آج قومی جرگہ میں دہشت گردی کےخاتمے کےنام پر لڑی جانے والی پرائی جنگ کی تباہ کاریوں پرمشتمل ڈاکومنٹری شرکاء کودکھائی گئی ،بےگناہ عوام کی خون ریزی کےہوشربا انکشافات سنتے ہوئے ہرآنکھ اشکبار تھی،57،لاکھ لوگ اپنےگھروں سے نکل کرآئی ڈی پیزبنے ،جن میں سے23لاکھ ابھی بے گھر ہیں.ڈاکومنٹری کے مطابق پشتون علاقوں میں مختلف مواقع پر9237 چھوٹے بڑے دھماکے ہوئے ہیں.پاکستان کے شہری دو لاکھ 17پشتونوں کے شناختی کارڈ بلاک کئے جاچکےہیں،کوئٹہ سےلیکرسوات تک دس لاکھ ایکڑ زمین پر قبضہ کیاگیاہے.پشتون علاقے ضلع کرم میں شیعہ سنی لڑائی میں اب تک 4100لوگ قتل ہوچکےہیں.
دہشت گردی کیخلاف جنگ کے نام پرآپریشنوں کے دوران مختلف پشتون علاقوں میں تقریبا25000 دکانیں مسمارکی جاچکی ہیں ،جن میں سے7700دکانیں شمالی وزیرستان کی شامل ہیں.پشتون بیلٹ میں 35بازار مسمار کئے جاچکے ہیں، جن کاابھی تک ازالہ نہیں کیاگیا.پشتون علاقوں پر جنگ مسلط کرنے کی وجہ ان کے معدنی ذخائرپرقبضہ بتایاگیا،جس کے مطابق پشتون علاقوں کے معدنی ذخائر کی تفصیل درج ذیل ہے.
1) کرک سے گزشتہ 11 ماہ میں 85 لاکھ 43 ہزار بیرل تیل برآمد کیا گیا ہے۔
2) سوات میں بہترین زمرود کے 70 ملین قیراط ہیں اور مارکیٹ میں 220 قیراط کی قیمت 4000 سے 6000 ڈالر تک ہے۔
3) اس سال خیبر سے 40 ٹن فلورائٹ برآمد کیا گیارہ۔
4) 11 ماہ میں کرک سے 65000 ملین ایم سی ایف گیس برآمد کی گئی ہے۔
5) مہمند میں اس سال 1935 ٹن نیفرائٹ نکالا گیا۔
6) مالاکنڈ میں 200 ملین ٹن، صوابی بلاک میں 100 ملین ٹن ماربل ہے۔
7) مہمند میں 1,360,000 ٹن ماربل برآمد کیا جاتا ہے۔
8) چترال، جنوبی وزیرستان اور جنوبی پختونخوا میں سالانہ 640,000 کلو چھلغوزہ پیدا ہوتا ہے ،جس کی قیمت چین میں 18,000 روپے فی کلو ہے۔
9) کوہاٹ ٹنل سے روزانہ 30,000 سے 35,000 گاڑیاں گزرتی ہیں اور ہر گاڑی کا کرایہ 80 سے 450 روپے ہے اور اس کا کنٹرول فوجی کمپنی NLC کے پاس ہے۔
10) جنوبی پختونخوا کے ڈھاکہ ضلع سے روزانہ 5000 ٹن کوئلہ برآمد کیا جاتا ہے۔
11) درہ آدم خیل سے ہر سال 350,000 ٹن کوئلہ نکلتا ہے۔
12) بونیر اور مردان میں 2 ارب ٹن ماربل موجود ہے۔
13) چترال میں ایک ارب ٹن ماربل موجود ہے۔
14) صرف کورما میں 20 لاکھ ٹن کوئلہ موجود ہے، اس کے ساتھ لوہے کی گیس اور اچھا ماربل بھی ہے۔
15) بالائی وزیرستان کے پیر گھر میں تانبے اور سونا کی بڑی مقدار موجود ہے۔
16) گومل کے پہاڑوں میں کوئلے کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
17) باجوڑ میں ہر سال 85000 ٹن ماربل، اور 1550 ٹن کرومائیٹ برآمد کیا جاتا ہے۔
18) پختونحوہ اور بلوچستان میں 700 کروڑ کے جواہرات ہیں جو ہماری سوچ سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔
19) عرب ممالک میں تیل کا ہر دس میں سے ایک کنواں کامیاب ہوتا ہے اور وزیرستان میں ہر تیسرا کنواں کامیاب ہوتا ہے۔میران شاہ میں اتنا تیل ہے جو پاکستان کی 40 سال کی تمام ضروریات پوری کرتا ہے۔
20) شمالی وزیرستان میں 36000 ملین ٹن تانبا موجود ہے ایک ٹن تانبے کی قیمت 7000 ڈالر ہے۔
21) تربیلا ڈیم سے 4000 سے 5000 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے، اسے 250 بڑی فیکٹریوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور تربیلا ڈیم سے پختونحوہ اربوں ڈالر کما سکتے ہیں۔
22) لکی مروت بٹنی کی ویلی آئل فیلڈ سے 1,000 سے 3,000 بیرل تیل اور 1 سے 5 ملین مکعب فٹ گیس برآمد کی جاتی ہے۔
23) ملاکنڈ کے دریاؤں سے 30 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس کی قیمت 1 سے 2 روپے فی یونٹ ہے۔
مختلف علاقوں کی تقریبا 27000خواتین بیوہ ہوچکی ہیں
پشتون قومی جرگہ میں پشتون بیلٹ پر مسلط کردہ "جنگ کی دہشت گردی” میں ہونے والے جانی نقصانات، عام عوام اور قبائلی مشران کی شہادتیں، جبری گمشدگی کا شکار افراد، املاک (گھر، مساجد، دکانیں، بازار) کی تباہی، بم دھماکوں، لینڈ مائنز، فضائی بمباری، ڈرون حملوں، شیلنگ، مارٹر گولوں، ٹارگٹ کلنگز، ضلع کرّم میں شیعہ سنی تصادم کے نام پر ہونے والی اموات کے تفصیلی اعداد و شمار، شہداء کے لواحقین، مسنگ پرسنز کے خاندانوں کے انٹرویوز پر مشتمل تفصیلی ڈاکومنٹری ویڈیوز اور پریزینٹیشن پیش کی گئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق شہداء کی تعداد پچھتر ہزار (76،584) کے لگ بھگ ہے۔.
27 ہزار خواتین بیوہ ہوئی ہیں۔۔
اس جنگ میں 1738 پشتون مشران کو ذبح کیا گیا۔۔
پولیو مہم کے دوران 213 پشتون خواتین کو شہید کیا گیا۔۔
پختونخوا بھر میں 9237 چھوٹے بڑے دھماکے ہوئے۔۔
بارودی سرنگوں کے دھماکوں میں 7538 افراد بشمول بچے معذور ہوئے ہیں۔۔
6700 جبری گمشدہ افراد کی فہرست موجود ہے۔۔
200 سے زائد دھماکوں میں مساجد نشانہ بنی ہیں۔۔
تین لاکھ ستر ہزار گھر اور مساجد مسمار ہوئی ہیں۔ جن میں ڈیڑھ لاکھ صرف جنوبی وزیرستان میں ہیں۔۔
ایک ہزار تک مساجد و مدارس شہید ہوئی ہیں۔۔
خیبر پختونخوا میں دو لاکھ 17 ہزار سے زیادہ شناختی کارڈ بلاک کیے گئے ہیں۔۔
ستاون لاکھ (5700000) لوگوں کو اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور کیا گیا، جن میں تیئیس لاکھ (2300000) لوگ اب بھی بے گھر ہیں۔۔
قبائلی پشتون بیلٹ میں 35 بڑے بازار مسمار کیے گئے ہیں، کل 25000 دکانیں تباہ کی گئیں ہیں، جن میں 7700 صرف میر علی بازار میں تھیں۔۔
کوئٹہ سے سوات تک دس لاکھ ایکڑ زمین قبضہ کی گئی ہے۔۔