بہاولپور آبادی کے لحاظ سے پنجاب کا چھٹا بڑا شہر ہے، جہاں پر مختلف کمیونیٹیز کے لوگ آباد ہیں ،جن میں خواجہ سرا کی بھی بڑی تعداد شامل ہے .ایک سروے کے مطابق بہاولپور میں ایک ہزار سے زیادہ خواجہ سرا موجود ہیں لیکن جب بھی انتخابی وقت آتا ہے، خواجہ سراؤں کے بارے میں مختلف پلیٹ فارمز پر بات تو کی جاتی ہے لیکن انکے مسائل کے حل اور ووٹ کے بنیادی حق کے بارے میں عملی اقدامات نا ہونے کے برابر ہیں۔گزشتہ جنرل الیکشن میں جب پہلی بار ہم ووٹ دینے گئے تووہاں پر ہمیں عجیب نظروں سے دیکھا گیا جیسے ہم کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہوں جبکہ مختلف سیاسی پارٹیوں کی جانب سے عجیب و غریب ناموں سے پکارا گیا،آوازیں کسی گئیں، تالیاں، سیٹیاں بجائی گئیں ہمارا مذاق اڑایا جاتا رہا۔ مردوں کی لائن سےنکل کر اگر خواتین کی لائن میں کھڑےہوئے تو خواتین کو اعتراضات ہوتے ہیں کہ یہ یہاں کیوں کھڑے ہیں، یہ کہنا ہے بہاولپور کی صاحبہ جہاں کا جو کہ ایک ٹرانس جینڈر ایکٹویسٹ ہیں۔
صاحبہ جہاں کہتی ہیں کہ الیکشن سے ہمیں ہمیشہ ہی دور رکھا گیا ہے۔ کورٹ کے فیصلےکے باوجود نادرا نے ہمارے شناختی کارڈ نہیں بنا کر دیئے۔ دوسرا یہ خواجہ سراؤں کی تعداد کو کم گنا جاتا ہے۔ خواجہ سرا کمیونٹی اب الیکشن میں باہر نہیں آ سکے گے کیونکہ ان کا نہ شناختی کارڈ بنا نہ ووٹ کا اندراج ہوا.اس سب کی ذمہ دار حکومت پاکستان ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کی جانب سے جنرل انتخابات میں ٹکٹ تودور کی بات وہ ہمارا نام سننا بھی پسند نہیں کرتے ہیں۔
گزشتہ الیکشن میں خواجہ سرا کو جگہ دینا ووٹنگ کے لیےالگ بوتھ ہونا،پولنگ اسٹیشن پر اس قسم کی کوئی چیز کا انتظام ہرگز نہیں کیا گیا تھا ۔ کوئی تیسری لائن موجودنہیں تھی۔ کوئی اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ بہت مذاق اڑایا جا رہا تھا کہ آپ کس لائن میں کھڑی ہیں۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے سختی سے کہہ دیا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ کیوں بات کر رہی ہیں۔ آپ کیوں آئی ہیں یہاں پر اور آپ کا کیا کام ہے، ہم ریاستی طور پر فیل ہوئے ہیں گزشتہ الیکشن میں کوئی بھی اصطلاحات نہیں لے کر آئے۔ پولیس کی طرف سے بھی کوئی بہتر ایکشن نہیں لیے ہیں۔ ابھی تک کچھ کام نہیں کیا گیا ،کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ ہمیں تحفظات دیں ،ہمیں سیکیورٹی فراہم کی جائے۔ یہاں ذہنی طور پر ٹرانس کو کوئی قبول نہیں کرتا ہے کہ ٹرانس آپ کے مد مقابل کھڑا ہے اور وہ الیکشن لڑ رہا ہے۔ جب تک ہم آپ کے سامنے بھیک مانگیں ،آپ کے سامنے ہاتھ پھیلائیں، اس پوزیشن پر آئیں کہ آپ ہم پرترس کھائیں، اگر ہم برابری کی بات کرتے ہیں، اگر آپ کا پاوراور پوزیشن والا وہی مائنڈ سیٹ ہے تو ہمیں آپ کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔ ٹرانس جینڈر آپ کے برابر آپ کےساتھ اپنا ووٹ دے۔
ویسے بھی پاکستان کی سیاست میں جب اپوزیشن لیڈر اورجماعت کو بہت ہی نا مناسب الفاظ سے پکارا جاتا ہے، ہمیں بھی اسی قسم کے رویوں کا سامنا ہے ،یہ خسرے، ہیجڑے، چھکے ہیں، تالی مار کر مذاق اڑانا، لوگوں کو یہ بتانا کہ ٹرانس جینڈر کمزور ہے۔ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو ہمیشہ گالی دے کر ایک کمزور انسان کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جب آپ اس طرح کا رویہ رکھیں گے تو کون آئے گا سامنے۔ ابھی تک یہ مسائل حل نہیں ہو سکے ہیں. جب الیکشن ہونےوالے ہوتے ہیں تو ہر کسی کو اپنی پڑی ہوتی ہے وہ کسی نہ کسی طرح سے کیسے بھی جیت جائے۔ خود کو عوامی نمائندہ کہنے والے کبھی ٹرانس جینڈر سے نہیں ملے اوراس پر کچھ سیاستدان فخر بھی کرتے ہیں، آپ پبلک ایشوزسے آشنا ہی نہیں ہے۔ مذہبی جماعتیں، سیاسی جماعتیں میڈیا کے لوگ کوئی بھی ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ ہمارے پاس گنے چنے الائنس موجود ہیں، مین اسٹریم میڈیا پر بیٹھےگے، آپ یہ بات نہیں کرنی، آپ نے اپنے جینڈر کے بارےمیں بات نہیں کرنی، سینسر شپ بات کرنی ہوتی ہے ،اس کےبعد کسی مفتی مولوی یا ایسے فرد کو بیٹھا دیتے ہیں، ان کے سامنے بات کریں، ہمیں اصل میں انسانی حقوق چاہیےاور کچھ نہیں ہے۔
میڈیا کا کردار اور شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے. انتخاب میں صاحبہ کا خیال ہے کہ میڈیا اہم کردار ادا کر سکتاہے۔ جو ہم نے تیاریاں کرنی تھیں پچھلے سالوں میں وہ ہم نے نہیں کی۔ ریاست کی طرف سے اور دیگر اداروں کیطرف سے. میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے خاص طور پرسوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کچھ ایسے اشتہارات میڈیا کیمپئن حکومت کی طرف سے اور سیاسی پارٹیوں کی طرف سے چلائے جائیں اور اس میں طریقہ کاربتایا جائے ،ٹرانس جینڈر کے رائٹس ہیں، اگر یہ پولنگ اسٹیشن پر آتے ہیں تو ان کو عزت دی جائے۔ پولنگ اسٹیشن پر مذاق یا تماشا بننے سے لوگ ڈرتے ہیں۔ انہیں عزت دیں، ان کو تمام حقوق فراہم کیے جائیں، ان کو لائن میں مت کھڑا کریں ،حق رائے دہی استعمال کرنے میں مدد دینا آگاہی کے پروگرام کا انعقاد کرنا بے حد ضروری ہے۔
خوبصورت کا کہنا ہے کہ ہمارے شناختی کارڈ ہی جب نہیں بنیں گے توہم بھلاالیکشن کا حصہ کیسے بن سکتے ہیں۔ ایک سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ ہے ،اگر شناختی کارڈ بنوانے جاتے ہیں تو یہ بھی کہا جاتا ہے، اپنا میڈیکل سرٹیفیکٹ لے کر آئیں، کیا اس معاشرے میں لڑکا لڑکی اپنا میڈیکل سرٹیفیکٹ جمع کراتےہیں، نہیں نا پھر ہمارے ساتھ ایسا رویہ کیوں رکھا جا رہاہے؟ ووٹر رجسٹریشن کا عمل تب ہوتا ،جب ہمارے شناختی کارڈ بنے ہوتے۔اور ہمارے نہ شناختی کارڈ بنے اور نہ ہی ووٹر رجسٹریشن کا عمل مکمل کیا جا سکا۔ سب کچھ نادرانے روکا ہوا ہے۔ الیکشن میں جب سے بات چلی ہے کہ ہم حصہ لیں گے تو مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سےہمارے اوپر عجیب غریب قسم کے جملے کسے جاتے ہیں۔ غلط ناموں سے ہمیں پکارا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ اب تم لوگ ہماری برابری ہمارا مقابلہ کرو گے،اس صورتحال میں بتائیں ہم کیسے الیکشن لڑ سکتے ہیں؟ ہم خواجہ سرا ہیں لوگ کہتے ہیں یہ اصلی خواجہ سرا نہیں نقلی ہے، اب اصلی اور نقلی کے فرق کو کیا کرنا ہے. انہوں نے کہا خواجہ سراہونا کوئی مس ورلڈ کا خطاب حاصل کرنے کے برابر ہوتا ہےیا پھر پرائم منسٹر کا پرسنل اسسٹنٹ بنتا ہے، وہ کچھ بھی نہیں ہوتا ہے لیکن بس لوگوں کے جملے دل کو مزید جلا دیتےہیں۔
گزشتہ الیکشن میں کچھ خواجہ سرا ووٹ دینے گئے بھی تھے، وہ بھی آئندہ کبھی ووٹ ڈالنے نہیں جانا چاہتے، انکا کہنا ہے کہ پولنگ والے دن سب سے پہلے تو ہمارےوجود کو تسلیم نہیں کیا جاتا ، دوسرا یہ کہ اگر ہم پولنگاسٹیشن پر پہنچ جاتے ہیں تو یہ ہمیں مردوں کی لائن میں کھڑا کر دیتے ہیں، جب تک ووٹ کاسٹ نہ ہو ان کی نگاہوں اور جملوں کا سامنا رہتا ہے ،تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ پنکی کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور میں حلقوں میں جلسوں میں ان کے حقوق پر بات کرنے کی اشدضرورت ہے۔ آپ کی گنتی کی ہی تین چار پارٹیاں ہیں جونیشنل لیول پر ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی ہے، پاکستان مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف پاکستان ہے اور جماعت اسلامی ہے، تین سے چار جلسوں کے اندر ٹرانسجینڈررائٹس کو برابر افراد کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ٹرانس کمیونٹی انکریج ہوگی، ان کاخوف ختم ہو گا ،انہیں اعتماد ملے گا۔ میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے، سیاسی جماعتوں کا کردار ہونا چاہیے تھا، سماجی تنظمیوں کو ہاتھ ہونا چاہیے۔
وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے مطابق خواجہ سرا اپنی جنس تبدیل نہیں کر سکتے اور خواجہ سرا خود کو مرد یاعورت نہیں کہلوا سکتے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت ایسے افراد کو طبی، تعلیمی اور معاشی سہولیات فراہم کرنے کی پابند ہے، اسلام خواجہ سراؤں کو تمام انسانی حقوق فراہم کرتا ہے اور حکومت انہیں تمام حقوق دینے کی پابند ہے۔ فیصلے کے مطابق جنس کا تعلق انسان کیبائیولاجیکل سیکس سے ہوتا ہے، نماز، روزہ، حج سمیت کئی عبادات کا تعلق جنس سے ہے، جنس کا تعین انسان کی احساسات کی وجہ سے نہیں کیا جا سکتا، اسلام میں خواجہ سراؤں کا تصور اور اس حوالے سے احکامات موجودہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کی سیکشن 2 این شریعت کے خلاف نہیں، خواجہ سرا تمام بنیادوں حقوق کے مستحق ہیں جو آئین میں درج ہیں، خواجہ سراؤں کی جنس کی تعین جسمانی اثرات پر غالب ہونے پر کیا جائے گا۔ جس پر مرد کے اثرات غالب ہیں وہ مردخواجہ سرا تصور ہو گا اور جس پر عورت کے اثرات غالب ہوں گے وہ خاتون خواجہ سرا تصور ہو گا۔ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ شریعت کسی کونامرد ہو کر جنس تبدیلی کی اجازت نہیں دیتی، جنس وہی رہ سکتی ہے جو پیدائش کے وقت تھی۔ وفاقی شرعی عدالت کا کہنا ہے کہ جسمانی خد و خال کے مطابق کسی کو مردیا عورت نہیں کہا جاسکتا، جسمانی خد و خال اور خودساختہ شناخت پر کسی کو ٹرانس جینڈر قرار نہیں دیاجاسکتا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سیکشن 7 میں مرضیسے جنس کا تعین کر کے وراثت میں مرضی کا حصہ لیاجاسکتا تھا، وراثت میں حصہ جنس کے مطابق ہی مل سکتا ہے، مرد یا عورت خود کو بائی لاجیکل جنس سے ہٹ کر خواجہ سرا کہے تو یہ غیر شرعی ہو گا۔ شریعت کورٹ نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کی سیکشن ایف ٹو بھی خلاف شریعت قرار دے دی، عدالت نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کے تحت بننے والے رولز بھی غیر شرعی قرار دے دیئے، کہا گیا کہ غیرشرعی قرار دی گئی دفعات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے ،مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان یا آپ کاالیکشن کا عملہ آپ کا میڈیا یہ جان بوجھ کر یہ تاثر نہیں دیتے کہ جب بھی آپ الیکشن کمیشن کے پاس بیٹھے وہ رونا روئے گے کے ہمارے پاس ریسورس نہیں ہے۔ فنانس کےحوالے سے بھی ہیومن ریسورس کے حوالے سے بھی وہ کہتے ہیں ہمارے پاس لوگ نہیں ہیں۔ اسکول کی عمارتیں کم ہے ہمارے پاس عملہ کم ہے۔ اسکول نہیں تو ہم کہاں پر ووٹنگ کرائیں گے ہمارے پاس کیا کیمونٹی سینٹرز نہیں ہے آپ کےپاس صلاحیت نہیں ہے اس میں جو آپ کا پرائم ٹائم میڈیاہے اس کا اہم کردار ہے۔
بجائے اس کے پرائم ٹائم میں وہی لڑائی جھگڑے اور دیگر چیزیں دکھائے۔ کسی نے موٹروے بنادی، کسی نے آئی ایم ایف کو انکار کیا ،کس نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام دیا ،ان چیزوں سے نکل کر ہم اگر اصلاحی شوز پر آئیں، سوسائٹی میں اہم ایشوز کو اجاگر کریں تواس سے بہت بڑا فرق پڑنا ہے۔ ان کو ٹرسٹ پر ووٹ ملے گا۔ آپ کے ٹی وی چینل کا ایک گھنٹہ ٹرانس جینڈر کو پروگرام میں بیٹھا دیں۔ دوسری اہم چیز ہے یوتھ کا کردار. یوتھ کو بزی کرنے کے مختلف طریقہ کریں، اسکولوں میں کالجوں ،یونیورسٹیز میں ہمارے پاس کیا مسائل ہیں، ٹرانس جینڈر کواصل میں کن مسائل کا سامنا ہے، ان کو سمجھایا جاسکے ،وہاں پر بھی جانے کی اجازت نہیں دی جاتی، پہلے سیاسی جماعتوں کو کردار ادا کرنا چاہیے، وہ ہر فورم پر بات کریں۔ ووٹرز کو موبالائز کریں، ٹرانس جینڈر کی زندگی کو کس انداز میں بدلیں گے ،کیا تبدیلی آئے گی ،کتنوں کو اسکالرشپ دیں گے اور جاب کوٹہ کتنا ہوگا۔ تمام چیزوں میں ان کو شامل کرنا ہو گا ،تب جاکے ہمارے مسائل حل ہوسکیں گئے اورہمیں لگے گا کہ اب ہمیں ہمارے حقوق ملنا شروع ہوگئے ہیں ،یہ تبھی ممکن ہوسکے گا جب ہمیں ووٹ کا ٹھیک طریقےسے استعمال کرنے دیا جائے گا ،ہمارے وجود کو مانا جائےگا۔
اس حوالے سے بہاولپور کے سیاستدانوں سے بات کی گئی تو شازیہ نورین کا کہنا ہے کہ خواجہ سرا ہماری سوسائٹی کا سب سے پسا ہوا اور معصوم طبقہ ہے ،جسے ہر بار اگنور کردیا جاتا ہے لیکن ہم نے ان کے لئے انٹرپورنیورشپ کا پلان بنایا ہے، پہلے بھی انکے لئے کام کررہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ چوکوں چوراہوں پر مانگنے کی بجائے خواجہ سرا اپنا چھوٹا کاروبار کریں تاکہ آئندہ آنے والے وقت میں اپنے حقوق کی جنگ لڑ سکیں۔
جماعت اسلامی کے رہنماء کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کا مسئلہ بہت اہم ہے، اگر ہم اس کمیونٹی کو اگنور کرین گے تو ہم زیادتی کریں گے. موقع ملا تو سب سے پہلے انکی اپنی شناخت بنائیں گے، اسمبلی میں بل پیش کرکے انکا ووٹ اور شناختی کارڈ کا مسئلہ حل کروائیں گے ،ہم چاہتے ہیں کہ اس طبقے کی اپنی پہچان ہو تاکہ معاشرے میں ٹھیک طریقے سے زندگی گزار سکیں ،جہاں تک ان کے الیکشن لڑنے کی بات ہے ان کا حق ہے اگر انھیں لگتا ہے کہ الیکشن لڑسکتی ہیں تو ضرور آئیں لیکن اس سے پہلے ہمیں اپنےعوام کو شعور دینا ہوگا۔
اس حوالے سے متعدد بار الیکشن کمیشن آفس سے رابطہ کیا کہ خواجہ سراؤں کے مسائل حل کے لئے قدامات کیے جارہے ہیں لیکن کسی نے ابھی تک تسلی بخش جواب نہیں دیا۔