کیا آپ پیٹر آسوالڈ سے واقف ہیں؟ کچھ گھنٹے قبل، میں بھی ان سے ناآشنا تھی۔ الجزیرہ ٹی وی چینل کی ایک خبر نے مجھ سمیت لاکھوں انسان دوست، خاص طور پر بے بس اور حساس مسلمانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ ان کے بارے میں جانیں۔
میں ان پاکستانی قارئین سے، جو اکثر مفادات سے بھرپور جذباتی رمضان ٹرانسمیشنز، حالاتِ حاضرہ کے پروگرامز، وی لاگز، پوڈکاسٹس اور کالمز پر اپنا قیمتی وقت صرف کرتے ہیں، خاص طور پر گزارش کروں گی کہ وہ پیٹر آسوالڈ کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں، اور یہ بھی سمجھیں کہ ان کے متعلق جاننا کیوں ضروری ہے؟
پیٹر چارلس پیٹرک آسوالڈ (پیدائش: 1965) ایک انگلش ڈرامہ نگار ہیں، جو منظوم ڈرامے (Verse Drama) میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ 1998 سے 2009 تک لندن کے شیکسپیئرز گلوب تھیٹر میں مقیم رہے۔ان کی فلسطین سے متعلق کاوشوں کے بارے میں جاننا نہایت اہم ہے۔
پہلی بات یہ کہ پیٹر صاحب مسلمان نہیں ہیں، نہ ہی کوئی سرگرم سماجی کارکن، بلکہ وہ ایک کرسچن، برطانوی مصنف ہیں۔ ساٹھ برس کے ہونے کو ہیں، ڈرامہ نگار ہیں اور ان کی اہلیہ، ایلس صاحبہ، جامعہ آکسفورڈ میں شاعری کی پروفیسر ہیں۔ دونوں سفید فام ہیں۔
پیٹر آسوالڈ فلسطین کے لیے 13 روزہ روحانی سفر پر ہیں۔ وہ برسٹل سے پارلیمنٹ اسکوائر، لندن تک 241 کلومیٹر پیدل چل رہے ہیں۔ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟
گوگل سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق، مسٹر آسوالڈ "ہینڈز اپ پروجیکٹ” کے لیے فنڈز اکٹھے کر رہے ہیں، جو کہ ایک تعلیمی فلاحی ادارہ ہے۔ یہ ادارہ دنیا بھر کے رضاکار اساتذہ کو غزہ کے اسکولی بچوں سے جوڑتا ہے۔ وہ تقریباً دس سال سے اس فلاحی کام سے وابستہ ہیں۔
انہوں نے پی اے نیوز ایجنسی کو بتایا:
"میں 2017 سے غزہ اور مغربی کنارے کے اسکول کے بچوں کو پڑھا رہا ہوں اور ان کی مدد کر رہا ہوں۔ جب آپ ان بچوں سے ذاتی طور پر جُڑے ہوتے ہیں، جن پر شدید بمباری کی جا رہی ہو، تو آپ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔”
"میں غزہ کے ایک ایسے گروپ کے ساتھ کام کر رہا تھا جو ‘کنگ لیئر’ کی مختصر شکل میں پرفارم اور ریہرسل کر رہا تھا۔ جو کچھ وہ کر رہے تھے، وہ ناقابل یقین حد تک خوبصورت تھا۔ ان کی اداکاری، ان کا لب و لہجہ-یہ سب میرے لیے بے حد متاثر کن تھا۔ پھر اچانک پورا قصبہ تباہ کر دیا گیا، اور یہ حقیقت ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی۔”
پیٹر کی پیس مارچ اور ان کے اس پلگریمِج سے نہ تو فلسطین آزاد ہو گا، نہ ہی ہزاروں نہتے فلسطینی بچے، بوڑھے اور جوان جو شہید ہو چکے، وہ واپس آ سکیں گے، نہ ہی بے گھر، بے در، لٹے پٹے، کٹے بازو اور ٹانگوں کے ساتھ بچ جانے والوں کے لیے کوئی امید کی کرن جاگے گی۔ یہی زمینی حقیقت ہے۔
لیکن بہت سے سرپھرے، بظاہر عام لوگوں کی طرح، پیٹر نے بھی—جن کے پاس نہ کوئی طاقتور عہدہ ہے، نہ ہی امن کا نوبل انعام، نہ ہی کوئی اسپانسرشپ-عالمی ضمیر کو مکمل طور پر مردہ ہونے کے اعلان سے بچا لیا ہے۔
پیٹر کا یہ قدم برطانیہ کی اقدار کے حوالے سے بھی بہت اہم ہے۔ غور کریں، یہ شخص کس درجے کا ایمپاتھ (empath) ہے! اس کی ہمدردی اس کے افکار اور اعمال سے چھلک رہی ہے۔
"ہم اس ملک میں اسلاموفوبیا کے خلاف آواز بلند کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر روزہ رکھ رہے ہیں۔ برسٹل میں، جہاں میں ابھی موجود ہوں، پچھلی گرمیوں میں ہونے والے خوفناک فسادات اور مرکیوری ہوٹل پر حملے کے واقعات دیکھ کر میں اپنے مسلمان دوستوں اور ان کے اہلِ خانہ کی سلامتی کے بارے میں مزید فکرمند ہو گیا تھا۔”
میں ایک عام سی پاکستانی شہری ہوں اور ملکی قوانین سے ڈرتی ہوں۔ میں کئی کالم نہیں لکھ سکی-مارچ کے مہینے اور 1971 کے مارچ کے حوالے سے، سابقہ مشرقی پاکستان میں اپنی بہاری کمیونٹی، غیر بنگالیوں، اور متحدہ پاکستان کے حامی بنگالیوں کے قتل عام پر، اور اس پر ہونے والی کربناک (مجرمانہ لکھنا شاید خطرناک ہوگا) خاموشی پر۔
آج پاکستان میں ایک بھی پیٹر آسوالڈ جیسا ادیب یا ادیبہ نہیں ہے۔ ادبی میلوں کی جان ، میلہ لوٹنے والے /والیاں ، گرج دار شاعری کرنے والے /والیاں، ملک دشمنوں کی حمایت کرنے والے /والیاں ، انسانی حقوق کے مخلص ورکرزاور ، شر پسندوں / دہشت گردوں/ ملک ٹوٹنے کے لئے کوشاں علیحدگی پسندوں کو ایک ہی صف میں لانے والے /والیاں ، ٹک ٹاک اسٹارز، اور جانے کون کون سے القابات اور ایوارڈز سمیٹنے والے/والیاں بہت ہیں – شائد سب ہی ایک المناک سرکس کا حصہ ہیں۔
جو دانشور یا دانشور نما لوگ پاکستان ٹوٹنے پر، محصورین کو بھلا دیئے جانے پر کبھی یکجا نہ ہو سکے، وہ فلسطین کی تباہی پر کیوں مزاحمت کی علامت بنیں گے؟
ہاں ہمارے پاس جالب صاحب تھے،منٹو صاحب تھے،فراز صاحب تھے – ضیاء کے دور میں مذہبی ادب کے ساتھ ساتھ مزاحمتی ادب بھی نمایاں ہوا – سیاسی تخلیق کار اب بہت ہیں۔
فیض صاحب نے فلسطینی بچے کے لیے لوری لکھی تھی اور اکہتر کے حوالے سے خون کے دھبے کتنی برساتوں کے بعد دھلیں گے۔۔۔ اس سے زیادہ کیا ممکن ہے ؟ کئی اور ہٹ نظمیں ،غزلیں ،افسانے ہیں، داستانیں ہیں۔۔۔۔لسٹ طویل ہے اور تاویل کوئی نہیں ہے کہ پیٹر جیسا ایکشن /عمل نہیں ہے اور کیوں نہیں ہے۔
کیا ہمارے ادیبوں کا اتنی ہولناک صورتِ حال میں پیٹر جیسا کردار نہیں ہو سکتا؟لیکن دلیر لکھاری بھی ایک حد سے آگے نہیں گئے اور نئی نسل کو کوئی دلیرانہ پیغام نہیں دے سکے۔ خود میری جنریشن انور مقصود کے جوکس پر ہنستے یا روتے ہوئی بڑھاپے کی طرف گامزن ہے اور سطحی کامیڈی ٹی وی شوز اور سوشل میڈیا کونٹینٹ وائرل ہوررہا ہے۔ سنجیدگی کا فقدان ہے اور مصاحبوں کی تعداد میں اضافہ حالیہ ایوارڈز کی لسٹ سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ زندگی نے یہی سکھایا کہ ہمارا پاکستانی ادیب بے حس نہیں ہے لیکن مصلحت پسند ضرور ہے . بہت سناٹا ہے، دل گھبراتا ہے۔ اللہ ہمیں معاف فرمائے۔
*ڈاکٹر رخشندہ پروین،ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں۔ مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں۔ وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔ صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے۔ گزشتہ دس سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے بھی ایک آواز بن رہی ہیں۔ *