میری آج کی تحریر”گروپ بندی” کے حوالے سے ہے، آج میں بات کروں گی گروپ بندی کے حوالے سے گروپ بنانے کا مقصد کیا ہوتا ہے ؟ گروپ بنا کر لوگ اصل میں کرتے کیا ہیں ؟ اور یہ نیک کام جیسے ہر قسم کے نیک عمل ملک پاکستان میں ہو رہے ہیں. ویسے ہی اور بھی نیک کام ہمارے ملک کی زینت ہیں، جس کو لوگ بڑے جوش و جذبے سے سر انجام دیتے ہیں. ہوتا یہ ہے کہ 4۔ 6 لوگ جو آپس میں ہم خیال ہوں گروپ بنا لیتے ہیں بظاہر تو ان کا مقصد ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ چلنا ہوتا ہے، ایک دوسرے کی خوشی غمی بھائی چارے کی مثال بننا ہوتا ہے مگر ہوتا اس کے برعکس ہے” گروپ ” کیسے تشکیل دیا جاتا ہے؟
دو انسان جن کے مزاج ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، دونوں میں اختلافات جب زیادہ ہو جاتے ہیں تو اپنے ساتھ ساتھ کچھ ہم خیال ملا لیتے ہیں اور پھر اصل کام اب شروع ہوتا ہے،ایسے ہی چار چار ،چھ چھ بندے ہم خیال لے کر گروپ بن جاتے ہیں اور پھر ان کا مقصد صرف ایک ہی ہوتا ہے ،دوسرے گروپ کو کیسے نیچا دیکھنا ہےاور ان کی غلطیاں، کوتاہیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لوگوں کے سامنے لاتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ دوسرے گروپ کو لوگوں کی نظروں میں غلط کیسے ثابت کریں پھر ان میں ایک احساس پیدا ہوتا ہے "میں تم سے بہتر ہوں”.
دیکھا جائے تو ایک تکبر انا جملہ ہے، ان کو اپنے بارے میں بھی بہتر پتا ہوتا ہے کیوں کہ ان کا اپنا بھی گریباں ہوتاہے مگر پھر بھی ہم تم سے” بہتر” ہیں کہنا بھی فرض ہوتا ہے ،جس میں ہم خود کو ایک اچھا ،نیک، بہتر ،خامیوں سے پاک ایک صحیح انسان سمجھ رہے ہوتے ہیں اور دوسرے کو جاہل خامیوں سے بھرا برائیوں کا مجمع کمتر سمجھتے ہیں . بندے کو خود میں سب خوبیاں نظر اتی ہیں اور جس سے اختلاف ہو ،اس میں چن چن کر وہ برائیاں ڈھونڈی جاتی جو شاید اس میں ہوں ہی نا ،اب وہ بندہ 101 برائیاں نکال کر شور و واویلا کرتا ہے کہ میں صحیح کہہ رہا ہوں، اگلا بندہ ایک دم غلط ہے، ہمارا حق کھا رہا ہے ،ظالم ہے، جابر ہے ،بے ایمان ہے، جھوٹا ہے اور طرح طرح کی برائیاں بتانا فرض سمجھتے ہیں اور پھر یہ سارا دن رات کی ایک کمپین چلا دیتے ہیں کہ ہم نے اگلے بندے کو برا ثابت کر کے ہی رکھنا ہے ،اب یہ چار بندے پھر بڑے زور و شور سے کمپین کرتے ہوئے اس طرح دوسرے بندے کے بھی دو چار ہم خیال بن جاتے ہیں اور اس طرح یہ دونوں گروپ ہی ایک دوسرے سے خود کو ” برتر ” سمجھتے ہیں اور دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اور ان کو گرانے کے لیے ہر کوشش کرتے ہیں.
ان کا جہاں بھی بس چلے برائیاں شروع کر دیتے ہیں، اب ایک گروپ میں جب کوئی بیٹھا ہوتا ہے تو خود پہلے مظلومیت طاری کر کے دوسرے گروپ کو ظالم جابر ثابت کرتا ہے، پھر آگے بڑھتے بڑھتے انہیں پتہ نہیں چلتا ہے کہ اپنے کارنامے بتانا شروع کر دیتے ہیں کہ بھائی ہم نے بھی یہ کیا ان کے ساتھ وہ کیا ،ایسا سبق سکھایا ہم نے ان کو کہ ساری زندگی یاد رکھیں گے کہ کن بندوں سے پالا پڑا تھا. اب بندہ بیچارہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ ظالم ہے یا مظلوم ؟ گروپس میں زور و شور سے دن رات ایک مشغلہ مل جاتا ہے .
بندہ پوچھے ان گروپس سے کہ آپ نے یہ گروپ بنایا کس لیے تھا؟ ایک دوسرے کی مدد کرنا تو دور کی بات ہوتی ہے، کسی کی مصیبت میں بھی شامل نہیں ہونا ہوتا کہ بھائی ہم کیوں جائیں اس کے ساتھ ،اس کا اپنا مسئلہ ہے، خود حل کرے ،پھر یہ سوال پوچھنا بنتا ہے کہ کیا یہ آپ کے گروپ کا نہیں ہے ؟ اور اگر ہے تو اس ایک کا مسئلہ ہے کیا. اس ٹائم اس کے ساتھ ایک ہی اس کا دوست ہو گا ،جو بھی ہو پر پورا گروپ ساتھ نہیں ہو گا ہاں گروپ صرف اس ٹائم ہو گا جب ساتھ اس کے دشمن عظیم گروپ کو نیچا دیکھانا ہو گا ،بس گروپ کا ٹھپہ لگ جائے تو دوسرے گروپ کو کافر سمجھنا ضروری ہے اور کہیں کوئی ایک جگہ جمع ہو جائیں تو ایک دوسرے کی انسلٹ کر کے فخریہ انداز میں بیان کر رہے ہوتے ہیں جیسے کوئی تمغہ امتیاز لے لیا ہو ،باقی گروپ والے اس کو شاباشی ایسے دے رہے ہوتے ہیں جیسے جنگ سے سپاہی لوٹا ہو .
یہی کچھ دوسرے گروپ میں چل رہا ہوتا ہے اور اس حالات و واقعات میں اگر کسی گروپ کے ایک بندے نے متنازعہ گروپ کے بندے سے ہنس کے بات کر لی یا غلطی سے مروت میں تصویر بن جاتی ہے تو فورا، اس کے گروپ میں پہنچ جاتی ہے اورپھر ایک اور جنگ شروع ہو جاتی کہ ان کے ساتھ تصویر بنوائی کیوں، اگر بنوائی ہے تو اس کا مطلب تم ان کے جاسوس ہو پھر اس بیچارے کا برا دور شروع ہو جاتا ،اس سے نفرت عداوت شروع ہو جاتی ہے اور اس سے گروپ کے اہم معاملات جس میں دشمن گروپ کے خلاف "پلاننگ” ہوتی ہے، ایسے چھپائی جاتی ہیں جیسے ملکی خزانہ چھپایا جاتا ہے .اب وہ بیچارہ جتنی صفائی دے لے قسمیں کھا لے پراس پر اعتماد نہیں کیا جاتا ، اب اس بندے کی حالت دھوبی کے "کتا” جیسی ہو جاتی ہے جیسے دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا مطلب نہ اپنے گروپ کا رہتا ہے اور نہ ہی وہ دوسرے گروپ کا …اب اس کو یہ سمجھ نہیں آرہی ہوتی کہ وہ ہے کیا چیز .
سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ گروپ بنانے کا مقصد کیا ہوتا ہے ؟مقصد ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے لیکن اس کو ایک طرف رکھ کر وہ دوسرے گروپ کو نیچا دکھانے کے لیے خود کو برتر اور دوسرے کو کمتر دکھانے کے لیے اور یہی حال ہمارے پورے ملک پاکستان کا ہے ،ایسے ہی سیاست کو لے لیں تو اس میں بھی یہی حال ہے کہ ایک گروپ دوسرے گروپ کو نیچا دکھانے کے لیے ماں بہن کی گالی دینا بھی فخر محسوس کرتے ہیں اور کسی بھی فیلڈ میں جہاں دس بندے ایک فیلڈ میں ہوں گے، گروپ بنا کر یہی مشغلہ اپنائے ہوئے ہیں. کیا بندہ سوچے کہ یہ ایک دوسرے سے نفرت کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں؟ دل میں بغض حسد کے لیے بنائے جاتے ہیں؟ گروپ بندی سے لوگوں میں محبت اور انس کی جگہ نفرت اور عداوت نے لے لی ہوتی ہے؟ کہاں ہے ہمارا دین اسلام جو بھائی چارے اور آپس میں محبت کا درس دیتا ہے ؟اسلام کو چھوڑیں تو انسانیت کو سمجھیں کہ کیا انسان کی زندگی انہیں کاموں کے لیے بنی ہے ؟