ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کسی نہ کسی علمی روایت میں پرورش پاتے ہیں، اسی کے سانچے میں ڈھلتے ہیں، اور پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہ اس روایت کو چیلنج کرنے لگتے ہیں۔ یہ معاملہ کوئی فردِ واحد کا نہیں، بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے جو تاریخ میں بارہا دہرایا جا چکا ہے۔ اسکی تازہ مثال ماضی قریب میں مفتی منیر احمد شاکر شہید کی زندگی اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔ وہ ابتداء میں ایک سخت گیر روایتی نقطہ نظر کے حامل تھے، مناظر مزاج، روایتی حلقے سے تعلیم پائی اور اسی دائرے میں رہے مگر وقت کے ساتھ ان کے خیالات میں ایک ارتقائی تبدیلی آئی، یہ تبدیلی بھی بنیادی نوعیت کی واقع ہوئی اور وہ اسی روایت پر سوالات اٹھانے لگے جس کے وہ ایک عرصے تک خود پرچم بردار رہے۔ حیرت انگیز طور پر اس کا نتیجہ وہی نکلا جو ہمیشہ نکلتا ہے۔ روایت کے علمبرداروں نے انہیں دائرۂ حق سے خارج کر دیا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب ہوتا کیوں ہے؟ کیا ہر وہ شخص جو اپنی روایت پر سوال اٹھاتا ہے، وہ محض ضد، ہٹ دھرمی یا گمراہی کی وجہ سے ایسا کرتا ہے؟ یا اس کے پیچھے کوئی حقیقی فکری اور علمی اضطراب ہوتا ہے؟
اس خاکسار کا خاندانی و علمی تعلق خالص روایتی ہے لیکن طبیعت ہی کچھ ایسی پائی اس پر قناعت کرنے سے ہنوز قاصر ہوں ۔ اس وقت میری ہیلو ہائے مختلف علمی حلقوں سے ہے۔ میں نے روایت کے اندر بھی وقت گزارا ہے، اسے سمجھنے اور برتنے کی کوشش کی ہے، اور ساتھ ہی میں نے ان لوگوں سے بھی نشستیں کی ہیں جو روایت سے ہٹ کر سوچتے ہیں، جو اس پر سوالات اٹھاتے ہیں، اور جو بعض اوقات اسی روایت کے اندر رہ کر گھٹن محسوس کرنے لگتے ہیں۔ مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ بڑے ذہن زیادہ دیر تک "فہم مسلسل” کے عنوان سے پیش کی جانے والی روایت سے "حسن تعامل” نہیں کر پاتے بلکہ ہم نے دیکھا کہ جو لوگ ایک دن روایت کے پکے پیروکار ہوتے ہیں اور اگلے دن اس پر نکتہ چینی کر رہے ہوتے ہیں، میرے خیال میں وہ ضروری نہیں کہ کسی خارجی اثر کا شکار ہوں، بلکہ وہ اسی روایت کے اندر رہتے ہوئے کچھ ایسا محسوس کرتے ہیں جو انہیں اس سے آگے جانے پر مجبور کرتا ہے۔
یہ بات سمجھنا اہلِ روایت کے لیے نہایت ضروری ہے، کیونکہ اب تک جو طرزِ عمل ہمارے ہاں عام ہے، وہ یہی ہے کہ جونہی کوئی شخص روایت کے مسلمات پر سوال اٹھائے، اسے فوراً دائرے سے باہر کر دیا جائے۔ کسی نے ایک نیا زاویہ سوچا تو کہا گیا کہ وہ فاسق و فاجر ہو گیا۔ کسی نے یہ پوچھ لیا کہ کیا روایت میں ہر چیز حتمی ہے، تو اس پر گمراہی کا فتویٰ لگا دیا گیا۔ مگر یہ سب کچھ کرنے سے سوالات ختم نہیں ہوتے، بلکہ بڑھتے ہیں۔
دراصل یہ رویہ اس مفروضے پر قائم ہے کہ روایت ہر زمانے میں کافی ہے اور اس میں کسی قسم کی تجدید یا تازگی کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر حقیقت میں ایسا ہوتا، تو یہ سوال بار بار کیوں اٹھتا؟ اگر روایت واقعی ہر دور کے مسائل کو حل کرنے میں مکمل کفایت رکھتی، تو وہ لوگ جو اس کے سب سے بڑے طالب علم ہوتے ہیں، ایک وقت کے بعد خود اس سے بے چین کیوں ہو جاتے ہیں؟ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی ذہین شخص روایت کی حدود میں قید محسوس کرنے لگتا ہے؟
یہ بات قابلِ غور ہے کہ جو لوگ روایت کے اندر رہتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں، ان کا بنیادی مسئلہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ دین سے بیزار ہو رہے ہوتے ہیں یا انہیں کوئی بیرونی فکر بہا کر لے جا رہی ہوتی ہے۔ ان کا اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ دنیا بدل رہی ہے، مسائل بدل رہے ہیں، اور بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات روایت کے اندر اس انداز میں نہیں ملتے جس انداز میں وہ درکار ہوتے ہیں۔ اگر وہ روایت کے دائرے میں رہتے ہیں تو انہیں بہت سی چیزیں مجبوراً قبول کرنی پڑتی ہیں، اور اگر وہ روایت سے باہر نکلتے ہیں تو ان پر گمراہی کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جہاں اہلِ روایت کو رک کر سوچنا چاہیے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنی روایت پر بھی ایک نظر ڈالیں؟ کیا یہ لازمی ہے کہ ہم ہر سوال کرنے والے کو فوراً دائرے سے باہر نکال دیں، یا ہم اپنی علمی روایت کو اتنا تازہ اور وسیع رکھیں کہ وہ خود ایسے سوالات کو اپنے اندر جگہ دے سکے؟
پچھلے دو سو سال کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ہمارا طریقہ یہی رہا ہے کہ جو کوئی بھی تھوڑی سی آزاد فضا میں سانس لینے کی کوشش کرے، اسے دھکا دے کر باہر نکال دیا جائے۔ لیکن اس طریقے نے اب تک کون سا فائدہ دیا ہے؟ کیا اس سے سوالات ختم ہوئے؟ کیا اس سے وہ لوگ رک گئے جو روایت سے نکل کر کچھ نیا دریافت کرنا چاہتے ہیں؟ یا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف ایک سخت گیر روایت پرست طبقہ کھڑا ہو گیا، اور دوسری طرف وہ لوگ جو روایت میں جگہ نہ پا سکے، مکمل طور پر اس سے الگ ہو گئے؟
اگر یہ درست ہے کہ روایت کو ہر زمانے میں کافی ہونا چاہیے، تو پھر ہمیں اس پر بھی غور کرنا ہوگا کہ روایت کو وقت کے ساتھ ساتھ خود کو "اپڈیٹ” کرتے رہنا چاہیے۔ ورنہ جو چیز ایک زمانے میں زندہ روایت ہوتی ہے، وہ ایک وقت کے بعد محض تاریخی نوٹ بن کر رہ جاتی ہے۔ اصل مسئلہ روایت کو ختم کرنا نہیں، بلکہ اسے تازہ رکھنا ہے۔
یہ سوال میں اپنے ان تمام دوستوں کے لیے چھوڑ رہا ہوں جو روایت کے محافظ بھی ہیں اور ان کے لیے بھی جو روایت کے اندر رہ کر خود کو گھٹن کا شکار محسوس کرتے ہیں۔ کیا ہم صرف ایک دوسرے پر فتوے لگاتے رہیں گے، یا ہم اس سوال پر بھی غور کریں گے کہ جو لوگ اس روایت کے سب سے بڑے طالب علم ہوتے ہیں، وہی ایک وقت کے بعد اسے چھوڑنے پر کیوں مجبور ہو جاتے ہیں؟