چلاس؛ دیامر کی وادی نیاٹ کے گاؤں ملدوکس میں شب کی تاریکی کے سناٹے میں ایک المناک حادثہ رونما ہوا، جب تین سو گھرانوں پر مشتمل بستی اچانک شعلوں کی لپیٹ میں آگئی۔اس المناک حادثے نے نہ صرف ان غریب لوگوں کے سروں سے چھت چھین لے گیا بلکہ بستی کے مکینوں کے خوابوں اورمستقبل کی اُمیدوں کو بھی راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا۔ مقامی ذرائع کے مطابق، آگ رات گئے لگی اور پل بھر میں پورے گاؤں کو اپنی گرفت میں لے لیا، تاہم آگ کی وجوہات کا سراغ تاحال نہیں لگ سکا۔
https://www.facebook.com/share/v/c9jvBuH16phcrx3A/
آج سیکریٹری داخلہ گلگت بلتستان سید علی اصغر، ڈی آئی جی دیامر استور فرخ رشید، ڈپٹی کمشنر دیامر فیاض احمد، اور دیگر اعلیٰ حکام نے چار کلومیٹر پیدل اور کچھ فاصلہ موٹر سائیکل پر طے کرکے اس دور افتادہ علاقے تک رسائی حاصل کی۔ جائے وقوعہ پر پہنچ کر صورتحال کا جائزہ لیا گیا، جہاں تباہی کی شدت دل دہلا دینے والی تھی۔ مقامی انتظامیہ نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ریسکیو ٹیموں کو فوری طور پر روانہ کیا اور امدادی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے اس دلخراش واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ ابتدائی رپورٹوں کے مطابق خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم مالی نقصان کا اندازہ لگانا ابھی باقی ہے.ضلعی انتظامیہ نے متاثرین کے لیے خیمہ بستی قائم کردی ہے اور سیکریٹری داخلہ نے متاثرین کے مطالبات کے پیش نظر فوری طور پر بجلی، پانی، اور تین ماہ کے لیے گندم کی مفت فراہمی کا اعلان کیا ہے۔
اس حادثے کے پس منظر میں، ڈپٹی کمشنر دیامر نے فوری طور پر متاثرین کے لیے امدادی پیکج تیار کرنے کا حکم دیا، جس میں کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر ضروریات شامل ہیں۔ مزید برآں، پولیس حکام نے اس واقعے کی مکمل تحقیقات کی ذمہ داری ایس ڈی پی او جمہ گل کو سونپ دی ہے، اور ایک ہفتے کے اندر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔یہ حادثہ، جو بظاہر ایک طبعی سانحہ نظر آتا ہے، درحقیقت دیامر کی پسماندگی اور وہاں کی زندگی کی بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ حکومت اور اعلیٰ حکام علاقے کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں، تاکہ آئندہ اس قسم کے المناک واقعات سے بچا جا سکے۔