بابوسر یاترا

پروفیسر عبدالعزیز نے ایک روز کہا، "حقانی صاحب، بابوسر نہ چلیں۔”
ہم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "چلاس آئے ہیں تو بابوسر تو جانا ہوگا۔”

یوں آج ہم نے دل میں ایک عزم کیا اور بابوسر کی جانب نکل پڑے۔ پروفیسر ہاؤس چلاس سے بابوسر ٹاپ تک کا سفر تقریباً پچاس کلومیٹر ہے، لیکن اس مختصر سفر میں قدرت کے بے شمار حسین نظارے آنکھوں کو خیرہ کر دیتے ہیں۔ راستے میں ہر موڑ پر فطرت اپنے رنگین پردے بدلتی نظر آتی ہے، جیسے کوئی ماہر مصور اپنے کینوس پر رنگ بکھیر رہا ہو۔

جب ہم بابوسر ٹاپ پر پہنچے تو ایک چلاسی بچے نے چائے کا کمال ذائقہ پیش کیا، جو سرد ہوا میں ہمارے جسم و روح کو گرم کر گیا۔ وہ چائے ایک یادگار لمحہ بن گئی، جیسے کسی سچے شاعر کا کلام دل میں اتر جائے۔

بابوسر کا ہر موسم اپنی الگ خوبصورتی رکھتا ہے۔ کبھی یہ حسین مقام برف کی سفید چادر اوڑھے ہوئے ہوتا ہے اور ہر طرف قدرت کے شاہکار بکھرے ہوتے ہیں اور کبھی سبزے اور ہریالی کا ایسا منظر پیش کرتا ہے جیسے زمین پر بہشت اُتر آئی ہو۔ آج کے دن خزاں کی آمد تھی، سبزے اور ہریالی نے پیلے رنگ کا لباس پہننا شروع کر دیا تھا، اور فضا میں خزاں کی خوشبو نے ایک الگ ہی سماں باندھ رکھا تھا۔

ہماری نظریں ان مناظر میں کھوئی ہوئی تھیں، دل میں یہ احساس جاگزیں تھا کہ قدرت نے بابوسر کو جو حسن عطا کیا ہے، وہ شاید کہیں اور اتنا بھرپور نظر نہ آتا ہو۔

اور ساتھ میں، معروف شاعر پروفیسر عبدالعزیز کی معیت، ہائبرڈ پلس گاڑی کی آرام دہ سواری، طفروقار تاج کا کلام، سلمان فارس کی آواز میں گلوکاری اور بابوسر ٹاپ سے نیچے کی واپسی کا مناظر، اور راستے میں ہمارے ممدوح بہادر بیگ صاحب کے ساتھ مفاجاتی ملاقات اور ان کے نیک جذبات، ان سب چیزوں نے ہمارے سفر کو ایک ناقابل فراموش تجربہ بنا دیا۔

نیچے آ کر نیو مون اسٹار ہوٹل کی گرما گرم کڑاہی اور تھک کے میٹھے اناروں نے اس دن کا مزہ دوبالا کر دیا۔ یوں لگا جیسے فطرت اور انسانی کاوشیں مل کر ہمارے لیے ایک خصوصی تحفہ ترتیب دے رہی ہوں۔

یہ بابوسر یاترا ہماری یادوں کے جھروکوں میں ہمیشہ جگمگاتی رہے گی، ایک ایسا سفر جس میں فطرت، عزیز صاحب کی معیت، اور چھوٹے چھوٹے لمحے مل کر زندگی کو بھرپور انداز میں محسوس کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے