ضلع خیبر کی وادی تیراہ؛ دہشتگردی کے بعد موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں

ضلع خیبر کی وادی تیراہ دہشتگردی کے بعد موسمیاتی تبدیلیوں کے نرغے میں ،علاقے میں امن بحالی کے بعد بیشتر علاقوں میں متاثرین کی واپسی ہوچکی ہے لیکن اب مقامی آبادی موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز سے نبرد ازما ہے ،وادی تیراہ راجگال اور میدان کے مختلف علاقوں میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی خبریں سامنے آئیں جبکہ جنگلات کی کٹائی کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئیں ۔فاٹا انضمام کے بعد خیبر پختونخوا کے تمام قوانین کوسابق فاٹا تک توسیع دی گئی ہے لیکن اس کے باوجود وادی تیراہ میں جنگلات کی غیر قانونی کٹائی نہیں رک سکی، جس پر مقامی مشران بھی غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔

راجگال کے رہائشی کلیم اللہ نے اس حوالے سے بتایا کہ ان کے علاقے میں کئی پہاڑوں پر موجود جنگلات میں درختوں کی کٹائی ہوئی ہے، جس سے نہ صرف موسم پر اس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں بلکہ علاقے کی خوبصورتی کو بھی متاثر کررہی ہے ۔ وادی تیرا ہ میں جنگلات کی کٹائی سے موسمیاتی تبدیلی رونما ہورہی ہے، جن میں حالیہ جولائی میں ہونے والی تیز بارش اور ژالہ باری نے پچاس ایکڑ سے زائد فصلوں کو نقصان پہنچایا ۔ مقامی لوگوں کے مطابق پکدرہ ، لر باغ ،باڑی بر باغ اور میدان کے علاقوں میں شدید سیلاب کی وجہ سے چار گاڑیاں بہہ گئی جبکہ دو رابطہ پل اور سڑکیں بھی سیلاب کی نذر ہوگئی جس کی وجہ سے امد و رفت میں مشکلات پیش آئی ۔ پشاور سے تقریباً 135 کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب کی جانب خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں وادی تیراہ واقع ہے جو کہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے ،پورا علاقہ تین سو کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، جس کے مشرق میں اورکزئی، جنوب مغرب میں قبائلی ضلع کرم واقع ہے ،وادی تیراہ کے شمال میں افغانستان کے ساتھ طویل 65 کلومیٹر سرحد واقع ہے۔

ملک کے باقی حصوں کی طرح وادی تیراہ سے بھی بدامنی اور فوجی آپریشن کے باعث لوگوں نے نقل مکانی کی تھی ،پہاڑ اور جنگلات کے علاوہ قدرتی وسائل سے مالامال وادی تیراہ میں ڈیڑھ دہائی کے بعد امن کی بحالی ہوئی اور لوگ واپس اپنے علاقوں کو منتقل ہوگئے لیکن جنگلات کی غیر قانونی کٹائی سے وادی تیراہ بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے شکنجے میں آگیا ہے۔ شیر محمد جو وادی تیراہ کے میدان بازار میں نہ صرف دکاندار ہے بلکہ انجمن تیراہ میدان بازار کا صدر بھی ہے، کہتے ہیں کہ حالیہ سیلاب سے بہت مالی نقصان ہوا ہے، بازار میں پچاس سے زائد دکانیں سیلابی ریلے میں بہہ گئیں، جن میں مختلف اشیاءبھی بہہ گئیں اور مقامی دکانداروں کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سامان سے بھری دکان سیلاب میں بہہ گئیں، جو باقی بچاوہ استعمال کے قابل نہیں رہا ۔سیلاب سے ہمارے کھیتوں ،سڑکوں اور رابطہ پلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے، ابھی تک حکومت کی طرف سے کسی قسم کا تعاون نہیں ہوا ہے ۔تاجر وںئے مقامی ایم این اے اور ایم پی ایزسے بھی درخواست ہے کہ وادی تیراہ کےلئے خصوصی سیلاب متاثرین پیکیج کی منظوری دے دی جائے تاکہ جلد از جلد کاروبار بحال ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ منظور شدہ پروٹیکشن وال پر کام تیز کیا جائے کیونکہ اس وجہ سے ان کو بہت نقصان اٹھا نا پڑا ، انتظامیہ کو متعدد بار درخواست کی گئی کہ حفاظتی دیوار کی تعمیر جلد یقینی بنائی جائے تاہم کوئی شنوائی نہیں ہوئی ۔ اسی طرح سیلاب سے مرکزی باغ علاقے کو بہت نقصان پہنچا ہے، اس سے پہلے 2013میں بھی سیلاب سے یہ علاقہ متاثر ہواتھا ، بعد میں نقصان کا جائزہ لیا گیا لیکن تاحال حکومت نے معاوضوں کی ادائیگی نہیں کی اور حکومت ہمیں بلا سود قرضے دے تاکہ ان کا روزگار بحال ہوسکے۔

سیلاب سے متاثرہ آصف خان نے کہا کہ وہ کریانہ دکان چلاتے تھے، ان کی دکان بھی سیلاب کی بے رحم موجوو کی زد میں آگئی جبکہ ایک گاڑی بھی بہہ گئی ، انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت لوگوں کی مالی امداد کرے ، دکانوں میں اشیائے خورد نوش تھی وہ سب بہہ گئی، پانچ لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے ان کا اور اسی طرح دیگر دکانداروں کا بھی نقصان ہوا ہے۔

وادی تیراہ جہاں ماضی قریب میں آمد روفت کےلئے حکومت نے سڑک بنائی ہے، صحت اور تعلیم کے علاوہ دیگر بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے، حالیہ دہشتگردی سے متاثرہ اس علاقے کے مسائل بھی مین اسٹریم میڈیا سے اوجھل ہیں جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بننے والے عوامل سے بے خبر ہیں. جس سے کاروبار کے علاوہ بچوں اور خواتین کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ ضلع خیبر کے ایم پی اے عبدالغنی کہتے ہیں کہ وادی تیراہ میں حالیہ سیلاب اور اس سے ہونے والی تباہی کا اندازہ ہے، اس حوالے سے وزیر اعلیٰ کے ساتھ بھی میٹنگ ہوئی ہے ، رابطہ پلوں کی بحالی کےلئے لوہے کے تیار پل روانہ کئے ہیں جبکہ دیگر نقصانات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں ۔

ماہر ین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں پاکستان کا دنیا میں چوتھانمبر ہے .جن سے دیگر صوبوں کی نسبت خیبر پختونخوا زیادہ متاثرہ ہورہاہے ۔ ضلع خیبر بھی صوبے کا وہ علاقہ جو زیادہ تر پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اکسفورڈ کلائیمیٹ جرنلسٹ نیٹ ورک کے فلو داوود خان کے مطابق ان علاقوں میں موسمیاتی تبدیلیوں سے آگاہی بہت ضروری ہے ، وادی تیراہ جس میں بد امنی رہی ہے اور حال ہی میں لوگوں کی واپسی ہوئی ہے، اس علاقے میں تعلیم کے فقدان کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل مرکزی میڈیا کی آنکھوں سے اجھل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے کےلئے ضروی ہے کہ مقامی سطح پر علاقے میں عام لوگوں کو آگاہی دے تاکہ ہر کوئی اس حوالے اپنا کردار ادا کرے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر ایک مسئلے سے پہلے اسکے اسباب جاننا ضروری ہے، جس میں ایک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بھی ہیں۔ان اثرات سے ہر ایک شعبہ متاثر ہورہاہے، ان اسباب کو روکنے کےلئے متعلقہ علاقہ مکین کوخصوصی آگاہی دینے کی ضرورت اور کلائمیت ایکٹیوسٹ ،سرکاری اور غیر سرکاری ادارے ان علاقوں میں کام کرے تاکہ جن عوامل سے موسمیاتی تبدیلی آتی ہے تو ان کو روکنے کےلئے مقامی طور پر کام کرے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی منفی اثرات کو کم کیاجاسکے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے