بنگلہ دیش کی حالیہ طلبہ تحریک نے جہاں بنگلہ دیش میں سیاسی ہلچل پیدا کی ہے، وہیں پاکستانی نوجوان بھی ملک میں انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیشی طلبہ نے حسینہ واجد کے استعفیٰ کے بعد اقتصادیات کے ماہر اور گرامین بنک کے بانی پروفیسر محمد یونس کو نگران وزیراعظم کے طور پر منتخب کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس پیش رفت نے پاکستانی نوجوانوں میں بھی پروفیسر محمد یونس کی سماجی خدمات کے حوالے سے تعریف و تحسین کا ایک نیا جوش و خروش پیدا کیا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں، انقلاب کی باتیں کرنے والے نوجوان اکثر جذباتی بیانات اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں، جبکہ حقائق کی طرف ہماری توجہ کم ہی ہوتی ہے۔
ہم ایک ایسی قوم ہیں جو اختلافات کو ذاتی دشمنی اور بغض کی عینک سے دیکھتی ہے، حقائق سے منہ موڑ لیتی ہے، اور جھوٹے دعووں پر فوراً ایمان لے آتی ہے۔ ہم وہ قوم ہیں جو جذباتی تقریریں کرنے والے اور سوشل میڈیا کے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کو ہی اپنے رہنما مانتی ہے۔ ہم نے کبھی معیار کی بنیاد پر قیادت کا انتخاب نہیں کیا، بلکہ ہم وہ قوم ہیں جنہوں نے نواز شریف، زرداری، اور عمران خان جیسے رہنماؤں کی نعرے بازی سے متاثر ہو کر ان کا انتخاب کیا، چاہے ان سب نے ملک کی معیشت اور سماجی ڈھانچے کو نقصان ہی پہنچایا ہو۔
پاکستان میں حقیقتاً ایسے کئی لوگ موجود ہیں جو پروفیسر محمد یونس جیسے عظیم کام انجام دے رہے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں نام ڈاکٹر امجد ثاقب کا ہے، جو اخوت فاؤنڈیشن کے بانی ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اخوت فاؤنڈیشن کی بنیاد 2001 میں رکھی، اور اس فاؤنڈیشن نے بلا سود قرضے فراہم کرنے کا مقصد اپنے آغاز سے ہی رکھا ہے۔ اخوت فاؤنڈیشن آج دنیا کی سب سے بڑی بلا سود قرض دینے والی تنظیموں میں شامل ہے اور اب تک دو سو ارب پاکستانی روپے (تقریباً 701.75 ملین امریکی ڈالر) کے بلا سود قرضے فراہم کر چکی ہے۔ اس تنظیم کے تحت غریب اور مستحق افراد کو مالی مدد فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے چھوٹے کاروبار شروع کر سکیں اور اپنی زندگی میں بہتری لا سکیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے اپنی ذاتی زندگی میں بھی مثال قائم کی ہے۔ وہ ایک مخلص اور دیانتدار فرد ہیں جنہوں نے اپنے وسائل کو انسانی خدمت کے لیے وقف کر دیا ہے۔ ان کی قیادت میں اخوت فاؤنڈیشن نے غربت میں کمی کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں اور ان کی خدمات کا دائرہ ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے۔
دوسری جانب، پروفیسر محمد یونس، جنہیں بنگلہ دیش میں غربت کے خاتمے کا سب سے بڑا علمبردار مانا جاتا ہے، نے گرامین بنک کے ذریعے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لائی۔ پروفیسر یونس نے 1976 میں گرامین بنک کی بنیاد رکھی، جس نے غربت کے خاتمے کے لیے انقلابی اقدامات کیے۔ گرامین بنک نے 2021 تک تقریباً 100 ارب امریکی ڈالر کے قرضے فراہم کیے، جن سے کروڑوں لوگوں کو فائدہ ہوا۔ ان قرضوں کا بنیادی مقصد غریب افراد کو مالی مدد فراہم کرنا تھا تاکہ وہ اپنے چھوٹے کاروبار شروع کر سکیں اور اپنی زندگی میں بہتری لا سکیں۔ پروفیسر محمد یونس کی خدمات نے بنگلہ دیش کو غربت کی شدید سطح سے نکال کر ایک نئی راہ پر گامزن کیا ہے۔
پاکستان میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو پروفیسر محمد یونس کی طرح قوم کی خدمت کر رہے ہیں، لیکن ہم انہیں نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ہمارے انتخاب کا معیار جذباتی تقریریں اور سوشل میڈیا کی مقبولیت کی بنیاد پر ہوتا ہے، نہ کہ حقیقی خدمات اور کردار کی بنیاد پر۔ ہم نے کبھی بھی ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان جیسے دوسرے قومی ہیروز کی قدر نہیں کی، اور ان کی خدمات کو سراہنے کی بجائے ہم ہمیشہ غیر ملکی ہیروز کو اپنی پسندیدہ خصوصیت مانتے ہیں۔
ہماری قوم کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ نقل پر یقین رکھتے ہیں اور اصل کی قدر نہیں کرتے۔ اگر ڈاکٹر امجد ثاقب کو کسی انتخابی عمل میں کھڑا کیا جائے تو ہمیں یقین ہے کہ ان کو ووٹ نہیں ملے گا کیونکہ ہمارے پاس معیار کی کمی ہے۔ ہم بطور قوم کرپٹ ہیں اور اپنے جیسے ہی رہنماوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے رضاکار جب بھی ہنگامی حالات میں پیش ہوتے ہیں، قوم انہیں ووٹ نہیں دیتی، حالانکہ پچیس کروڑ کی آبادی میں جماعت اسلامی کو پندرہ یا سولہ لاکھ ووٹ ہی ملتے ہیں۔
ہمیں اپنے انتخاب پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا معیار کیا ہونا چاہئے۔ پروفیسر محمد یونس اور ان جیسے دوسرے لوگوں کی قدر کرنے کی بجائے، ہمیں اپنے ہی ہیروز کی قدر کرنی چاہئے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے عظیم لوگوں کو فخر اور پذیرائی دینی چاہئے، اور ملک اور قوم کی بھلائ کے لیے ہمیں خود میں معیار پیدا کرنا چاہئے۔ ہمیں سچی دیانتداری، ایمانداری، اور قومی فلاح کی طرف قدم بڑھانا چاہئے، تاکہ ہم ایک پرامن، مستحکم، اور خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھ سکیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہو، تو ہمیں اپنی انتخابی ترجیحات میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ ہمیں ایسے رہنماؤں کی تلاش کرنی ہوگی جو صرف زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی اقدامات کریں، جو قومی مفاد کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیں، اور جو سچائی اور دیانتداری کے اصولوں پر عمل پیرا ہوں۔
ہمیں اس بات کا بھی ادراک کرنا ہوگا کہ تبدیلی کبھی بھی آسان نہیں ہوتی، مگر یہ ضروری ہے۔ پروفیسر محمد یونس اور ڈاکٹر امجد ثاقب کی کامیابیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ محنت، عزم، اور صحیح قیادت کے ذریعے ہم بھی اپنے ملک میں مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنے ہی ہیروز کی قدر کریں، ان کی خدمات کو سراہیں، اور ان کی راہوں پر چلنے کی کوشش کریں، تو ہم نہ صرف اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں بلکہ ایک مضبوط اور خوشحال قوم کی بنیاد بھی رکھ سکتے ہیں۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔