیم تاریک تھا ۔روشندان سے ہلکی ہلکی روشنی آرہی تھی۔عصر کا وقت ختم ہونے کو تھا۔اس نے ڈائری کھولی ۔نیلے بال پوائنٹ سے لکھی گئی تحریر ،اس کے سامنے تھی ۔
یہ اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔شام میں اپنی کوئی پرانی ڈائری لینا اور اس کو گھورتے رہنا پھر اسے کھول کر دیکھنا اور بند کر دینا ۔اس نے کبھی کوئی بھی ڈائری پڑھی نہیں تھی ۔ پڑھ کر کیا کرتا ۔اپنا ہی ماضی تھا۔جو اسے کبھی نا بھولتا ۔
پھر اس نے آنکھیں موندھ لیں اور سر پیچھے کرسی کی پشت پر ٹکا دیا اور کرسی آہستہ آہستہ جھولنے لگی ۔
ساری یادیں دھیرے دھیرے اس کی نگاہوں میں پھرنے لگیں یوں جیسے وہ ایک جگہ پر کھڑا ہو اور کوئی فلم چل رہی ہو۔ اس کے ساتھ یادیں بھاگ رہی ہوں ۔قہقہے ، ہنسی ، پہاڑوں میں دوستوں کے ساتھ گھومنا، کھانے ۔پھر۔۔۔۔ قہقہے کہیں دور چلے گئے ، ہوا میں بکھرتے ۔گاڑیوں کا شور ۔ہجوم ۔آوازیں ۔ہوا میں تحلیل ہوتی باتیں ۔ یادیں تیزی سے بھاگتی جا رہیں تھیں وہ انکا پیچھا کر رہا تھا لیکن وہ دور نکل گئیں ۔ہاں مگر ایک جگہ پر اس کی سانسیں بالکل تھم جاتی تھیں۔ فلم وہیں پر پاز ہو جاتی تھی۔یوں جیسے وہ سب کچھ بھول گیا ہو۔حتٰی کہ سانس لینا بھی ۔ ماضی کے دریچوں سے جھانکتے ہوئے اس نے دیکھا۔ائیر پورٹ سے باہر نکلتے ہوئے ۔اس نے سجدۂ شکر ادا کیا ۔وہ وہاں تھا ۔جہاں آنے کو لوگ ترستے تھے ۔ اللہ نے کتنا احسان کیا تھا اس پر ۔
وہ جدہ ایئرپورٹ (کنگ عبد العزیز انٹرنیشنل ایئرپورٹ) پر تھا ۔ گاڑی اس کی منتظر تھی ۔ ٹرانسپورٹ کی سہولت ٹریول ایجنسی کی طرف سے ہی تھی ۔اس کے ساتھ باقی تمام مسافر بھی بس میں سوار ہو گئے ۔اب وہ سب مکہ کی طرف جارہے تھے ۔ کچھ زائرین کلمے کا ورد کر رہے تھے ۔کچھ گھر فون کر کے بتا رہے تھے ۔فرط جذبات سے سب کی آنکھیں ہی اشکبار تھیں ۔اور وہ خاموش بیٹھا تھا ۔ اپنی قسمت پر رشک کرتا ہوا ۔پانچ ماہ پہلے جس شے کے لئیے وہ یوں تڑپا تھا۔آج اس کی دعا کیسے قبول ہوئی تھی۔شاید اسے اپنی قسمت پر یقین ہی نہیں آرہا تھا ۔ ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد وہ سب مکہ پہنچ گئے ۔
ہوٹل پہنچنے کے بعد سب نے آرام کیا اور کھانا کھانے کے بعد احرام باندھا اور عمرے کی نیت سے مسجد الحرام کی طرف چل پڑے ۔مسجدالحرام تھوڑے سے ہی فاصلے پر تھی ۔یہ لوگ پیدل ہی چل پڑے ۔
جب اس کی پہلی نظر خانہ کعبہ پر پڑی تو اسے لگا شاید پوری دنیا ہی رک گئی ہو۔وہ سانس لینا بھول گیا تھا۔شدتِ جذبات سے اس کی آنکھیں بھر آئیں ۔اگر وہ پاکستان میں ہوتا تو شاید وہ سب کے سامنے یوں نا روتا۔ مگر وہ اپنے رب کے دربار میں حاضر تھا۔۔آج اس کے درمیاں کوئی پردہ نا تھا ۔منظر دھندلا گیا۔اسنے آنکھیں دونوں ہاتھوں سے صاف کیں تا کہ آج کوئی حجاب درمیاں نا رہے۔۔کیا خواہشیں ایسے بھی پوری ہوتیں ہیں ؟!کیا دعائیں یوں بھی قبول ہوا کرتی ہیں۔۔۔؟وہ وہاں کھڑا رو رہ تھا۔اس میں بولنے کی ہمت نہیں تھی۔وہ یہاں کیسے بولتا ۔ادب کا مقام ہی ایسا تھا کہ وہ وہاں کھڑا کچھ بول بھی نا سکا۔وہ اس شہر میں تھا، جس سے اللہ کے رسول کو اتنی محبت تھی۔ہر جانب لبّیک اللہم لبیک کی صدائیں بلند تھیں ۔اس جگہ کا کیا رعب و جلال تھا ! ۔۔وہ اس لمحے کو خود میں محسوس کر رہا تھا ۔۔چائے میں سے بھاپ اُڑنا بند ہوگئی تھی۔
ہاں وہ نماز ! کتنی مشکل تھی نا جب انھیں دھوپ میں جگہ ملی تھی۔سورج یوں سیدھا سر پر پڑ رہا تھا ۔بحر احمر کے مشرقی کنارے پر واقع اس شہر کی ہوا بہت گرم اور خشک ہو چکی تھی ۔جس کی وجہ سے گرمی بہت لگ رہی تھی۔فرش بھر پور تپ رہا تھا ۔مشکل سے سجدہ ہوتا تھا۔ہائے وہ گرمی۔میرے مصطفیٰ کریم ﷺ نے کیسے طائف کا سفر کیا ہوگا۔ اتنی گرمی میں ۔جہاں سورج کی کرنیں سیدھی سر پر پڑ رہی ہو اور فرش یوں تپ رہے ہوں !! وہ جہاں بھی جاتا تھا یہی سوچ کہ میرے نبیﷺ نے کتنی تکالیف سہی ہمارے لئیے ۔میرے لئے ؟!! کیا میری قسمت اتنی اچھی ہے کہ میرے نبی ﷺ نے ہمارے لئے دعائیں کی ہیں۔اور جب ہم نا فرمانی کرتے ہیں تو یہ سب بھول جاتے ہیں۔ کیسے غار یار کیساتھ اتنے گرم موسم میں وہ دن ِبتائیں ہوں گے۔چار دن بعد وہ نبیﷺ کے روضے پر موجود تھا۔ کتنی باتیں کرنی تھی حضورﷺ سے وہ سوچ کر آیا تھا اور یہاں آکر وہ سب بھول گیا اور یاد رہا تو فقط یہ کہ آپ ﷺکی امت مشکل وقت میں ہے ۔ غیرت ایمانی ختم ہو گئی ہے۔دل کالے ہو رہے ہیں حضور ﷺ۔ ہمیں یاد ہے تو فقط یہ کہ پیسا کیسے کمانا ہے ؟دنیا کی دوڑ میں یہ بھول گئے ہیں کہ آخرت میں حساب بھی دینا ہے۔خوفِ حساب ہی ختم ہو چکا ہے۔اللہ کی نافرمانی کو فیشن کا نام دے دیا جاتا ہے۔ وہ وہاں کتنی ہی دیر بیٹھا حضور ﷺ سے باتیں کرتا رہا۔آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔لبوں پر خاموشی طاری تھی۔
مدینہ میں مکہ کی نسبت شام میں موسم زرا خوشگوار ہو جاتا تھا۔وہ وہاں پہروں بیٹھا رہتا ۔اور روتا رہتا کہ نبی ﷺ ہم سے اتنی محبت کرتے تھے اور ہم نے یہ صلہ دیا ۔ وہ نبیﷺ کے ساتھی ہی تھے جو اتنے مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے رہے۔پریشانی سی پریشانی ۔بیچینی سی بیچینی۔انہیں زیارتوں میں پتا نہیں کیسے پندرہ دن گزر گئے ۔وہ مدینہ سے واپس مکہ آئے ۔آہ کتنا دشوار تھا نبی ﷺکو الوداع کہنا ۔جہاں عمریں بتانی کی تمنائیں کی جاتیں ہوں وہاں سے واپس جانا، دل میں یوں عجیب بیچینی سی ۔جیسے بہت قیمتی اثاثہ کھونے جا رہے ہوں۔آہ وہ آخری الوداع ۔کتنا درد ناک تھا ۔الفاظ میں بیان ہونے والا نا تھا۔ہوٹل سے جدہ تک کا سفر ۔ہر آنکھ اشکبار تھی۔سب کا ہی ایک حال تھا کہ کسی طرح یہ گاڑی یہیں رک جائے ۔واپس نہ جانا پڑے۔ مگر ایسا ممکن نا تھا ۔
الائچی کی مہک دم توڑ گئی تھی۔اسنے آنکھیں کھول دیں۔ وہ ماضی سے نکل کر حال میں آگیا ۔وہ بوسیدہ سی ڈائری گود سے اٹھا کر اس نے واپس بک شیلف میں رکھ دی ۔اور جائے نماز بچھا لی ۔اس کا روز کا یہی معمول تھا۔چائے یوں ہی ٹھنڈی ہو جاتی اور وہ نماز میں مشغول ہو جاتا۔