جنگ اس کی زندگی تھی۔ وہ اسی جنگ میں جوان ہوا۔ اسے زندگی میں جو بھی ملا اسی جنگ میں ملا۔ اس نے زندگی میں جو بھی کھویا اسی جنگ میں کھویا۔ اسی جنگ نے اسے موت دی لیکن پھر یہ موت اس کیلئے نئی زندگی بن گئی۔ 27 ستمبر کو حزب اللّٰہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصر اللّٰہ کی شہادت نے دنیا کو ایک بڑی جنگ کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے حسن نصر اللّٰہ کو شہید کرنے کے بعد ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے ناصرف لاتعداد اسرائیلی شہریوں بلکہ کئی امریکیوں اور فرنچ شہریوں کی موت کا بدلہ لے لیا ہے۔ نیتن یاہو کے خیال میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ اور حزب اللّٰہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصر اللّٰہ کی شہادت ان کی بہت بڑی کامیابی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کامیابیوں کے باوجود اسرائیل پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہو چکا ہے۔
1992ء میں اسرائیلی ہیلی کاپٹروں نے لبنان پر حملہ کرکے حزب اللّٰہ کے سیکریٹری جنرل عباس الموسوی کو ان کی اہلیہ اور 5 سالہ بیٹے کے ہمراہ شہید کیا تو اس وقت کے اسرائیلی وزیرِ اعظم اسحاق شامیر کا بھی یہی خیال تھا کہ اسرائیل محفوظ ہو گیا۔ یہ خیال غلط نکلا۔ عباس الموسوی کی جگہ حسن نصر اللّٰہ نے حزب اللّٰہ کی قیادت سنبھالی تو اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں تیزی آ گئی۔ 1997ء میں حسن نصر اللّٰہ کا 18سالہ بیٹا محمد ہادی نصر اللّٰہ جنوبی لبنان میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرتا ہوا شہید ہو گیا۔ محمد ہادی کا جسد خاکی ٹکڑوں میں بکھر گیا تو اسرائیل نے اسکے ٹکڑوں کی حزب اللّٰہ کو واپسی کی پیشکش کی۔ حسن نصر اللّٰہ نے یہ پیشکش مسترد کر دی جس کے بعد ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہوگیا۔ اسرائیل نے 1982ء سے جنوبی لبنان کے وسیع علاقے پرقبضہ کر رکھا تھا اور لبنانی مسیحیوں کی مدد سے سائوتھ لبنان آرمی بنا رکھی تھی۔ حسن نصر اللّٰہ نے لبنانی مسیحیوں کے ساتھ ڈائیلاگ کا آغاز کیا۔
یہ بھی پڑھیں
عالمی جنگ، ہماری سرحد پر!!
انہیں سائوتھ لبنان آرمی اور اسرائیل کی حمایت سے روکا اور ایران کی مدد سے مزاحمت کو پھیلایا اور پھر 2000ء میں اسرائیل کو جنوبی لبنان سے پسپا ہونا پڑا۔ سائوتھ لبنان آرمی کے افسران اور جوانوں کو بھی اسرائیل کی طرف بھاگنا پڑا۔ یہ حسن نصر اللّٰہ کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ 2004ء میں حسن نصر اللّٰہ نے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ کیا۔ اس تبادلے میں اسرائیل نے انہیں ہادی کے جسدِ خاکی کے ٹکڑے بھی لوٹائے جو 1997ء میں شہید ہوا تھا۔ یہی وہ سال تھا جب اسرائیلی ہیلی کاپٹروں نے غزہ پر حملہ کیا اور نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد مسجد سے واپسی پر حماس کے سربراہ شیخ احمد یاسین کو شہید کر دیا۔ اسرائیلی وزیرِ دفاع شال موفاز نے احمد یاسین کو فلسطین کا اُسامہ بن لادن قرار دے کر کہا کہ ہم نے ایک دہشت گرد کو نشانہ بنا کر اسرائیل کو محفوظ بنا دیا ہے۔ اسرائیل نے جب بھی حماس یا حزب اللّٰہ کے کسی اہم لیڈر کو نشانہ بنایا تو اسرائیلی قیادت نے اپنے عوام کو یہی بتایا کہ ہم نے آپ کو محفوظ بنا دیا ہے لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔ آج اگر فلسطین اور لبنان غیر محفوظ ہیں تو اسرائیل بھی اتنا غیر محفوظ ہے کہ کئی مغربی ایئر لائنز نے اسرائیل کے لیے اپنی پروازیں معطل کر رکھی ہیں۔
اسرائیلی شہری بڑی تعداد میں یورپ اور امریکا کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج افرادی قوت کی کمی کا شکار ہے۔ اسرائیل کی اصل طاقت اس کی دولت اور مغربی ممالک کی حمایت ہے۔ اس دولت اور سیاسی طاقت سے اسرائیل اپنے دشمنوں کی صفوں میں غدار پیدا کرتا ہے۔ ان غداروں کی مدد سے اسرائیل اپنے دشمنوں کو نشانہ بناتا ہے۔
اسرائیل نے 2008ء میں حسن نصر اللّٰہ کے ایک قریبی ساتھی عماد فایز مغنیہ کو دمشق میں نشانہ بنا کر پوری دنیا کو بتا دیا کہ شام کے دارالحکومت میں اس کا ایک نیٹ ورک کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتا ہے۔ عماد فایز مغنیہ دمشق کے ایرانی سفارت خانے کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے گئے، ان کی گاڑی سفارت خانے کی پارکنگ میں کھڑی تھی۔ اسرائیلی جاسوسوں نے ان کی گاڑی کا ایک ٹائر بدل ڈالا، نیا ٹائر بارود سے بھرا ہوا تھا۔
عماد فایز مغنیہ واپس آئے اور گاڑی اسٹارٹ کی تو دھماکا ہو گیا۔ 2020ء میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو بغداد میں ایک امریکی ڈرون نے نشانہ بنایا۔ اس حملے کا حکم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا اور جنرل قاسم سلیمانی کی نقل و حرکت کے بارے میں امریکا اور اسرائیل کو اطلاع فراہم کرنے والے شخص کا نام محمود موسوی تھا، جسے ایران میں پھانسی دیدی گئی۔ 31جولائی 2024ء کو حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو تہران میں نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے سے پوری دنیا کو پتہ چل گیا کہ اسرائیل نے ایران کے دارالحکومت کے اندر ایک مضبوط نیٹ ورک بنا رکھا ہے۔ اسرائیل کے جاسوسی نیٹ ورک صرف ایران، شام، عراق اور لبنان میں نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ اور پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ کئی مسلم ممالک میں اسرائیلی نیٹ ورک مسلمان رہنماؤں کو براہِ راست ٹارگٹ کرنے کی بجائے ان ممالک میں فرقہ وارانہ نفرتیں بھڑکاتا ہے اور مذہبی تعصب کی آگ بھڑکانے والوں کی خفیہ امداد کرتا ہے۔ حماس اور حزب اللّٰہ دراصل اسرائیل کی جارحانہ پالیسی کے ردِ عمل میں قائم ہوئیں۔
اسرائیل 1982ء میں لبنان پر حملہ نہ کرتا تو حزب اللّٰہ قائم نہ ہوتی۔ فلسطین پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد ہو جاتا تو حماس بھی قائم نہ ہوتی لیکن اقوامِ متحدہ کی چھتری تلے اسرائیلی ریاست نے فلسطین سے لبنان تک بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دیں۔ کسی مغربی ملک نے اسرائیل کو دہشت گرد قرار نہیں دیا۔ دوسری طرف حزب اللّٰہ کو امریکا اور یورپ سمیت کئی عرب ممالک نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ صرف چین، روس، شمالی کوریا اور شام حزب اللّٰہ کو دہشت گرد نہیں سمجھتے، خود ہی سوچیے کہ جو کچھ غزہ اور بیروت میں ہو رہا ہے کیا اس کے بعد دنیا پہلے سے زیادہ غیر محفوظ نہیں ہو رہی؟ حسن نصر اللّٰہ کی جگہ نعیم قاسم کو حزب اللّٰہ کا نیا سیکریٹری جنرل بنایا گیا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ حسن نصر اللّٰہ نے اپنی زندگی میں نعیم قاسم کو حزب اللّٰہ کے آئندہ سربراہ کے طور پر اجاگر کرنا شروع کر دیا تھا۔ نعیم قاسم کی کتاب ’’حزب اللّٰہ‘‘ کے کئی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں اور کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ نعیم قاسم اسرائیل کے خلاف زیادہ سخت پالیسی اختیار کرنے کے حامی ہیں۔
میں نے یہ کتاب 2006ء میں بیروت میں پڑھی تھی اور مجھے وہاں یہ پتہ چلا تھا کہ حسن نصر اللّٰہ نے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو ایک ریڈ لائن تک محدود کر رکھا ہے تاکہ اسرائیل لبنان پر اتنی بم باری نہ کرے کہ لبنان کا پورا انفراسٹرکچر تباہ ہو جائے۔ نعیم قاسم اسرائیل کے خلاف ویسے ہی حملوں کے حامی رہے ہیں جیسا حملہ اکتوبر 2023ء میں حماس نے کیا۔ نعیم قاسم نے اپنی کتاب میں بھی لکھا ہے کہ دشمن کی مضبوط فوج اور ایئر پاور کا واحد حل فدائی حملے ہیں۔ اگر نعیم قاسم نے حزب اللّٰہ کو اسی راستے پر ڈال دیا جس کی نشاندہی انہوں نے کئی سال قبل اپنی کتاب میں کی تھی تو مشرقِ وسطیٰ کی جنگ دیگر خطوں میں بھی پھیلے گی۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے ایران کے روحانی پیشوا آیت اللّٰہ علی خامنہ ای کو ٹارگٹ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ نیتن یاہو کے پاس ایئر پاور اور امریکی ڈرون ہیں۔ نعیم قاسم کے پاس ہزاروں فدائی حملہ آور ہیں۔ افسوس کہ ہم ایئر پاور اور فدائی حملہ آوروں کی ایک نئی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں زمینی فوجیں زیادہ اہم نہیں ہوں گی۔ عالمی برادری اس نئی جنگ کو روکنے میں کامیاب نہ ہوئی تو دنیا حسن نصر اللّٰہ کو بھول جائے گی۔ یقین نہ آئے تو حسن نصر اللّٰہ کے جانشین کی کتاب ’’حزب اللّٰہ‘‘ پڑھ لیں۔
بشکریہ جنگ