اشفاق احمد، پاکستان کے قابل احترام مصنفین میں سے ایک ہیں، انھوں نے اپنی فلسفیانہ گہرائی کو استعمال کرتے ہوئے ادب کے لازوال شاہکار تخلیق کیے ہیں، جو قارئین کے دل میں اترتے گئے۔اشفاق احمد کا پورا نام اشفاق احمد خان تھا، ان کا یوم پیدائش ، 22 اگست 1925 ہے اوروفات 7 ستمبر 2004 ہے ۔وہ ایک پاکستانی مصنف، ڈرامہ نگار اور براڈکاسٹر تھے۔ اردو میں ان کی تخلیقات میں پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو ڈرامے،ناول اور مختصر کہانیاں شامل ہیں ۔ پاکستان کے نشریاتی اور ادبی شعبے میں ان کی لازوال خدمات کے لیے انہیں صدارتی پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز (اسٹار آف ایکسیلنس) جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔
ویسے تو اشفاق صاحب کے تمام ناولز ہی مقبولیت کی عروج پر ہیں لیکن ان کی کچھ تحریریں باقاعدہ راج کر رہی ہیں ۔ جیسے، زاویہ، منچلے کا سودا، ایک محبت سو افسانے،مہمان سرائے،بابا صاحبہ اور سفر مینا وغیرہ۔ ان کا ناول منچلے کا سودا‘‘ محض ایک کہانی نہیں ہےبلکہ یہ انسانی روح کی ایک گہری کھوج اور مادیت پرستی کی دنیا میں معنی کی تلاش ہے۔تو آئیے آج اس کتاب کا جائزہ لیں، یہ کتاب تصوف اور سائنس کا امتزاج ہے۔یہ تحریر ۱۹۹۱ میں پی ٹی وی پرمعروف ڈرامے کے طور پر بھی چلی۔
کتاب میں مرکزی کردار ارشاد کاہے جوایک کامیاب بزنس مین ہے سب کچھ ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے اندر ایک کمی محسوس کرتا ہے، وہ اپنی ماں سے اکثر اپنی اس کیفیت کا ذکر کرتا ہے، ماں بیٹے کے مکالمات انتہائی خوبصورت ہیں ۔ ماں اس کو سمجھاتی ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کیا کرے لیکن یہ عجیب کیفیت اسے خود نہیں سمجھ آتی تھی اور پھر اس خلش کو دور کرنے کے لیے وہ دنیا کی آسائشوں کو پیچھے چھوڑ کر خود کی دریافت کے سفر پر نکل جاتاہے۔اس سفر میں ملنے والے مختلف کرداروں کے ساتھ ارشاد زندگی کے حقیقی جوہر کے بارے میں سیکھتا ہے،اس سفر میں چاراہم کردارجو اسے ملتےہیں. وہ ہی ا سے ذندگی کی اصل حقیقت سے آشنا کرتےہیں ، یہ کردار ہیں ،موچی، چرواہا، ڈاکیا اور خاکروب۔ یہ کہانی دنیاوی خواہشات اور اندرونی امن کے درمیان کی کشمکش کو بیان کرتی ہے، جس کو پانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے ۔
ناول سے لیا گیا ایک سین کچھ اس طرح سےتخلیق ہواہےکہ رمضان موچی جیل میں کسی وجہ سے بند ہے اور ارشاد لاکر کے باہر کھڑاہے ،وہ موچی کی ضمانت کروانے آیا ہے۔
اقتباس:پیج نمبر ۱۰۶
"مرید( جو ارشاد ہے): حضور میں آپکی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟
مرشد( موچی رمضان ): اس کی کوئی ضرورت نہیں بھائی میرے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ سرچ لائٹ لے کرمخلوق خدا کی خدمت کی جائے۔
ارشاد: سرچ لائٹ لے کر؟
مرشد:اور یہ سرچ لائٹ سائنس کو جانے بغیر ہاتھ نہیں آئے گی۔ فزکس کو جانے بغیرمیٹا فزکس نہیں پکڑی جائے گی۔ اس دور میں فزکس ہی میٹا فزکس میں ڈھلتی جا رہی ہے اور اسی کوانٹم تھیوری میں سارا راز پوشیدہ ہے۔
ارشاد: کوانٹم فزکس؟
رمضان وضاحت کرتا ہے۔۔۔۔بھائی میرے کوانٹم فزکس کو جانے بنااور فوٹون کی کیفیت سمجھے بغیرحضرت غوث الآعظم جیلانی دستگیررحمتہ اللہ علیہ کا یہ راز کیسے سمجھ آ جائے گا کہ مواحد جب مقام توحید پر پہنچتا ہے تونہ مواحد رہتا ہے نہ توحید، نہ واحد نہ بسیار،نہ عابد نہ معبود، نہ ہستی نہ نیستی، نہ صفت نہ موصوف، نہ ظاہر نہ باطن، نہ منزل نہ مقام، نہ کافر نہ مسلمان۔۔۔۔۔ثابت ہو گیا یہ بھائی جان ہم کسی بھی اٹامک ایونٹ کو یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے، بس یہ گمان کر سکتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ تو پھر آگے اس کی مرضی بھائی جان، اللہ کی مرضی۔
ارشاد: جی حضور میں تو صرف باطن کے سفر میں انٹرسٹڈ ہوں ۔
رمضان : باطن کا سفر، سائیں بننے کا ارادہ ہے کیا؟ صوفی
ارشاد: جی جناب
رمضان : تو پھرسائنس کے سفر سے گزر کر آنا پڑے گا بھائی جان۔اب راستہ بدل گیا ہےصرف ادھر کی لہروں میں ہلچل ہے، سمجھے کچھ؟
مرید:جی جناب کچھ کچھ
رمضان:سائنس کے ٹیچر نہ بن جانا بلکہ سائنس کے سادھو بنناسائین آئین اسٹائین کی طرح ، تم پر ذمانے کے باطن آپ ہی آشکار ہونے لگیں گے۔ٹائم اسپیس دونوں گرفت میں آ جائیں گے”.
اشفاق احمد پوری داستان میں روحانیت، معاشرتی اصولوں اور انسانی ضمیرکے موضوعات کو مہارت سے بُنتے ہیں۔ کتاب قارئین کو چیلنج کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگیوں اور ذندگی گزارنےکےاپنے انتخاب پر غور کریں، جو مادی کامیابی بمقابلہ روحانی تکمیل پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
ایک منچلے کا سودا” کی زبان شاعرانہ اور فکر انگیز ہے، جس کے مکالمے کتاب کے بند ہونے کے بعد بھی ذہن میں رہتے ہیں۔ اشفاق احمد کی روحانی تصورات کو سادہ اور متعلقہ الفاظ میں بیان کرنے کی صلاحیت کتاب کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ ان کے کرداروں کی تصویر کشی بہت اہم ہے، ہر فرد انسانی فطرت اور معاشرے کے مختلف پہلوؤں کے طور پر کام کرتا ہے۔
ڈرامہ ’’ایک منچلے کا سودا‘‘ پاکستانی ادب پر انمٹ نقوش چھوڑ گیا ہے۔ یہ ٹیلی ویژن ڈرامہ ایک ایسا کلاسک ہے، جس کے ذریعےایک طاقتور پیغام وسیع تر ناظرین تک پہنچا۔ یہ کتاب قارئین کو ان کی روزمرہ کی زندگی کو سطحی طور پر دیکھنے کے بجائے ، دنیا میں اپنے مقصد اور مقام کے بارے میں گہرائی سے سمجھنے کی ترغیب دیتی ہے۔
اشفاق احمد کی داستان ایک رہنما ہےجو قارئین کو خود آگاہی اور اندرونی سکون کے سفر پر لے جاتی ہے۔ چاہے آپ پاکستانی ادب کے پرستار ہوں یا کوئی فلسفیانہ بصیرت کی تلاش میں ہوں ، "ایک منچلے کا سودا” ایک بھرپور اور فائدہ مند موادہے۔
آخر میں، اشفاق احمد کا لازوال کام لازوال ہے، ہ پیچیدہ دنیا میں معنی کی تلاش کے لیے اس ناول کو ہر کسی کے لیے پڑھنا ضروری ہے۔