اگلے جنم موہے بیٹیا نہ کییجو یا کسو کو بھی بیٹیا نہ دیجیو

بے مثل قرۃ العین حیدر جو عینی آپا بھی کہلائیں کی سترویں برسی پر کچھ خیالات

انٹرنیٹ پر ان کے وکیپیڈیا پر پڑھا کہ قرۃ العین حیدر (20 جنوری 1927، علی گڑھ، برطانوی ہندوستان [اب بھارتی ریاست اتر پردیش]—21 اگست 2007، نوئیڈا، اتر پردیش، بھارت) میں پیدا ہونے والی ایک بھارتی مصنفہ، ایڈیٹر، محقق، اور مترجم تھیں، جنہوں نے ناول کو اردو ادب میں، جو کہ اس سے قبل زیادہ تر شاعری پر مبنی تھا، ایک سنجیدہ صنف کے طور پر قائم کرنے میں مدد کی۔ ان کا شاہکار "آگ کا دریا”(1959) کو ،کولمبیا کے ناول نگار گیبریل گارسیا مارکیز اور چیک ناول نگار میلان کنڈیرا کے کاموں کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے۔

نجانے کیوں ان کی بھارتی شہریت کا ذکر دیکھ کر جو حقیقت بھی ہے، میں اداس سی ہوں . شائد اس لیے کہ انھوں نے پاکستان ہجرت کی تھی اور پھر 1961 دوبارہ بھارت جا کر اپنی جنم بھومی سے اپنی شہریت مانگ لی تھی . بھارت یا انڈیا نے بھی ان کا خوب خیال رکھا اور آگ کا دریا جیسا ناول پاکستان میں رہ کر لکھنے والی عینی آپا کو وہ عزت اور احترام دیا جو ان کا حق تھا. ان کو بھارت کا سب سے بڑا ادبی اعزاز "جنن پیٹھ ایوارڈ” (1989)، "ساہتیہ اکادمی ایوارڈ” (1967)، اور "ساہتیہ اکادمی فیلوشپ” (1994)، جسے بھارتی حکومت کا سب سے بڑا ادبی اعزاز سمجھا جاتا ہے، شامل ہیں؛ ملا .

اس کے علاوہ انہوں نے بھارت کے دو اعلیٰ ترین شہری اعزازات "پدم شری” (1984) اور "پدم بھوشن” (2005) بھی حاصل کیے. افسوس کہ سوشل میڈیا پر ان کے بارے میں بہت کم گفتگو ہوتی ہے اور مرحومہ پروین شاکر اور ان کے مبینہ اختلاف اور پروین شاکر کی "مبینہ طعنہ زنی ” جس کا تعلق اس جھوٹی کہانی سے ہے کہ اس کتاب کی رائلٹی نے دونوں ممالک میں مصنفہ کو مالا مال کر دیا ،کو زیادہ شہرت اور اہمیت ملتی ہے . وہ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں مہارت رکھنے والی ادیبہ تھیں . انہوں بھارت اور امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض سرانجام دیئے ۔انھوں نے دنیا بھر کے ادب کو انگریزی سے اردو میں اور اردو ادب (جس میں ان کی اپنی تصانیف بھی شامل ہیں) کو انگریزی میں ترجمہ کیا۔

قرۃ العین حیدر پاکستان چھوڑ کر بھارت کیوں چلی گئیں؟

یہ سوال اکثر سنجیدہ مداحوں کو بھی تنگ کرتا ہے کہ کون سے روحانی کرب یا پریکٹیکل مصائب نے ان کو پاکستان سے واپس جانے پر مجبور کر دیا ؟ ہجرت کے بعد ہجر کی وہ کون سی کیفیت تھی کہ ایک بڑا فیصلہ کرنا اور پاکستان ایک نایاب گوہراور اردو کی ایک سب سے بڑی ناول نگار سے محروم ہو گیا . اس حوالے سے اختر بلوچ کا ایک طویل مضمون ڈان اخبار 2015 میں چھپ چکا ہے، جس کا اردو ترجمہ جو عارف انجم نے کیا تھا ،وہ بھی ڈان کی ویب سائٹ پر موجود ہے . اس مضمون میں بہت سے دلچسپ قصّے ہیں ، نامور ادیبوں اور شعراء کا ذکر ہے اور اس زمانے کے پاکستان کی بھی تصویر کشی ہے . کئی جھوٹی کہانیوں ، تنقید اور کمزور یا افسانوی یا بے سرو پا روایت کا ذکر ہے .

گویا فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کا سلسلہ اس وقت بھی تھا . مثال کے طور ایک متھ ہندوستان میں یہ تیار ہوئی کہ مصنفہ کو اس ناول کی اشاعت کے بعد پاکستان میں بے حد پروسیکیوٹ کیا گیا۔ ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا اور بے چاری کو وہاں سے بھاگ کر ہندوستان میں پناہ لینی پڑی۔ ہندوستان میں یہ اب تک مشہور ہے کہ پاکستان میں ناول پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ یہ بلکل غلط ہے . اس مضمون میں قابل صد احترام مرحوم معروف ادیب اور دانشور ڈاکٹر آصف فرخی جن کی قرۃ العین حیدر سے گہرے ادبی اور خاندانی مراسم تھے ،کے حوالے سے اختر صاحب کہتے ہیں کہ ” ہم نے یہ جاننے کے لیے کہ آخر قرۃ العین حیدر کی دوبارہ انڈیا منتقلی کے اسباب کیا تھے، ڈاکٹر آصف فرخی سے ملاقات کی۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق یہ ایک سربستہ راز ہے۔ خود عینی نے اس بارے میں کبھی لب کشائی نہیں کی۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان سے جب بھی اور جتنی ملاقاتیں ہوئیں، وہ پاکستان کا ذکر بڑی محبت سے کرتی تھیں۔”

عینی آپا نے کبھی نہیں بتایا کہ وہ پاکستان سے کیوں واپس چلی گئیں. لیکن عمر کے اس حصّے میں جب مجھ کو صنفی امتیاز اور پدر سری کے معاملات پر کام کرتے ہوئے تیس برس سے زائد کا عرصہ ہو چلا ہے مجھے بھی کچھ کچھ زندگی کی سمجھ آنے لگی ہے . "کچھ کچھ ” اس لیے کہ ابھی تک اتنا دم نہیں ہے کہ بیہودہ ٹیکسٹ میسیجز کا سکرین شاٹ لے کر پبلک کردوں یا اپنے ا یب یوزرز کے نام ممکنہ ہولناک نتائج کی فکر سے آزاد ہو کر لے سکوں یا کہیں رپٹ درج کروا سکوں . ایک اکیلی عورت ،بہادر عورت ، سنگل پیرنٹ اور مہاجر، بہاری قومیت والی عورت ہوں اور دکھوں کی مارکیٹنگ سے ناواقف اور اب جب کہ کئی بے وقعت مرتبے وقت نے دے دیئے ہیں، میں جان گئی ہوں کہ انھوں نے پاکستان کیوں چھوڑا تھا اور اس کا اشارہ اختر صاحب کے مضمون میں بھی ہے.

وہ ایک بے انتہا زہین اور حسین خاتون تھیں جو ساری زندگی غیر شادی شدہ رہیں وہ مردانہ بالا دستی ،مصو جینی اور پدر سری کی طاقت اور تاثیر کو اور ورک پلیس کی ہراسگی کو پہچان کر( وہ تھیں تو ایک عورت وہ بھی مہاجر عورت اور شیعہ سنی والدین کی اولاد ، کیا کیا فکریں لاحق ہوئیں ہوں گئی اور کس سے کہتیں؟ کیا کہتیں؟ 19 سال کی عمر میں بطور نوولسٹ منوا چکی تھیں، الیٹ بھی تھیں ) بہت کچھ بھانپ کر سہم سی گئی ہوں گی اور واپس لوٹ گئیں، اس دیس جہاں ان کے بابا سید سجاد حیدر یلدرم اور ماں نظر سجاد مدفون ہیں .

عینی آپا میری کیا جرأت میری کیا بساط کہ میں آپ کے اوپر آپ کے فن کے بارے میں کچھ تبصرہ کروں. آج دل اس لِیے بھر آیا کہ بہت سالوں کے بعد آپ کا ناول دلربا ، اگلے جنم موہے بیٹیا نہ کییجُو پھر رلا رہا ہے . پتا نہیں اس جہان میں ڈاکٹر مومیتا نے آپ سے کیا پوچھا ہو گا اور آپ نے شائد انڈیا کے دیئے ہوئے سارے ایوارڈز واپس کرنے کا سوچا ہوگا اور شائد آپ دونوں نے مل کر انڈیا ،پاکستان اور سارے جگ کی بیٹیوں کا ماتم کیا ہوگا اور شائد کائنات بنانے والے سے مسلسل التجا کررہی ہوں گی کہ اگلے جنم موہے بیٹیا نہ کییجُو یا کسو کو بھی بیٹیا نہ دیجیو .

————————–

ڈاکٹر رخشندہ پروین نے اپنی نو عمری میں صحافت کا آغاز انگریزی اخبار "دی مسلم ” سے کیا تھا. وہ اردو اور انگریزی زبانوں میں کالم/بلاگس اور کتابیں لکھتی ہیں. مشکل موضوعات پر وکھری باتیں کرتی ہیں ،لبرل ہیں ، فیمنسٹ ہیں اور پاکستان سے غیر مشروط محبّت کرتی ہیں. کبھی شاعری بھی کرتی تھیں. مختلف جامعات میں پبلک ہیلتھ ، تولیدی صحت ، میڈیا اور فیمنسم پڑھاتی بھی رہی ہیں . وہ پی ٹی وی پر صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی سولو خاتون اینکر ہونے کا بھی اعزاز رکھتی ہیں. تعلیمی اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر اور پبلک ہیلتھ سائنٹسٹ ہیں اور صنفی امتیاز کے حوالے سے ان کے کئی ٹی وی اور کمیونٹی پروجیکٹس نمایاں ہیں.وہ سچ کے ہمراہ ہونے والی مفاہمت اور عزت کے ساتھ قائم ہونے والے امن کی آرزومند رہتی ہیں۔ قصیدہ گوئی سے نابلد ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے