پاکستان میں بین الاقوامی سیاحت کے امکانات

پاکستان میں ہر قسم کی بین الاقوامی سیاحت کے بہت زیادہ امکانات موجود ہیں، قدرتی سیاحت، تاریخی اور مذہبی سیاحت ،فنی (آرٹ) اور ثقافتی سیاحت ، دیہی اور شہری سیاحت وغیرہ. دُکھ اس بات کا ہے کہ ہم آج تک اِن امکانات سے فائدہ اٹھا کر اپنی قومی آمدنی میں اضافے کا سبب نہیں بنا سکے.

جنوبی ایشیاء میں، سیاحت کے شعبے میں ہندوستان کا شیئر پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے. دنیا بھر سے کروڑوں سیاح، سالانہ صرف تاج محل دیکھنے ہندوستان جاتے ہیں، نیپال صرف ماؤنٹ ایورسٹ سے سالانہ اربوں ڈالرز کما رہا ہے، جبکہ دنیا کی چند، بڑی چوٹیاں پاکستان میں موجود ہیں. کئی ممالک ایسے ہیں جن کے پاس صرف چند سو سالہ تاریخی ورثہ موجود ہے اور اُس سے بھی وہ اچھا خاصا اپنی قومی آمدنی میں اضافہ کر رہے ہیں جبکہ پاکستان میں ہزاروں سال پرانی انسانی زندگی کے آثار موجود ہیں. دنیا کے چند بڑے مذاہب کے تاریخی اور مذہبی ورثے پاکستان میں موجود ہیں. یہ خطہ قدرتی حُسن سے بھی مالا مال ہے. یہاں کے پکھی واس اور آجڑی یعنی خانہ بدوش اور چرواہے بھی انتہائی شاندار ثقافت اور روایات کے وارث ہیں کہ وہ دنیا بھر کے ثقافتی سیاحت کے شوقین سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں.

اب اگر ہم چاہتے ہیں کہ مستقبل میں سیاحت کے ذریعے ہم اپنی ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دیں اور پھر مضبوط اور مستحکم کریں تو ہمیں انفرادی سطح سے لے کر ریاستی سطح تک اپنا کردار ادا کرنا ہو گا. سب سے پہلا کام ٹورسٹ اٹریکشن سائٹس کی نشاندہی کرنا ہے. اس وقت ہمارے پاس جتنی بھی سائٹس ہیں اُن کی نشاندہی برطانوی عہد میں ہو چکی تھی. ہم نے سات دہائیوں میں کتنی سائٹس دریافت کیں ہیں؟ یہ سوال ہے. سائٹس کی دریافت میں مقامی لوگ، تحقیقی مراکز و ادارے، میڈیا اور ریاست اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں.

سائٹس کی نشاندہی کے بعد، دوسرا مرحلہ سائٹس کی بہتری اور حفاظت کا ہے. یہاں بھی عام آدمی سے لے کر ریاست تک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے. ہمارے یہاں جو سائٹس یونیسکو کی طرف سے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دی جا چکی ہیں وہ تو قدرے بہتر حالت میں ہیں لیکن دیگر بہت ساری سائٹس خطرے میں ہیں. وقت تو اپنا ستم ڈھا ہی رہا ہے، مقامی لوگوں نے بھی مالی خزانے کی تلاش میں، اُن تاریخی خزانوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے.

ایک اور رویئے جو میرے ہم وطنوں کا دیکھنے میں آیا ہے کہ تاریخ عمارتوں کے در و دیوار پر اپنا اسم گرامی اور بعض اوقات رابطہ نمبر بھی کندہ کر دیتے ہیں تو ایسے لوگوں سے میری گزارش ہے کہ ذاتی شہرت حاصل کرنے کا کوئی اور بہتر زریعہ تلاش کر لیں، تاریخی ورثے کو بدنما مت کریں. اِس کے علاوہ غیر ملکی سیاحوں خصوصاً خواتین سیاحوں کو ہراساں کرنے کے بھی واقعات منظر عام پر آ چکے ہیں،جو شرمندگی اور ملکی بدنامی کا باعث بنے ہیں.

بہتری اور حفاظت کے مرحلے میں جو کام ریاست کے کرنے کے ہیں اُن میں، سائٹس کی حفاظت کے حوالے سے عام آدمی کی تربیت، سائٹس کی طرف جانے والی شاہراہوں کی تعمیر و مرمت، سائٹس کے گرد سیاحوں کی سہولت کے لیے سہولت مراکز کا قیام، سیاحوں کی سکیورٹی، ہوٹلز، ریستورانوں اور رایزارٹس وغیرہ قائم کرنے والے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی، سہولیات کی فراہمی اور انہیں اس بات کا پابند بنانا کہ وہ سیاحوں کو معیاری سہولیات فراہم کریں اور ڈیجیٹل دور میں غیر ملکی سیاحوں کو ای ویزا وغیرہ کی سہولیات فراہم کرنا شامل ہیں. تاکہ انہیں یہاں آنے میں روایتی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے.

حفاظت اور بہتری کے بعد تیسرا مرحلہ مارکیٹنگ کا ہے. یہاں بھی عام آدمی سے لے کر، روایتی میڈیا اور ریاست تک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے. سوشل میڈیا کا دور ہے، آپ کے اردگرد جتنی بھی ٹورسٹ اٹریکشن سائٹس موجود ہیں، یا آپ کہیں وزٹ کرتے ہیں تو اُن کی تصاویر، ویڈیوز، بلاگز، ویلاگز، شارٹ سٹوریز، ریلز وغیرہ کی صورت میں سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کریں تاکہ وہ دنیا بھر کے لوگوں تک پہنچیں، روایتی میڈیا، ڈاکومنٹریز بنائے، سیاحت پر مبنی پروگرامز کرے. ماضی میں پاکستان ٹیلی وژن کا اچھا کردار رہا ہے لیکن نجی میڈیا اس میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہا سوائے ڈسکور پاکستان کے جو صرف بنا ہی اس مقصد کیلئے ہے لہٰذا میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور شکریہ ادا کرتا ہوں. سلام پاکستان، نامی ایپ حکومت کا عمدہ اقدام ہے.

ایک مثال ملاحظہ فرمائیں. چند روز قبل تھائی لینڈ کے ایک دور راز گاؤں کی ایک ویڈیو نظر سے گزری. یہ ویڈیو وہاں کے ایک منی ڈیم کی تھی، جہاں انہوں نے مچھلیاں پال رکھی تھیں، اُس ڈیم میں سیاحوں کے لیے چھوٹی کشتیاں موجود تھیں، ڈیم کے اردگرد مچھلیوں کی خوراک سمیت دیگر اشیاء کے چھوٹے بڑے سٹالز موجود تھے اور اردگرد چھوٹے بڑے ہوٹلز اور ریسٹورنٹس وغیرہ بھی تھے. ایک منی ڈیم بھی اُن کی معیشت میں اچھا خاصا کردار ادا کر رہا ہے. اُس ڈیم سے کئی لوگوں کا روزگار وابستہ ہے.

یہ ویڈیو دیکھ کر میرے ذہن میں ضلع تلہ گنگ کے گاؤں پیڑہ فتحال میں موجود خوب صورت ڈیم کا خیال آیا جس کا میں ایک ڈیڑھ برس قبل دورہ کیا تھا، یہ ڈیم بھی پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، باوجود سیاحتی امکانات کے یہ ڈیم ویران پڑا ہے. اور مجھے یقین ہے کہ مُلک بھر میں ہمارے یہاں کئی ایسی سائٹس ہیں جنہیں تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے، میں نے سوچا کہ اگر یہ سب کچھ وہاں یعنی تھائی لینڈ کے دور دراز گاؤں میں ہو سکتا ہے تو ہمارے یہاں کیوں نہیں ہو سکتا؟؟؟ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ سیاحت کا شعبہ پاکستان کی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے. لیکن شاید ہماری ترجیحات کچھ اور ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے