صحرائے تھر پاکستان کی جنوب مشرقی اور بھارت کی شمال مغربی سرحد پر واقع ہے۔ اس کا رقبہ 200,000 مربع کلومیٹر یا 77,000 مربع میل ہے، جو اسے دنیا کا نواں سب سے بڑا صحرا بناتا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا صحرائی علاقہ، تھرپارکر، 15 لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہے۔ دنیا کے دیگر صحراؤں کے برعکس، صحرائے تھرپارکر بنجر اور خشک نہیں ہے۔ مون سون کے موسم میں تھر کی جاذبیت اور خوبصورتی دیدنی ہوتی ہے، جب ریت کے سنہری ٹیلے ہری بھری سبز چادر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
یہ ضلع سماجی اور معاشی اعتبار سے صوبے کا پسماندہ علاقہ ہے اور ملکی سطح پر تقابل میں یہ علاقہ 32ویں نمبر پر ہے۔ سندھ کے صحرائی علاقے تھر پارکر کے حوالے سے عمومی تاثر یہ ہے کہ صرف بھوک افلاس، قحط، غذائی قلت اور پانی نہ ہونے کی وجہ سے اموات ہی صحرائے تھر کا مقدر ہیں۔ یہ تمام حقائق اپنی جگہ لیکن یہ صرف تصویر کا ایک رخ ہے۔ تھرپارکر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ تھر کو دنیا کے زرخیز صحراؤں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے، جس میں مختلف نباتات، جانور اور جنگلی حیات پائی جاتی ہیں۔ یہ صحرا بہت متنوع ہے، مثال کے طور پر آپ کو اس میں کہیں 50 فٹ پر اور کہیں 300 فٹ پر میٹھا پانی ملتا ہے۔ یہاں کے لوگ خوفزدہ ہیں کہ کوئلے کے منصوبے کے آغاز کے بعد اس جگہ کی تمام تنوع خطرے میں ہے۔
سندھ کے علاقے تھر میں کوئلے کی کان کنی نے وہاں کے لوگوں پر کئی اہم اثرات مرتب کیے ہیں، جو کہ معاشرتی، معاشی اور ماحولیاتی پہلوؤں پر مبنی ہیں۔
کوئلے کی کان کنی کے لیے زمینوں کی بڑے پیمانے پر خریداری اور قبضے کی وجہ سے بہت سے مقامی لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ ان کے مکانات اور زمینیں کھودنے کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، جس سے ان کی زندگی کے بنیادی ڈھانچے پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
مقامی لوگوں کی ثقافت، روایات، اور طرز زندگی میں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ بیرونی مداخلت اور نئی معاشرتی تبدیلیاں ان کے روایتی طرز زندگی پر اثر انداز ہو رہی ہیں، جس کے حوالے سے یہاں کے سماجی کارکن مختلف فورمز پر آواز اٹھا رہے ہیں۔
اکاش حمیرانی، جو تھرپارکر کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں اور درس و تدریس کے ساتھ سماجی کارکن ہیں، کلائمیٹ چینج کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کا کام کر رہے ہیں۔ وہ تھر میں کوئلے کے منصوبوں سے خوش نہیں ہیں۔ ان کے بقول، حالیہ سالوں میں ترقی کے نام پر ہونے والی تبدیلیوں سے مقامی لوگوں میں خودکشیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اور روزانہ کی بنیاد پر دو سے تین خودکشیاں ہو رہی ہیں۔ اکاش کا کہنا ہے کہ سڑکوں اور موبائل نیٹ ورک کے آنے کے بعد لوگوں کی خواہشات بھی بڑھ گئی ہیں، جس کو پورا کرنے کے لیے ان کے پاس وسائل نہیں ہیں اور نتیجتاً لوگ خودکشی کر رہے ہیں۔
کان کنی کی وجہ سے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں، لیکن ان کا زیادہ تر فائدہ باہر سے آنے والوں کو ہوا ہے، اکاش حمیرانی
اکاش کا کہنا ہے کہ تھر پارکر میں اگرچہ کان کنی کی وجہ سے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں، لیکن ان کا زیادہ تر فائدہ باہر سے آنے والوں کو ہوا ہے۔ ان کے بقول، اس منصوبے سے مقامی لوگوں کو صرف مزدوری کی حد تک روزگار میسر ہے، جبکہ فیصلہ سازی کے عہدوں پر ان کی نمائندگی بالکل بھی نہیں ہے۔
بے گھری اور زرعی زمینوں کے نقصان کی وجہ سے مقامی لوگوں کی معاشی حالت غیر مستحکم ہو گئی ہے۔ اکاش میڈیا کے اس تاثر کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ تھر میں صرف پیاس، بھوک اور موت ہے، یہ کہتے ہوئے کہ اس کے لوگ خود کفیل ہیں، ماحول دوست ہیں اور ان کی اپنی طرز زندگی ہے۔
کوئلے کے منصوبوں کی وجہ سے گاؤں میں بننے والے ڈیم سے زیر زمین پانی کے قدرتی ذرائع بھی آلودہ ہو گئے ہیں ،مہوش لغاری
مہوش لغاری، جو سندھ سے تعلق رکھتی ہیں اور ڈویلپمنٹ سیکٹر میں کام کر رہی ہیں، تھر میں کوئلے کی کان کنی کے منصوبوں کے بعد خواتین پر پڑنے والے اثرات کا ذکر کرتی ہیں۔ ان کے بقول، کوئلے کے منصوبوں کی وجہ سے گاؤں میں بننے والے ڈیم سے زیر زمین پانی کے قدرتی ذرائع بھی آلودہ ہو گئے ہیں۔ مہوش کا کہنا ہے کہ خواتین پہلے اپنے گھروں کے قریب کنوؤں سے پانی بھرتی تھیں، اب انہیں حکومت کی جانب سے ان کے گھروں سے دور لگائے گئے واٹر پلانٹ سے پانی بھرنا پڑتا ہے اور یہ پلانٹ ہفتے کے دو دن بند ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی پانی کی ضروریات پوری نہیں ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ مویشیوں کے لیے بھی اب پانی دستیاب نہیں ہے۔
علاقے میں باہر سے آنے والوں کی وجہ سے خواتین کی نقل و حرکت بھی متاثر ہوئی ہے اور انہیں اپنے روزمرہ کے کام سرانجام دینے میں بھی مشکل پیش آرہی ہے اور وہ گھروں تک محدود ہو گئی ہیں۔
مہوش کہتی ہیں کہ کوئلے کی کان کنی سے تھر کی آب و ہوا بھی خراب ہو گئی ہے۔ وہاں کے لوگوں میں سانس کی بیماریوں اور دیگر بیماریوں کا اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ علاج کے لیے طبی سہولیات کی کمی ہے، جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تھر کے ریگستان میں ہونے والی کان کنی نے اس علاقے کا چہرہ بگاڑ دیا ہے،ارشاد لغاری
ارشاد لغاری، سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی، کہتے ہیں کہ تھر کے ریگستان میں ہونے والی کان کنی نے اس علاقے کا چہرہ بگاڑ دیا ہے۔ اس وقت تھر میں کوئلے کے دو منصوبے چل رہے ہیں، جن کے لیے ان علاقوں میں صدیوں سے آباد کمیونٹی کو بے دخل کرکے حکومت کی جانب سے قائم ماڈرن ولیج میں آباد کیا گیا ہے۔ ارشاد بتاتے ہیں کہ لوگ یہاں سے نکلنا نہیں چاہتے تھے، مگر حکومت نے لوگوں کو مستقبل کے سنہرے خواب دکھا کر یہاں سے نکالا ہے۔ لیکن ابھی تک حکومت ان لوگوں سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کر رہی ہے، جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں میں بہت مایوسی پائی جاتی ہے۔ ارشاد لغاری بتاتے ہیں کہ ابھی تک کوئلے کے منصوبے کے تحت دو بلاکس پر کام ہوا ہے اور مستقبل میں یہاں مزید بلاکس بننے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو کوئلے کے موجودہ منصوبوں کے تجربات کو دیکھتے ہوئے، ایسے منصوبوں سے پیچھے ہٹنا چاہیے۔
تھر پارکر میں کوئلے کی کان کنی کے لیے زمین حاصل کرنے کے معاملے میں انگریز دور کا حصول اراضی ایکٹ 1894 استعمال ہوا ہے۔ اس قانون کے تحت حکومت شہریوں کی زمینیں حاصل کر سکتی ہے، لیکن اس پر تنقید کی جاتی ہے کہ یہ قانون عوام کی رضا مندی، منصفانہ معاوضے، اور شفافیت کے معیار پر پورا نہیں اترتا، اور اس کے ذریعے جبری بے دخلی کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ انگریز دور کا یہ قانون جدید تقاضوں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے مطابق نہیں ہے اور اس میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ تھر میں بھی اس قانون کی بنیاد پر مقامی لوگوں کی زمینوں کی حصول کے دوران شفافیت اور منصفانہ معاوضے کے مسائل سامنے آئے ہیں جو حل طلب ہیں۔
ہمارا میڈیا صرف وہ دکھاتا ہے جو حکومت یا وہاں کام کرنے والی کمپنیاں چاہتی ہیں، بدر عالم سابق ایڈیٹر ہیرلڈ
بدر عالم، جو صحافت سے وابستہ رہے ہیں اور آج کل ریسرچ کے ادارے پرائیڈ کے ساتھ کام کر رہے ہیں، تھر کے بارے میں میڈیا کی کوریج کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ہمارا میڈیا صرف وہ دکھاتا ہے جو حکومت یا وہاں کام کرنے والی کمپنیاں چاہتی ہیں۔ ہمارا میڈیا تھر کی جو تصویر پیش کرتا ہے وہ حقیقی نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا میں تھر کول کے منصوبوں کو ملکی معاشی ترقی سے منسوب کیا جا رہا ہے، جو صرف پروپیگنڈہ ہے۔ تھر میں مقامی لوگوں کو ان کے نتیجے میں پیش آنے والے مسائل کو نہیں دکھایا جاتا۔ مین اسٹریم میڈیا پی آر کرنے میں مصروف ہے، البتہ چھوٹے لیول پر کچھ پرائیویٹ میڈیا میں تھر کے لوگوں کی آواز کو اٹھانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق تھر کے کوئلے کے میدان 9,100 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہیں اور اس میں 175 بلین ٹن سے زیادہ لگنائٹ موجود ہے، جو ایک ناقص معیار کا اور عام طور پر زیادہ آلودگی پھیلانے والا کوئلہ ہے۔ لگنائٹ کے یہ ذخائر دنیا کے سب سے بڑے ذخائر میں سے ہیں۔ دنیا میں توانائی منصوبوں کی نگرانی کرنے والے عالمی ادارے گلوبل انرجی مانیٹر کی رپورٹ کے مطابق چین کے دنیا بھر میں کول پاور پراجیکٹ کے منصوبوں میں انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کے بعد سب سے زیادہ منصوبے پاکستان میں بنے ہیں۔ چین کے یہ منصوبے دنیا میں ون روڈ، ون بیلٹ اور پاکستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت بنائے گئے ہیں۔
ڈاکٹر حسن عباس، پانی کے امور کے ماہر، کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئلے کے منصوبے ترک کیے جا رہے ہیں، جبکہ اس کے برعکس ہمارے ملک میں اس پر وسیع پیمانے پر کام کیا جا رہا ہے جو نہ صرف ماحول بلکہ مقامی لوگوں کی معاشی، سماجی زندگی کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تھر منصوبے کے تحت اوپن پٹ مائننگ کی جا رہی ہے، جس کے لیے زمین میں ایک بڑا گڑھا کھودا جا رہا ہے۔ یہاں سے پانی نکال کر زمین پر پھینکا جا رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے ڈیم بنایا گیا ہے اور یہ پانی اس ڈیم میں جمع ہو رہا ہے۔ اس پانی کی کوالٹی پر بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یہ انتہائی زہریلا پانی ہے۔ جیولوجسٹ کے مطابق یہ پانی تقریباً پچاس ملین سال پرانا ہے اور یہ قابل استعمال نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے زمین آلودہ ہو رہی ہے اور زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ پودے اور جنگلی حیات کے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ مویشی مر رہے ہیں۔
دوسری جانب سندھ کا دعویٰ ہے کہ تھر کے کوئلے نے پاکستان کی قسمت بدلنا شروع کردی ہے۔ سندھ حکومت کے مطابق تھر کول منصوبے سے حاصل ہونے والی رائلٹی سے تھر کی ترقی کی جائے گی۔ تھر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے آر او پلانٹس نصب کیے جا رہے ہیں اور تھر کے ہر گاؤں میں بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔ سندھ حکومت نے اسلام کوٹ میں مائی بختاور ایئرپورٹ قائم کیا اور تھر میں بہترین اور اعلیٰ معیار کی سڑکوں کا جال بچھایا۔ تھر کے لوگوں کے لیے تھر فاؤنڈیشن قائم کی گئی ہے۔ تھر فاؤنڈیشن کا مقصد کول پروجیکٹس سے متاثرہ افراد کو فائدہ پہچانا، مقامی افراد کے لیے روزگار اور تعلیم کے مواقع پیدا کرنا ہے۔
مسائل جوں کے توں ہیں اور انہیں ترقی کے ثمرات سے محروم
حکومتی دعوؤں کے برعکس، تھرپارکر کے سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ ان کے مسائل جوں کے توں ہیں اور انہیں ترقی کے ثمرات سے محروم رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئلے کے منصوبے کے باعث ان کی زندگیوں میں مشکلات پیدا ہوئی ہیں اور انہیں بے دخل کیا گیا ہے۔ وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں ان کی زمینوں کا مناسب معاوضہ دیا جائے اور ان کی مشکلات کا حل نکالا جائے۔
تھر میں کوئلے کی کان کنی کے یہ تمام اثرات مقامی لوگوں کی زندگیوں کو متعدد پہلوؤں سے متاثر کر رہے ہیں اور ان کی ترقی کے لیے چیلنجز پیدا کر رہے ہیں۔ ان مسائل کا حل نکالنے کے لیے حکومتی پالیسیوں، مقامی کمیونٹی کی شمولیت، اور ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات کی ضرورت ہے۔