خلافت کا لفظی معنی ہے نیابت، یعنی کسی کا نائب ہونا۔ قرآن کریم نے خلافت کا لفظ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے حوالہ سے نسل انسانی کے لیے استعمال کیا ہے. جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ ’’میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘ (البقرہ)۔ یہاں خلیفہ سے مراد حضرت آدمؑ اور ان کی نسل ہے۔ یعنی اس کائنات ارضی کا نظام اللہ رب العزت نے نسل انسانی کے سپرد فرمایا ہے اور وہ اس نظام کو چلانے میں اللہ تعالیٰ کی نائب ہے۔
یہ بھی خلافت ہی کی ایک تعبیر ہے کہ نسل انسانی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے مطلقاً آزاد و خودمختار نہیں بلکہ آسمانی ہدایات کی پابند ہے جو حضرات انبیاء کرامؑ کے ذریعے سے نازل ہوتی رہی ہیں اور جو وحی کی صورت میں حضرت آدمؑ سے شروع ہو کر حضرت محمدؐ پر مکمل ہو گئی ہیں۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد ارشادات میں خلافت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اور بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق اس کا پورا سسٹم یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت انبیاء کرام علیہم السلام کے ہاتھ میں تھی، جب ایک نبی دنیا سے چلا جاتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا۔ اور میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے، البتہ میرے بعد خلفاء ہوں گے‘‘۔
اس ارشاد گرامی میں جناب رسول اکرمؐ نے خلافت کو سیاسی قیادت اور حکمرانی کے معنی میں بیان فرمایا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ میرے بعد یہ سیاسی قیادت اور حکمرانی خلفاء کے ہاتھ میں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ نے اپنی معروف کتاب ازالۃ الخفاء میں خلافت کی جو تعریف کی ہے اس میں خلافت کو جناب نبی اکرمؐ کی نیابت سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’خلافت اس اقتدارِ عمومی کا نام ہے جو معاشرہ میں اقامتِ دین کا اہتمام کرے، امن و امان کا بندوبست کرے، لوگوں کو انصاف فراہم کرے، احکامِ اسلام کے نفاذ کی ذمہ داری قبول کرے اور فریضۂ جہاد کی ادائیگی کا اہتمام کرے‘‘۔
اسی کے ساتھ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ نیابتاً علی النبی کہ یہ اقتدارِ عمومی جناب نبی اکرمؐ کی نیابت کے طور پر ہوگا۔ گویا ہمارے ہاں خلافت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی سیاست، قیادت اور حکمرانی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب کے طور پر کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ’’خلیفۃ رسول اللہ‘‘ کہا جاتا تھا، مسلمانوں کے عروج و زوال کی ایک الگ داستان ہے۔ ہم ذیل میں اس عنوان پر جائزہ لیتے ہیں کہ کیا پاکستان کی تکمیل مکمل ہو گئی تھی یا ابھی باقی ہے ؟ پاکستان‘ ملائیشیا‘ ترکی‘ بنگلہ دیش اور بہت سے دیگرمسلمان ممالک میں جمہوری نظام رائج ہے۔ مغربی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی انتخابات کے ذریعے عوام اپنے نمائندگان کو چنتے ہیں اور انتخابی عمل کے ذریعے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کو منتخب کیا جاتا ہے۔
مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو جمہوریت کے حوالے سے تحفظات ہیں اور وہ جمہوری نظام کے بارے میں بدظن اور بدگمان ہیں۔ مسلمان علماء اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ شاید اسلامی جمہوریت یا پاکستان میں مروّج جمہوریت بالکل مغربی جمہوریت ہی کی مانند ہے۔ جہاں پر اراکینِ پارلیمان کے پاس قانون سازی کے لامحدود اختیار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں کئی دفعہ مذہبی تنظیموں (جو بعد میں کالعدم قرار دے دی گئیں) کی طرف سے شریعت اور خلافت کا اعلان کیا گیا ،جس میں تحریک نفاذ شریعت محمدی ، تحریک طالبان پاکستان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ ستمبر 1995ء میں پاکستان آرمی کے حاضر سروس میجر جنرل نے بھی خلافت کے قیام کے لیے مسلح جدو جہد کے آغاز کا منصوبہ بنایا تھا لیکن عین وقت پر وہ اور ان کی تمام کارندے دھر لیے گئے تھے۔
جن میں میجر جنرل ظہیر عباسی ، برگیڈئیر مستنصر باللہ، کرنل زاہد اور کرنل طارق سمیت کئی افسران و جوان جن کی تعداد تقریباً 38 تھی، شامل تھے۔ ان افسران و نوجوانوں کو فیلڈ کورٹ مارشل سے سزا سنائی گئی۔ آج بھی جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام جیسی مذہبی جماعتیں شریعت اسلامی کے نفاذ کی بات کرتی ہیں۔ ملک میں کئی مذہبی تنظیمیں اور پلیٹ فارم بھی موجود ہیں، سب کے ایجنڈے بظاہر بہت بڑے بڑے دعووں کے ساتھ منظر عام پر آتے رہتے ہیں لیکن کبھی بھی شریعت مطہرہ کے نفاذ یا خلافت کے لیے مشترکہ جدو جہد نہیں کی گئی ہے۔ جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام دونوں جماعتیں کئی دفعہ حکومتی سطح پر شمولیت کے باوجود اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔
چند دن پہلے خلافت کے قیام کے حوالے سے جناب سعد نذیر کی ایک تقریر کو پزیرائی حاصل ہوئی۔ جس میں انہوں نے پاکستان میں خلافت کے قیام کے لیے جد وجہد کا اعلان کیا۔ اور اس جدوجہد کے لیے ایک پلیٹ فارم بھی متعارف کروایا، جس کا نام تکمیل پاکستان موومنٹ ہے، سعد نذیر صاحب کا طریقہ کار کیا ہو گا، وہ کیسے خلافت کے لیے جد وجہد کریں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن آج کے دور میں خلافت کے قیام کی قابل عمل صورت کیا ہے ؟ اس میں ایک یہ کہ سیاسی عمل اور پارلیمانی قوت کے ذریعہ اسلام نافذ ہو جائے گا، اور دوسرا وہ طبقہ ہے جن کا ذکر مندرجہ بالا تحریر میں گذر چکا ہے کہ ہتھیار اٹھائے بغیر شریعت نافذ نہیں ہو سکتی۔
میرے خیال میں جناب سعد نذیر ان دونوں سے بالکل الگ موومنٹ چلانا چاہتے ہیں۔ اگر وہ اخلاص اور صدق دل سے شریعت مطہرہ کے نفاذ کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں تو پھر اُنہیں بغیر کسی بغاوت کے سب سے پہلے نسل نو پہ محنت کرنی ہو گی۔ ایسی تحاریک تب ہی کامیاب ہو سکتی ہیں جب آپ کم از کم بیس برس تک لگاتار جدوجہد جاری رکھیں ۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں کو ذہن سازی اور فکر بیداری کا سنٹر بنانا پڑے گا، مسلسل بیس برس تک محنت کے ذریعے اگلی نسل کو اس کے لیے تیار کر کے اسے اپنی قوت بنانا پڑے گا، اور اس قوت کے ذریعہ ہتھیار اٹھائے بغیر سٹریٹ پاور، تحریکی قوت اور نظام کا حصہ بن کر ہی نظام کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ جس دن پاکستان میں اسلامی اصولوں کے مطابق انصاف کا نظام قائم ہو گا اس دن پاکستان کی تکمیل ہو جائے گی۔