شاہ فیصل کے قتل کو آج 50 سال ہو گئے: قتل کا معمہ آج تک حل نہ ہوا

25 مارچ 1975 کو سعودی عرب کے بادشاہ، شاہ فیصل کو ان کے دفتر میں اُن کے بھتیجے شہزادہ فیصل بن مساعد بن عبدالعزیز نے گولی مار کر قتل کیا تھا۔ شہزادہ فیصل بن مساعد چند دن پہلے ہی امریکہ سے وطن واپس آیا تھا۔ یہ قتل ایک مجلس (‘بیٹھنے کی جگہ’) میں ہوا تھا۔ یہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں بادشاہ یا کوئی بڑا رہنما اپنی رہائش گاہ شہریوں کے لیے کھولتا ہے تاکہ وہ بادشاہ کے حضور اپنی درخواستیں پیش کر سکیں۔

اُس دور کے میڈیا کی خبروں کے مطابق، رہائش گاہ کے اندر انتظار گاہ میں شہزادہ فیصل بن مساعد نے کویتی نمائندوں سے بات چیت کی جو شاہ فیصل سے ملاقات کے منتظر تھے۔ شہزادہ اسی وفد میں شامل ہو کر اس کمرے تک ان کے ساتھ چلا گیا جہاں وفد کی بادشاہ سے ملاقات ہونی تھی۔ جب شہزادہ فیصل شاہ فیصل کو گلے لگانےلگا تو سعودی ثقافت کے مطابق شاہ فیصل اپنے بھتیجے کو اپنی پیشانی کا بوسہ دینے کے لیے جھکے۔

اسی وقت شہزادہ فیصل بن مساعد نے اپنے زیرِ جامع پوشیدہ پستول نکالا اور بادشاہ پر گولی چلا دی۔ پہلی گولی شاہ فیصل کی ٹھوڑی پر لگی اور دوسری گولی ان کے کان میں جا لگی۔ ایک گارڈ نے اپنے میان میں رکھی ہوئی تلوار سے شہزادہ فیصل بن مساعد کو مارا۔ اس وقت کے سعودی عرب کے وزیر تیل، ذکی یمانی نے گارڈز کو چیخ چیخ کر کہا کے اسے ہلاک مت کرنا۔

شاہ فیصل کو جلدی سے ہسپتال لے جایا گیا۔ جب ڈاکٹروں نے اُن کے دل کی دھڑکن بحال کرنےکی کوشش کی اور اسے خون کی بوتل لگائی وہ زندہ تھے۔ تاہم ڈاکٹرز ناکام رہے اور کچھ ہی دیر بعد شاہ فیصل کا انتقال ہوگیا۔ قتل سےپہلے اور بعد میں شاہی گارڈز کی حراست میں شہزادہ پرسکون تھا۔ شاہ فیصل کے قتل کے بعد ریاض میں تین روزہ سوگ منایا گیا اور تمام سرکاری سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئیں۔

محرکات

اس قتل نے نہ صرف مملکتِ سعودی عرب کی بنیادوں کو ہلا دیا تھا بلکہ عالمی معیشت پر بھی اس کا گہرا اثر ہوا۔

اس زمانے میں جو باتیں میڈیا میں شائع ہوئیں یا میڈیا کو فیڈ کی گئیں اُن کے مطابق، شاہ فیصل کے قتل کا ایک نظریہ یہ بیان کیا گیا تھا کہ شہزادہ فیصل بن مساعد اپنے بھائی شہزادہ خالد بن مساعد کی موت کا بدلہ لینا چاہتاتھا۔ چند برس پہلے شاہ فیصل نے جدید اور سیکولر اصلاحات کا آغاز کیا تھا جس کی وجہ سے ریاض میں ایک ٹیلی ویژن سٹیشن قائم کیا گیا تھا۔

اس ٹی وی سٹیشن کے خلاف ایک پرتشدد احتجاج ترتیب دیا گیا تھا۔ جس کی قیادت شہزادہ خالد بن مساعدنے کی، جو ٹیلی ویژن سٹیشن پر حملے کے دوران ایک پولیس اہلکار کی گولی سے ہلاک ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ شہزادہ فیصل بن مساعد نے اپنے بھائی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے شاہ فیصل کو قتل کیا۔

شاہ فیصل کی لاش کو 26 مارچ 1975 کو ریاض کے السعود قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ خاندان کے چند افراد نے فوراً جانشینی کا معاملہ طے کیا اور ولی عہد شہزادہ خالد بن عبدالعزیز کو سعودی بادشاہ بنا کر اس کا اعلان کر دیا گیا تاکہ کسی قسم کی بے یقینی نہ پھیلے۔ شاہ فیصل کے جانشین، شاہ خالد ان کے جنازے میں شریک ہوئے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ان کی میت دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر روئے تھے۔

تاہم نئے بادشاہ کے آتے ہی مغربی طاقتوں کے مطالبے کے مطابق، تیل کی پیداوار بڑھا دی گئی اور چند ہفتوں میں تیل کی قیمتیں سنہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ سے پہلے کی سطح سے بھی نیچے آگئیں۔ سنہ 1973 میں شاہ فیصل نے مغربی ممالک کی اسرائیل کی مدد کرنے کی وجہ سے تیل کی سپلائی بند کردی تھی جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں کا سنگین بحران پیدا ہوا اور عالمی معیشت ڈھہ گئی تھی۔
شاہ فیصل کے دور کا جائزہ:

اگرچہ شاہ فیصل نے تیل کا بائیکاٹ ضرور کیا تھا، لیکن واشنگٹن کے ساتھ موجودہ تجارتی اور فوجی تعاون میں اور انٹیلی جنس شیئرنگ میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ مصر کے صدر جمال عبدالناصر کی طرف سے “پان عرب ازم”کی مخالفت کرتے ہوئے، انھوں نے “پان اسلام ازم” کو فروغ دیا۔ “پان عرب ازم” کی بدولت اُس وقت عالم عرب کی قیادت صدر ناصر کے پاس آگئی تھی۔

سنہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں مصر کی شکست کے بعد صدر جمال عبدالناصر نے شاہ فیصل کے ساتھ عالم عرب کی قیادت کے لیے مقابلے بازی ختم کر دی تھی۔ اس جنگ کے دوران بھی تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک نے اسرائیل کی حمایت کرنے پر امریکہ اور برطانیہ کو سپلائی معطل کی تھی۔ اگرچہ ان کا بائیکاٹ مختصر تھا، لیکن اس کے نتیجے میں تیل برآمد کرنے والے عرب ممالک کی تنظیم (OAPEC) وجود میں آئی۔

اگست 1969 میں یروشلم میں مسجد اقصیٰ کو آگ لگانےکی ایک پرتشدد مگر ناکام کوشش کے بعد، شاہ فیصل نے بین الحکومتی تنظیم اسلامی کانفرنس (OIC) کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ اور القدس (یروشلم) میں پیش آنے والے واقعہ پر مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی ممالک کی پہلی سربراہی کانفرنس منعقد کرائی تھی۔

انڈیا بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا اور وہ شریک ہو رہا تھا لیکن پاکستان نے احتجاج کیا تو شاہ فیصل نے پاکستان کی حمایت کی۔ شاہ فیصل تنازعہ کشمیر میں شروع ہی سے یعنی سنہ 1948 سے پاکستان کے موقف کے حامی تھے۔ انھوں نے پاکستانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کے ساتھ اقوام متحدہ کے کئی اجلاسوں میں شرکت بھی کی تھی۔

بہرحال او آئی سی کی کانفرنس کے اگلے سال صدر ناصر کی اچانک موت کے بعد، شاہ فیصل نے ناصر کے جانشین انوار السادات کے ساتھ تعلقات بہتر کیے۔ مصر اب خطے کا ایک طاقتور ملک نہیں تھا۔ اور سعودی عرب تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ایک بہت امیر ملک بن چُکا تھا۔

سنہ 73 کی عرب-اسرائیل جنگ اور تیل کا بحران

1973 کی عرب-اسرائیل جنگ کے دوران، شاہ فیصل نے اسرائیل کو امریکہ کی بڑی فوجی امداد کے ردعمل کے طور پر اوپیک کی تیل کی سپلائی پر پابندی کے آپریشن کی قیادت کی تھی۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے نے شاہ فیصل کے پاس تیل کی آمدن کی وجہ سے بہت زیادہ دولت جمع ہوگئی جو انھوں نےبیرون ملک سعودی اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کرنا شروع کی۔

عرب-اسرائیل جنگ کے آغاز میں تو مصر کامیاب ہو رہا تھا لیکن پھر مغربی طاقتوں نے اسرائیل کو بھاری مقدار میں اسلحہ سپلائی کرنا شروع کردیا جس سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور مصر کو شکست ہوئی۔ اس کے بعد مصر کے صدر انوار السادات نے اسرائیل سے تعلقات بہترکرنے کے بارے میں سوچنا شروع کردیا تھا۔ بلکہ امریکہ کا دباؤ بھی بڑھ رہا تھا کے مصر اور اسرائیل کے تعلقات میں بہتری پیدا کی جائے۔ اس وقت سعودی عرب کے شاہ فیصل نےصدر سادات کو اسرائیل کی جانب جھکنے سے روکا تھا۔

شاہ فیصل نے اس وقت کے افغانستان کے صدر سردار داؤد خان کی کیش کی قلت کا شکار حکومت کو بینک رولنگ کرکے اور اپنے خفیہ ایجنٹوں کو مارکسی رہنماؤں کو قتل کرنے کی تربیت دے کر افغانستان تک اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ اس کےجواب میں، چند برسوں کے بعد بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے فوجی افسران نے، نور محمد تراکئ کی قیادت میں، اپریل 1978 میں بغاوت کی اور افغانستان میں پہلی سوشلسٹ حکومت قائم ہوئی۔

شہزادہ فیصل بن مساعد

شاہ فیصل کو قتل کرنے والے شہزادہ فیصل بن مساعد کو سرکاری طور پر پاگل قرار دے دیا گیا۔ لیکن مقدمے کی سماعت کے بعد، سعودی طبی ماہرین کے ایک پینل نے فیصلہ کیا کہ جب شہزادہ فیصل نے بادشاہ کو گولی مار کر ہلاک کیا تووہ اپنے ہوش و حواس میں تھا۔ ملک کی اعلیٰ مذہبی عدالت نےاسے قتل کا مجرم قرار دیا اور اسے موت کی سزا سنائی۔

سرِ عام سزا 18 جون 1975 کو شام 4:30 بجے – سورج ڈوبنے سے تین گھنٹے پہلے – الحکم پیلس (پیلیس آف جسٹس) میں ہزاروں کے ہجوم کے سامنے شہزادہ فیصل بن مساعد کا ریاض کے عوامی چوک میں سر قلم کیا گیا۔ شہزادے کے کٹے ہوئے سر کو آدھے گھنٹے کے لیے نیزے پر لگا کر ہجوم کو دکھایا گیا پھر ایک ایمبولینس میں اس کا سر اور دھڑ تدفین کے لیے روانہ کردیے گئے۔

قتل پر سرکاری موقف

شاہ فیصل کے قتل کے بعد سرکاری طور پر سعودی عرب نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ ایک فردِ واحد یعنی شہزادہ فیصل بن مساعد کا ذاتی فعل تھا اور اس قتل کے پیچھے کوئی بیرونی سازش نہیں تھی۔ یہی موقف سعودی عرب کے انٹیلیجنس کے سربراہ شہزادہ ترکی نے بھی آخر وقت تک اپنائے رکھا۔ شہزادہ ترکی امریکہ کے حامیوں میں شمار کیے جاتے رہے ہیں۔

تاہم اس زمانے میں لبنان کے کئی اخبارات نے قتل کے بارے میں مختلف سازشی تھیوریز پیش کی تھیں جن میں سرفہرست اس قتل کا الزام سی آئی اے پر عائد کیا جاتا تھا۔ اسکے علاوہ اسرائیل انٹیلیجنس ایجنسی موساد پر بھی قتل کی سازش بنانے کا الزام لگایا جاتا تھا۔ لیکن سعودی حکومت نے ان سازشوں کی تردید کی۔

قاتل کے پیچھے حسینہ

امریکہ میں قیام کے دوران شہزادہ فیصل بن مساعد کی ایک سنہری بالوں والی ایکسٹرا اداکارہ، کرسٹین سومار سے دوستی ہوگئی تھی۔ اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اس کی ہینڈلر تھی۔ لیکن کرسٹین نے بعد میں ایک تو یہودی ہونے کےالزامات کی تردید کی، اور اپنے کسی انٹیلیجنس ایجنسی کے ساتھ روابط کی بھی تردید کی تھی۔ تاہم فیصل بن مساعد کے بعد کرسٹین نہ کسی فلم میں نظر آئی اور نہ کسی سماجی تقریب میں۔ وہ عملاً غائب ہوگئی۔

“ہاؤ ٹو کِل”

کئی برس بعد ایک صحافی کرِس ہولنگٹن نے “ہاؤ ٹو کِل” نامی ایک کتاب لکھی جس میں اس نے دنیا میں ہونے والے 35 اہم سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات کے پیچیدہ قتل کے واقعات پر ریسرچ کی۔ اس کی کتاب میں قتل کی ایک کہانی شاہ فیصل کے بارے میں بھی ہے جس میں اس نے واقعاتی شواہد کے ساتھ یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شاہ فیصل کو شہزادہ فیصل کے ذریعے قتل کرایا گیا تھا اور اس میں کرسٹین سومار کا کردار کلیدی نوعیت کا تھا۔

کرس ہولنگٹن لکھتا ہے کہ اسیسینیشنز (assassinations) یا سیاسی قتل کےواقعات عموماً دنیا کو حیران کردیتے ہیں، جن کی خبر سنتے ہی دنیا کے بڑے بڑے سیاسی رہنما خوف کے مارے سکتے میں آ جاتے ہیں۔ اب بیان کیا جانے والا واقعہ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس کے بعد دنیا کے کئی وزارائے اعظم، صدور اور مطلق العنان حکمرانوں نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ اُس طاقتور حکمران کی زندگی کا اچانک خاتمہ ہوگیا جس کے ایک ایکشن سے بھی عالمی معیشت ہل جاتی تھی۔

وہ کہتا ہے کہ یہ سیاسی قتل دنیا میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے لیکن اس واقعے کی مکمل کہانی تاحال بیان نہیں کی گئی ہے۔ آپ کو ایسی کوئی کہانی کہاں ملے گی جس میں ڈرگ ڈیلر کا کردار ہو، ایک “بی مووی” کی ایکٹریس اورسابق مشرقی جرمنی کے جاسوس ادارے “ستاسی” کے ایجنٹس ہوں (اور سی آئی اے کا بھی گہرا کردار ہو)؟

شہزادے کے واپسی

قتل کے واقعے سے کچھ عرصہ پہلے جیسے ہی ستائیس برس کے شہزادہ فیصل بن مساعد نے شاہی جیٹ سے ریاض ائرپورٹ پر قدم رکھا اس کا پاسپورٹ ضبط کرلیا گیا۔ دہشت ناک حُلیے اور بڑے بڑے بالوں والے مغربی لباس میں ملبوس رےبن کی عینک پہنے اس جوان کو اپنے چچا کے خیر مقدم کرنے والی کمیٹی نے ناپسندیدہ انداز سے ائر پورٹ سے اپنے ہمراہ لیا تھا۔

اسے ایک بلٹ پروف لیموزین میں شاہی محل پہنچایا گیا جہاں اس کے چچا اور گارجیئن، سعودی عرب کے انہتر برس کےمطلق العنان حکمران، شاہ فیصل ابن عبدالعزیز السعود نے کہا کہ وہ اپنے ملک کے لیے باعثِ شرم بن چکا ہےاور اب اُسے سعودی عرب سے دوبارہ باہر جانے نہیں دیا جائےگا۔

جوان شہزادہ خاموشی کے ساتھ اپنے چچا کی ڈانٹ سنتا رہا اور جیسے ہی یہ ڈانٹ ڈپٹ ختم ہوئی، وہ احترام کے ساتھ چچا کے سامنے جھکا اور کچھ بھی کہے بغیر محل سے رخصت ہوگیا۔

شہزادہ فیصل بن مساعد اُس وقت کے تین ہزار سعودی شہزادوں میں ایک کالی بھیڑ (black sheep) سمجھا جاتا تھا۔ وہ خود سے شہر بدر ہونے والے بنیاد پرست شہزادہ مساعد بن عبدالعزیز کا بیٹا تھا، یعنی شاہ فیصل کا سوتیلابھائی تھا۔ مساعد نے بادشاہ کے ان اقدامات کو مسترد کردیا تھا جو اس کی نظر میں معتدل قسم کے مغرب پسند تھے اور وہ روایتی قسم کی قبائلی زندگی بسر کرنے کے لیے ریاض سےباہر نکل گیا تھا۔

شہزادے کی امریکہ روانگی

شہزادہ مساعد سنہ 1965 تک ایک خاموش زندگی بسر کرتا رہا حتّٰی کے شاہ فیصل نے ملک میں ٹیلی ویژن متعارف کرایا۔ مساعد کے قران کی سخت گیر توضیح کے مطابق، انسانی تصویر نشر کرنا توہینِ مذہب تھا۔ اپنے ہم خیال جتھوں کے ہمراہ مساعد کے بڑے بیٹے شہزادہ خالد نے ٹیلی ویژن سٹیشن کے سامنے ایک احجاجی مظاہرے کی قیادت کی تھی۔

اس کے بعد مظاہرین پر بادشاہ کے سپاہیوں سے تصادم کے بعد مشین گنوں سے گولیاں چلائی گئیں اور خالد اُس فائرنگ کی وجہ سے ہلاک ہونے والا پہلا شخص تھا۔

مساعد کا دوسرا بیٹا، شہزادہ فیصل، جو اپنے بھائی کی ہلاکت کے وقت سترہ برس کا تھا اپنے خاندان کی سخت گیر نظریات والی زندگی بسر کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ بلکہ وہ اپنے خیالات میں دوسری جانب انتہا پسند ہو چکا تھا۔ اس نے اپنے لیے ملک چھوڑنا زیادہ مناسب سمجھا، مغربی اقدار کو اپنا لیا اور سنہ 1970 میں اپنے چچا کو قائل کیا کہ وہ امریکہ جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔

امریکہ میں تعلیم

لیکن پہلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں پھر یونیورسٹی آف کولوراڈو میں بزنس کی ڈگری کے لیے پڑھنے کے بجائے، شہزادے صاحب عموماً لڑکیوں کے پیچھے لگے رہتے، اور ایل ایس ڈی جیسی ڈرگز اور ماریوانا جیسے نشئوں کی لت میں پڑگیا۔ وہ طلبا کے ایسے گروہوں میں شامل ہوگیا جو اس پر بہت خوش ہوتے تھے کہ سعودی عرب کے شاہ فیصل کا ایک بھتیجا ان کے ساتھ پڑھ رہا ہے۔ یہ بائیں بازو کے “بوہیمین کلچر” کے خودرو گروہ تھے۔

(بوہیمین ثقافت ایک آزاد خیال اور غیر روایتی طرزِ زندگی ہے جو تخلیقی آزادی، فکری خودمختاری اور معاشرتی قیود سے بےنیازی پر زور دیتی ہے۔ یہ طرزِ زندگی عام طور پر فنکاروں، شاعروں اور ادیبوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔)

یونیورسٹی کے طلبا شہزادے کو اس بات کا بار بار احساس دلاتے کہ سعودی عرب کی ترقی کی راہ میں شاہ فیصل اور شاہی خاندان سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں کچھ کرے۔ ڈرگز کے استعمال کے دوران اس طرح کی شدید بحثوں کا شہزادے فیصل کے ذہن پر دور رس اثر پڑنا تھا منطقی نتیجہ تھا۔

کرسٹین سومار

جس دوران وہ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھا وہ سنہری بالوں والی ایک حسینہ کرسٹین سُومار کے عشق میں مبتلا ہوگیا۔ کرسٹین اداکارہ بننے کی خواہش رکھتی تھی۔ پہلے اپنی شاہی حیثیت کو استعمال کرنے یعنی شاہی وظیفے کی رقم خرچ کرکے شہزادے نے کرسٹین کا دل جیتا۔ پھر وہ دونوں اکھٹے ایک فلیٹ میں رہنے لگے۔

جس دوران شہزادہ سیاسی اجلاسوں میں مصروف رہتا جن میں شرکا اُسے سعودی عرب کو آزاد کرانے کے لیے اکساتے رہتے، کرسٹین اس دوران اپنے ایک پراجیکٹ یعنی اپنی ایک نچلے درجے کی بی فلم، ‘بائیٹ آف دی کوبرا‘ (The Bite of the Cobra) میں کام کرنے کے لیے ہر روز غائب ہو جایا کرتی تھی۔

ایل ایس ڈی کے باقاعدہ استعمال سے پہلے شہزادہ عموماً خاموش رہتا تھا اور لوگ اسے جانتے بھی نہیں تھے۔ پھر اس نے کالج کے فیل شدہ طالب علم کی طرح ایک جنگلی انداز میں لمبے لمبے بال رکھ لیے اور فیشن ایبل انداز میں جینز اور لیدر جیکٹ جیسے معربی لباس پہننے شروع کردئیے۔

شہزادے کو اس بات کا احساس تھا کہ اگر اس کے گھر والوں کو پتہ چل گیا کہ وہ اپنی تعلیم میں سنجیدہ نہیں ہو تو اس کا وظیفہ بند ہوجائے گا۔ لہٰذا ممکنہ مالی بد حالی سے بچنے کے لیے اس نے ڈرگز کا کاروبار شروع کردیا تاکہ وہ کرسٹین کے ساتھ رہتے ہوئے اپنا شاہانہ میعار زندگی برقرار رکھ سکے۔

شہزادے کی گرفتاری

اس دوران ایک دن سارا کام چوپٹ ہوگیا۔ شہزادہ فیصل کولوراڈو (Colorado) ریاست کے شہر بؤلڈر میں گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس کو احساس ہوا کہ ان کا یہ نوجوان قیدی ذہنی طور پراپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی بڑی شخصیت سمجھتا ہے۔ اور کبھی کبھار اُنھیں لگتا کہ شہزادہ ان کے سوالات کو سمجھ ہی نہیں پاتا ہے کیونکہ اس کا ذہن کہیں اور ہوتا ہے۔ ایک ماہر نفسیات نے تشخیص کی کہ اس کا دماغ ماریوانا کے نشے سے متاثر ہوچکا تھا اس لیے اسے ہسپتال میں داخل کروا دیا جائے۔

شہزادہ فیصل کو اس مقدمے سے بری کردیا گیا (سفارتی استثنیٰ کی وجہ سے) لیکن اسے کنیکٹیکٹ (Connecticut) کے ایک ہسپتال میں 28 دنوں کے لیے داخل کروایا گیا تھا۔ اس دوران کرسٹین نے اس کا انتظار کیا اور پھر اس نے برکلے یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائینس میں ایم اے کرنے کے لیے داخلہ لے لیا۔

بیروت اور مشرقی جرمنی

تاہم وہ یہاں زیادہ عرصے نہ رکا، بلکہ وہ ڈرگز کا کاروبار بین الاقوامی سطح پر کرنے کے لیے بیروت چلا گیا۔ سنہ 1974 کےاواخر میں بیروت میں بعد میں بڑی سطح پر پھیلنے والی خانہ جنگی کے چھوٹے چھوٹے تصادم کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس دوران شہزادہ فیصل نے وہاں سے مشرقی جرمنی کا رخ کیا۔ مغربی خیالات کی جانب جھکاؤ رکنے والے شخص کا وہاں جانا ایک عجیب و غریب بات تھی۔

لیکن اس زمانے میں جرمنی “دہشت گرد” تنظیم برائے آزادئِی فلسطین (پی ایل او) کے لیے یہ ایک محفوظ پناہ گاہ سمجھا جاتا تھا۔ اس زمانے میں پی ایل او کو شاہ فیصل کی جانب سے کافی مالی امداد بھی ملتی تھی۔ اس تنظیم نے اپنے مالدار مُربّی یعنی شاہ فیصل کے بھتیجے کا خیر مقدم کیا جو ڈرگز کےکاروبار میں سرمایہ کاری کرنا چا رہا تھا۔

اُن دنوں الزام یہ بھی تھا کہ پی ایل او نے اس دوران ڈرگ کے کاروبار کے ذریعے اپنے فنڈز جمع کیے تھے۔ شہزادے کی بد قسمتی یہ رہی کہ پی ایل او نے اسے دماغی طور پر بہت زیاد تند و خو محسوس کیا اور واپس بھیج دیا۔ اس کے بعد کے دو مہینے کے دوران کی سرگرمیوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ملتا ہے، پھر وہ مالی مُشکلات کا شکار ہوا اور اسے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔

جرمنی میں اٹیلیجنس ایجنسی “ستاسی” کے پاس اس کی فائل کے مطابق، شہزادہ فیصل مشرقی برلن میں سنہ 1974 میں آیا جب مشرقی جرمنی میں سنہ 1973 میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اثر معیشت پر پڑ رہا تھا۔ تیل کی قیمتوں میں اچانک شدید اضافے کا ناگزیر اثر مشرقی جرمنی پر تاخیر کے ساتھ اثر ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کےمشرقی جرمنی کی معیشت کا انحصار سویت یونین سے آنےوالے تیل پر ہوتا تھا جو اسے کم قیمت پر دستیاب ہوتا تھا۔

سنہ 1973 کے تیل کے بحران کے بعد سویت یونین (آج کے روس) نے تیل کی قیمتوں کا نیا نظام وضع کیا جس کے مطابق ہر برس گزشتہ برس تیل کی عالمی اوسط قیمتوں کے مطابق، سویتس تیل کی قیمتوں کا تعین کیا جاتا تھا۔ سنہ 1975 کے آغاز میں جب پچھلےسال کی اوسط قیمتوں کی بنیاد پر قیمتوں میں اضافہ ہوا تومشرقی جرمنی کی معیشت ایک شدید کساد بازاری کا شکار ہوگئی۔

تیل کی ان قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مشرقی جرمنی میں اقتصادی بحران پیدا ہوا جس کا ذمہ دار سعودی عرب کے شاہ فیصل کو سمجھا گیا جو کہ شہزادہ فیصل کا چچا تھا۔

شاہ فیصل: دنیا کا طاقتور ترین شخص

اپنی اس حیثیت کے لحاظ سے اور تیل برآمد کرنے والے ممالک میں سرِفہرست ہونے کی وجہ سے مذہبی اور متقی و پرہیزگار اور معاملہ فہم شاہ فیصل بلا شبہ ستر کی دہائی کے اوائل میں اس کرہ ارض پر سب سے زیادہ طاقتور حکمران تھا۔ اس کا بہت ہی کم آبادی والا ملک اس وقت تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا۔ سعودی فرمانروا کی امارت کے باوجود اس کے عیاشی کے کبھی بھی سکینڈلز نہیں بنے۔

اور تیل کی قیمتیں بڑھانے والا سب سے پہلا شخص بھی شاہ فیصل تھا۔ وہ اس وقت تیل کی عالمی قیمتیں کم کرنے یا بڑھانے کی سب سے زیادہ صلاحیت رکھتا تھا۔ تیل برآمد کرنےوالے ممالک کی تنظیم اوپیک نے سنہ 1973 کی عرب-اسرائیل جنگ کے دوران تیل کی قیمتوں کو ایک ہتھیارکے طور پر استعمال کیا۔

(بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ 1973 کی عرب-اسرائیل جنگ کے دوران تیل کی سپلائی بند کرنے کی تحریک اس وقت کے پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شاہ فیصل کو دی تھی۔ سنہ 1974 میں پاکستان کے شہر لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس میں شاہ فیصل نے بھٹو کی بھر پور مالی اعانت کی تھی۔ اسی کانفرنس میں یاسر عرفات کو فلسطینیوں کا نمائندہ تسلیم کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مسلم ممالک کے وسائل اور دولت کو مسلم ممالک کی فلاح س بہبود کے لیے استعمال کرنے کا بھی فیصلہ ہوا تھا۔ اور یہی فیصلہ مغرب کے مالیاتی اداروں اور بینکوں کے لیے نقصان دہ تھا۔)

قتل کی وجہ تیل کا بحران؟

کرس ہولنگٹن اپنی ریسرچ کے حوالے سے کہتا ہے کہ اس وقت کی دنیا میں جب ایک شخص کی وجہ سے مغرب ایک گہرے عالمی اقتصادی بحران میں پھنسا ہوا تھا، اور امریکہ جیسی طاقت اس کے سامنے اپنے آپ کو مجبور سمجھتی تھی تو اس کو ہٹانا ایک منطقی حکمت عملی بنتی ہے۔ اس لیے خاندان کے اندر کے ایک ناراص فرد کو تیار کیا جاتا ہے۔

اپنی ریسرچ کے آخر میں کرس لکھتا ہے کہ شروع میں تو سعودی حکام جو شاہ فیصل کے قتل کی تفتیش پر مامور تھے انھوں نے شہزادہ فیصل کو دماغی طور پر باگل قرار دیا۔ لیکن سعودی عرب کےایک مذہبی عالم نے کہا کہ شہزادے کے دماغ پر بہت زیادہ سفر کرنے اور بیرونی دنیا کے شیطانی اثرات مرتب ہوئے تھے۔

لیکن ریڈیو ریاض نے بعد میں کہا کہ شہزادے نے اقبالِ جرم کرلیا ہے کیونکہ وہ سعودی عرب کو شریعت کے نظام سے نجات دلانا چاہتا تھا۔ یہ کافی زیادہ متضاد باتیں تھیں۔ اسی دوران قتل کا ایک اور محرک سامنے لایا گیا کہ شہزادہ فیصل اپنے بھائی شہزادہ خالد کے قتل کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔

مگر شہزادہ فیصل کے امریکی دوستوں نے اس قتل کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اسے ایک قابلِ پسند شخصیت قرار دیا تھا لیکن یہ بھی کہا کہ اُسے محنت سے پڑھنے وڑنے کا شوق نہیں تھا۔ شہزادے کی دوست کرسٹین سورما نےبھی ایک ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ شہزادے کو اپنے چچا سے کوئی نفرت نہیں تھی، اور وہ ایک شریف آدمی تھا۔ اس نے مزید کہا تھا کہ اگر وہ پاگل ہوا تھا تو وہ امریکہ سے جانے کے بعد ہوا ہو گا۔

لیکن کرسٹین سورما نے یہ نہیں بتایا تھا کہ شہزادہ منشیات کے استعمال کی وجہ سے ری ہیبی لیٹیشن سینٹر میں رہا تھا اور یہ کہ وہ ایل ایس ڈی کی ٹریفیکنگ کی وجہ سے گرفتار بھی ہوا تھا۔ چھبیس برس کی اداکارہ اس انٹرویو کے بعدغائب ہو گئی — اور جس فلم یعنی کم درجے کی فلم، “دی بائیٹ آف دی کوبرا” (The Bite of the Cobra)، میں وہ بظاہر کام کر رہی تھی، وہ فلم بعد میں کسی نے سنی ہی نہیں۔ اس فلم کا وجود کبھی بھی ثابت نہیں ہوا۔

کرس ہولنگٹن کے مطابق، بعض امریکی تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ وہ کسی نہ کسی حیثیت میں شہزادے کو اپنے چچا کے قتل کے لیے اُکساتی رہی ہے لیکن اس بات کو ثابت کرنے کے لیےکوئی ناقابلِ تردید واضح ثبوت نہیں ہے۔

بہرحال، شاہ فیصل کے قتل کے بعد باقی مغربی دنیا نے اُس وقت سُکھ کا سانس لیا جب اس کا جانشین ایک معتدل مزاج، مغرب مائل شہزادہ، سعودی عرب کا بادشاہ بن گیا اور جس نے امریکی خواہشات کے مطابق تیل کی پیداوار اتنی زیادہ کردی کہ تیل کی قیمتیں سنہ تہتر کی قیمتوں سے بھی نیچے گر گئیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے