حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں

ہر چند کہ پشتون قوم اپنی غیرت اور بہادری کے لئے مشہور ہے لیکن خود کو کمزور اور بے یار و مددگار ثابت کرنے کا ‘جذبہ’ بھی ان میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ ممکن ہے یہ ‘جذبہ’ مجموعی طور پر پشتون قوم کے لئے خاص نہ ہو لیکن سوشل میڈیائی دور میں نو نہال پشتون اگر خود کو زبردستی احساس کمتری کا شکار نہ کرے تو ان کا دن نہیں گزرتا۔ اب تو یہ ایک روایت سی بن گئی ہے کہ کسی بھی غیر معقول تقابلی جائزے کے ذریعے خود کو یوں کم تر ثابت کیا جائے گویا ریاست ان کا حق مار رہی ہے۔ یہ کہنا بھی شاید مناسب نہ ہو کہ پشتون قوم کے ساتھ مجموعی طور پر ریاستی رویہ بالکل درست ہے تاہم یہ رویہ اس قدر بھی نا مناسب نہیں کہ ہر بار "کیونکہ ہم پشتون ہیں” کا راگ الاپ کر ریاستی رویہ پر احتجاج ریکارڈ کیا جائے۔

حال ہی میں دنیا کے سب سے بڑے مقابلے میں پاکستان کے لئے ارشد ندیم نے سونے کا تمغہ جیت کر عالمی اعزاز اپنے نام کیا۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کی میڈیا نے ارشد ندیم سے متعلق خبر دیتے ہوئے ان کے اولمپکس ریکارڈ پر داد دی۔ پاکستان پہنچتے ہی ارشد ندیم پر انعامات کی برسات اور میڈیا کی غیر معمولی کوریج ہم سب نے دیکھی لیکن دنیا کے سب سے بڑے مقابلے میں سونے کا تمغہ کم از کم آج کے پاکستانیوں کے لئے نہایت نئی بات تھی اس لئے میڈیا کوریج اور اس قدر انعام و اکرام پر پاکستانی قوم انگشت بہ دنداں نظر آئی۔ اس دوران پوری پاکستانی قوم کا متعجبانہ رویہ تو سمجھ آگیا لیکن پشتون قوم کا متعصبانہ رویہ سمجھ سے بالا تر ہے۔

ارشد ندیم کی جانب سے سونے کا تمغہ جیتنے کے بعد سوات کے سپوت عامر خان نے بھی بنکاک میں منعقدہ انٹرنیشنل تائی کوانڈو چیمپئن شپ میں سونے کا تمغہ اپنے نام کیا۔ یہ دونوں بلکہ مزید ایسی خبریں پاکستان کے لئے مسرت کا باعث ہیں لیکن پشتون قوم نے ان دونوں خبروں کا ایسا عجیب تقابل پیش کیا کہ ‘حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں ‘۔

دیکھیں جی، بات ایسی ہے کہ دنیا بھر میں ایسے کئی مقابلے ہوتے ہیں۔ ابھی 9 اگست 2024 کو ہی ملائیشیا میں کھیلی گئی انٹرنیشنل تائی کوانڈو چیمپئن شپ میں پاکستانی کھلاڑیوں نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجموعی طور پر 21 تمغے اپنے نام کیے ،جن میں پاکستانی فائٹرز نے سونے کے 7، چاندی کے 6 اور کانسی کے 8 تمغے حاصل کیے۔ اس عالمی مقابلے میں ڈھائی ہزار سے زائد فائٹرز نے حصہ لیا تھا اور پاکستان کے کونے کونے سے کھلاڑی شامل تھے۔ کیا ان میں سے کسی ایک کھلاڑی نے بھی یہ شکوہ کیا کہ "میں سرائیکی، سندھی، بلوچ، کشمیری یا پہاڑی ہوں اس لئے ہمیں کوریج نہیں دی جا رہی یا ہمیں انعام و اکرام سے نہیں نوازا جا رہا؟” شکوہ تو درکنار، آپ نے شاید ہی ان سے متعلق کہیں پڑھا ہو۔

اسی دوران ایک اور کھلاڑی بنام عرفان محسود کا ذکر بھی ہوتا رہا، جنہوں نے اب تک 102 عالمی ریکارڈز (گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز)توڑے ہیں۔ ان کی کوریج میں خود کرتا رہا ہوں اور ان سے آج بھی بات ہوتی ہے۔ گریز بک آف ورلڈ ریکارڈز کی اہمیت کا اندازہ خود اس پلیٹ فارم کی ایک فیس بک پوسٹ سے لگا لیں کہ جس میں کہا گیا ،’ہر چیز عالمی ریکارڈ بنا سکتی ہے اسی لئے ہم یہاں ہیں’.

بات دراصل یہ ہے کہ احساس کمتری کا شکار صرف پشتون ہیں جو بلاوجہ ریاستی رویئے پر واہیات تقابلی جائزے پیش کرتے ہیں۔ کھلاڑی چاہے سوات کا ہو، پنجاب کا ہو یا سندھ کا، اگر دنیا کے کسی پلیٹ فارم پر پاکستان کا نام روشن کر رہا ہے تو وہ قوم کا اثاثہ ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی بھی مقابلے کی نوعیت جانے بغیر شکوے شروع کر دیں۔ قومی کرکٹ ٹیم میں سب سے زیادہ پشتون کھلاڑی ہیں اور اب تک کرکٹ میں پشتونوں کے کارہائے نمایاں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ یہاں پشتونوں کو کیوں دیوار سے نہیں لگایا جا رہا؟

بات بالکل سادہ ہے اور وہ یہ کہ اولمپکس اور دیگر عالمی مقابلوں کا تقابل کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ اولمپکس پوری دنیا میں سب سے بڑے مقابلے کا نام ہے ،جہاں پوری دنیا سے کھلاڑی اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔ ہمارے عامر نے تھائی لینڈ میں اگر تائی کوانڈو کے مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیتا ہے تو اولمپکس میں بھی تائی کوانڈو کے مقابلے ہوئے ہیں۔ وہاں بھی پاکستانی کھلاڑی گئے تھے لیکن وہ کوئی بھی تمغہ جیتنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اولمپکس کے مقابلے ہر چار سال بعد منعقد ہوتے ہیں، یہ کوئی سالانہ ایونٹ نہیں ہوتا۔

بلاوجہ خود کو احساس کمتری میں نہ ڈالیں۔ اولمپکس کے مقابلوں کا کسی دوسرے عالمی مقابلے سے موازانہ کرنا ایسا ہے جیسے آپ انٹرنیشنل کرکٹ ٹورنمنٹ کا موازانہ ٹیپ بال ٹورنمنٹ سے کریں۔ اولمپکس میں 1948 سے اب تک پاکستان نے کل 11 میڈلز اپنے نام کیے ہیں ،جن میں 4 گولڈ، 4 چاندی اور 3 کانسی کے تمغے شامل ہیں لیکن ان میں ارشد ندیم کا تمغہ خاص اہمیت کا حامل ہے، جنہوں نے نہ صرف سونے کا تمغہ جیتا بلکہ دنیا کے سب سے بڑے پلیٹ فارم پر ریکارڈ بھی قائم کیا۔ یہ بات صرف سونے کے تمغے، رنگ و نسل یا قوم کی نہیں ہے بلکہ بات دراصل پلیٹ فارم کی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عامر خان نے پاکستان کا نام روشن کیا ہے لیکن اس کا موازنہ ارشد ندیم سے بالکل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پھر بھی عامر خان کو قومی میڈیا نے خوب کوریج دی ہے۔ پنجاب سپورٹس بورڈ نے بھی داد دی ہے اور کئی وزراء بھی ان سے ملنے آئے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی مبارکباد دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ خدارا ،اپنے کھلاڑیوں کو بلاوجہ ڈی گریڈ نہ کریں۔ مقابلوں اور پلیٹ فارم کی اہمیت کو سمجھیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے