جب بھی زندگی کے کسی بھی شعبے میں کسی بھی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کا حل، موجودہ حالات کے تناظر میں، وقت اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق، تلاش کیا جاتا تھا، ہے اور رہے گا.پہلی نسل کا رویہ اگلی نسل تک پہنچتے پہنچتے، رواج بن جاتا ہے اور اس سے اگلی نسل تک پہنچنے تک رواج عقیدے میں بدل چکا ہوتا ہے.
عقیدہ معاشرے کا اس قدر پختہ جزو ہے کہ جس سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا. عموماً موجودہ نسل کا موجودہ عقیدہ، اس کے آباؤ اجداد کے گزشتہ رویئے کا پرتاؤ ہوتا ہے، عکس ہوتا ہے، سایہ ہوتا ہے، مظہر ہوتا ہے. وہ رویہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عقیدہ بن جاتا ہے جو کہ انسانی عقل کو مفلوج کر دیتا ہے.
یہی وجہ ہے کہ نوح علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں ص تک جس نبی نے بھی اپنی قوم سے کہا کہ
یقوم اعبدو اللہ ما لکم من الہٍ غیرُہ
انہوں نے جواب میں کہا کہ؛
ما سمعنا بھذا فی آبائنا الاولین
آبا پرست انسان کسی بھی چیز کو کبھی بھی دلیل و برہان، فہم و فراست اور عقل و شعور کے پیمانے پر نہیں پرکھتا، بلکہ اس کے ہاں، کسی بھی چیز کی حقیقت کا پیمانہ یہ ہے کہ اس کے آبا و اجداد کا اس کے متعلق کیا نظریہ تھا؟
انسانی زات اور انسانی معاشرے کی تعمیر، نشوونما اور تکمیل، اسلام کا مطلوب ہے. جبکہ آبا پرستی اس زنجیر کا نام ہے جس میں انسانی عقل بندھی ہے. اسلاف پرستی وہ گراں بار سِل ہے، جس کے نیچے انسانیت دبی ہوئی ہے. اسلام نے تو انسانیت کی راہنمائی کرنے کے بعد اسے آزاد چھوڑ دیا ہے کہ تیری مرضی ہے کہ تو شکر گزار بن یا ناشکرا کیونکہ اسلام کو مطلوب انسانی صلاحیتوں کی نشوونما تھا.
اِس وقت ہم سب جانتے ہیں کہ اہل مغرب سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی طور پر عروج پر ہیں. اگر ہم ان کے ماضی قریب کا دقیق مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ انہوں زندگی کے جس شعبے میں بھی، ماضی کی پالیسیوں، تصورات اور نظریات کو ناکام ہوتے دیکھا، انہوں نے فوراً انہیں ترک کر دیا اور ایک نئی راہ اپنا لی. مثلاً انہوں سیاسی اور معاشی شعبے میں دیکھا کہ جمہوریت اور نظام اشتراکیت، جنگ عظیم دوم اور سرد جنگ کے بعد کارآمد نتائج برآمد نہیں کر رہے تو فرانسس فیوکویاما اور ڈینیل بیل جیسے لوگ اٹھے اور انہوں نے "Endism” کا تصور دیا اور کہا کہ جو تصورات سیاسی اور معاشی شعبے میں ماضی سے چلتے آ رہے ہیں. وہ اب کارآمد نہیں رہے اور اس سے پہلے بھی ،ان کے ہاں جنگ عظیم اول سے پہلے Realism کا تصور تھا ، جنگ عظیم اول میں وہ ناکام ہوا تو انہوں نے لبرل ازم کو اپنا لیا، جنگ عظیم دوم میں لبرل ازم ناکام ہوئی تو انہوں نے جدید لبرل ازم، یعنی Neo liberalism کو اپنا لیا. یعنی وقت اور حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے مختلف شعبوں میں اپنی پالیسیوں اور نظریات کو تبدیل کیا، رد کیا اور اپنایا نہ کہ باپ دادوں کے نظریات سے چپکے رہے.
جس وقت سلطنت عثمانیہ ختم ہورہی تھی تو اس وقت دوسری طرف سلطنت برطانیہ کا بھی سورج ڈوب رہا تھا. اب انہوں نے کیا یہ کہ وہ سلطنتوں سے نکل کر، نیشنل سٹیٹس کی طرف آ گئے جبکہ مسلمانوں نے خلافت اور امامت کو ہی دوبارہ حاصل کرنے کے نعرے کے ساتھ کئی تنظیموں کی بنیاد رکھ ڈالی جس کا بلاواسطہ نقصان اسلام کو ہی اٹھانا پڑا اور اسلام، شدت پسندی کی علامت بن گیا.
اہل مغرب نے nationalism کے سائے میں اقوام متحدہ کے ساتھ ورلڈ آرڈر کو برقرار رکھتے ہوئے، نیشنل سٹیٹس کا تصور اپنا لیا اور استحکام حاصل کرلیا اور ہم مسلمانوں کے ہاں آج بھی عدم استحکام ہے.
انسان کا خود ساختہ جو بھی تصور ہو، یہ اس کا تقاضا ہے کہ وہ وقت کے ساتھ تبدیلی چاہتا ہے، اگر تبدیلی نہ لائی جائے تو وہ کارآمد نتائج برآمد نہیں کر سکتا.