استاذ زمانے میں ہے پر نور اجالا ، انسان کی تعمیر و ترقی اس کے کردار اور شخصیت کے بنانے میں جس ہستی کا سب سے زیادہ دخل ہوتا ہے وہ ہستی استاد ہے.استاد کا مقام اتنا بلند و برتر ہے کہ خود پیغمبر اسلام صلم نے اپنے استاد ہونے پر فخر فرمایا .استاد معاشرے کا وہ فرد ہے جو اپنا آپ بھلا کر قوم کا مستقبل روشن کرتا ہے چاہے خود اس پر تاریکی کے بادل ہی کیوں منڈلا رہے ہوں.استاد ہمیشہ اپنے احساسات جذبات غصے اور غم کو ایک طرف رکھ کر اپنے عظیم مقصد پر توجہ مرکوز رکھتا ہے، جو بچوں کی تربیت ہے اور انہیں معاشرے کا ایسا کامیاب اور کار آمد فرد بنانا جو قوم کے سر فخر سے بلند کردے، اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر اپنا،استاد اور قوم کا نام آسمان کی بلندیوں تک لے جائے .
استاد کی عظمت کو سمجھنے کے لیے مشہور فلسفی سقراط کا قول سونے کی سیاہی سے لکھے جانے کے قابل ہے کہ "میرے باپ نے مجھے آسمان سے زمین تک لایا جب کہ استاد وہ عظیم ہستی ہے جس نے مجھے زمین سے دوبارہ آسمان تک پہنچایا”.
استاد ایک ایسا سایہ دار درخت ہے جس کی ٹھنڈی چھاؤں تلے قومیں اپنے عروج اور ترقی کا سفر طے کرتی ہیں.استاد معاشرے میں اس چراغ کی مانند ہے جو ہر قسم کے اندھیروں سے تنہا مقابلہ کرتا ہے .استاد کی خواہش ہمیشہ اپنے شاگردوں کو ایک اچھا انسان اور آئیڈیل بنانے کی ہوتی ہے .استاد ہی معاشرے کا وہ فرد ہے جو خود بھلے ہی اپنے کسی خواب کو پورا نہ کرسکا ہو مگر ہمیشہ اس کی تمنا رہتی ہے کہ اس کے شاگرد کامیابیوں کی منازل طے کریں .
آج کے معاشرے میں جو سلوک استاد کے ساتھ کیا جاتا ہے اسے جھیلنا اور وہ زہر ہنس کر پینا ایک استاد کا ہی ظرف ہے .شاگردوں پر والدین کی طرح استاد کے بھی کچھ حقوق ہیں .حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت علی بن حسین بن علی المعروف حضرت زین العابدین رحمہ اللہ نے استاد کے جو حقوق ذکر کئیے ہیں وہ یہ ہیں .
1. استاد کا احترام کرنا
2 .استاد کی موجودگی میں آپس میں بات چیت سے گریز کرنا
3 .اگر کوئی استاد کی برائی کرے تو استاد کا دفاع کرنا
4 .استاد کے عیب چھپانا اور اس کی خوبیوں کو ظاہر چاہے وہ فاسق(گناہ گار) ہی کیوں نہ ہو
5 .استاد کی موجودگی میں اگر کوئی شخص سوال کرے تو استاد سے پہلے جواب نہ دینا
استاد کی ان سب خوبیوں کے ساتھ ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب وہ قول استاد کی عظمت کے ماتھے کا جھومر ہے کہ”جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا میں اس کا غلام ہوں چاہے تو مجھے آزاد کردے اس کی مرضی مجھے بیچ دے یا پھر مجھ سے اپنی خدمت لے”.
جب اس منصب کی اتنی فضیلتیں اور عظمتیں ہیں تو اس پر فائز افراد کو چاہیے کہ وہ اس عظیم نعمت کی قدر کریں .ہمیشہ اس پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار رہیں اور کوشش کریں کہ اس کے کردار گفتار طرزِ عمل اور شاگردوں کے ساتھ تعلقات مثالی ہوں جو شاگردوں کو مجبور کریں کہ اپنے آپ کو ایک اچھا انسان بنانے اور کچھ کر دکھانے کے لیے محنت کرنے پر اللہ تعالیٰ سب سے پہلے مجھے اور پھر اس مقدس پیشے سے وابستہ تمام حضرات کو اس کے تقدس کی لاج رکھنے اور اس منصب کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین.