گذشتہ کچھ دنوں سے پاکستان میں ایک علیحدہ وفاقی آئینی عدالت بنانے کے بارے میں بات چیت چل رہی ہے۔ یہ مجوزہ عدالت آئینی معاملات کو سنبھالے گی جبکہ سپریم کورٹ کریمینل اور سول اپیلوں پر توجہ دے گی۔یہ خیال بہت نیا نہیں ہے کیونکہ اس کی بازگشت پہلے بھی سنی گئی تھی۔ یہ خیال اٹھارہ برس پہلے "میثاق جمہوریت” میں تجویز کیا گیا تھا جس پر بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کیے تھے اور اسی کی کڑی کے طور پرآج بلاول بھٹو زرداری بطور سیاسی رہنما، اس اصلاح کی وکالت کر رہے ہیں۔ تاہم اس تجویز نے سیاسی جماعتوں میں اہم بحث چھیڑ دی ہے، کچھ اس کے حق میں ہیں اور کچھ نے اس کی پر زور مخالفت کی ہے۔ مجھ جیسے ایک عام پاکستانی کو آسان الفاظ میں ان سب باتوں کو سمجھنا پڑے گا کہ آخرنئی عدلیہ کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟
عمومی طور پرایک علیحدہ آئینی عدالت کا قیام سپریم کورٹ پر بوجھ کم کرنے کے لیے ہوتا ہے، جو اس وقت کریمینل سے لے کر آئینی معاملات تک ہر قسم کے مقدمات نمٹاتی ہے۔ اس تجویزکے حامیوں کا استدلال ہے کہ آئینی مسائل کے لیے وقف ایک نئی عدالت کی تشکیل عدالتی عمل کو ہموار کرے گی، قانونی تنازعات پر تیز فیصلے فراہم کرے گی اور سپریم کورٹ کو صرف کریمینل اور عام مقدمات پر توجہ مرکوز کرنی ہو گی۔
اس تجویز کا ایک اور تاثر یہ بھی پڑ رہا ہے کہ موجودہ عدلیہ پر زیادہ بوجھ ہے جس کی وجہ سے ان کی کاروائی سست ہے۔ ایک علیحدہ آئینی عدالت ہونے سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اہم آئینی مقدمات کوزیادہ مستعدی اور مہارت سے حل کیا جا سکے گا۔
اگر یہ معاملہ اتنا ہی سادہ ہے تو کچھ سیاسی جماعتیں اس کے خلاف کیوں ہیں؟
مولانا فضل الرحمن نے اس تجویزکو مکمل طور پر مسترد کردیا ہے ،ان کا کہنا ہے کہ ہم آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو برداشت نہیں کریں گے۔اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے انھوں نے ایک اہم تشویش ظاہر کی ہے کہ نئی عدلیہ کی تشکیل قانونی نظام میں مزید سیاسی جوڑ توڑ کا باعث بن سکتی ہے۔اس تجویزکے مخالفین کا استدلال ہے کہ بعض سیاسی جماعتیں ان اصلاحات پر زور دے رہی ہیں تاکہ ایک ایسی عدلیہ کو یقینی بنایا جا سکے ،جو ان کے سیاسی مفادات سے زیادہ ہم آہنگ ہو۔ نئی عدالت میں تقرریوں پر زیادہ اثر و رسوخ رکھنے سے، حکمران جماعت ممکنہ طور پر توازن کو اپنے حق میں استعمال کرسکتی ہے۔
مزید برآں، ناقدین کو خدشہ ہے کہ نئی عدلیہ آئین کی تشریح میں ابہام اور تضاد پیدا کر سکتی ہے۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ کافی ناذک دور سے گذری ہے اور گذر رہی ہے ۔ عدالتوں کی ایک اور پرت کو شامل کرنے سے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید تنازعات پیدا کرسکتے ہیں۔
دوسری طرف نئی عدلیہ کے ممکنہ نتائج کچھ اس طرح سامنے آ سکتے ہیں کہ اگر ایک وفاقی آئینی عدالت قائم ہو جائے تو یہ پاکستان کے قانونی نظام پر گہرا اثر ڈال سکتی ہے۔ سب سے پہلے، یہ اہم معاملات میں تیز تر فیصلے کرے گی اور اس طرح آئینی بحرانوں کو زیادہ تیزی سے حل کیا جا سکےگا۔
جبکہ عدالتوں کی علیحدگی اوور لیپنگ(overlapping) فیصلوں یا قانون کی متضاد تشریحات کا باعث بن سکتی ہے، خاص طور پر ایسے معاملات میں جن میں آئینی اور سول یا مجرمانہ عناصر شامل ہوں۔ اس سے قانونی غیر یقینی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے، جس سے وکلاء اور شہریوں کے لیے نظام عدل کو سمجھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
غرض ایک نئی عدلیہ کی تشکیل کے لیے اہم قانونی اور آئینی تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ واضح نہیں ہے کہ آیا سیاسی جماعتوں کے درمیان ایسے اقدام کی حمایت کے لیے تسلی بخش اتفاق رائے موجود ہے یا نہیں ۔ وسیع پیمانے پر معاہدے کے بغیرنئی عدلیہ کی تشکیل کی کوئی بھی کوشش ملک کو مضبوط قانونی فریم ورک کے پیچھے متحد کرنے کے بجائے سیاسی تقسیم کو مزیدبڑھا سکتی ہے۔
اس بحث کا لب لباب کچھ یوں بنتاہے کہ پاکستان میں ایک وفاقی آئینی عدالت بنانے کی تجویز کے فوائد اور نقصانات دونوں ہیں۔ اگرچہ اس سے مقدمات کو زیادہ مؤثر طریقے سے حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے، لیکن سیاسی مداخلت اور قانونی الجھن کے امکانات کے بارے میں درست خدشات موجود ہیں۔ جیسا کہ سیاسی جماعتیں اس مسئلے پر بحث کر رہی ہیں، یہ ضروری ہے کہ نہ صرف قلیل مدتی فوائد بلکہ پاکستان کے جمہوری اور عدالتی نظام پر طویل مدتی اثرات پر غور کیا جائے۔ عدلیہ میں کسی بھی قسم کی اصلاحات کے لیے ملکی مفاد کو سیاسی سہولت سے بالاتر ہونا چاہیے تاکہ سب کے لیے استحکام اور انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔