دیامر کی سرزمین، جو صدیوں سے اپنی تہذیب اور روایتوں کی امین رہی ہے، آج ایک نازک دوراہے پر کھڑی ہے۔ جب بھی دیامر کے مستقبل کی بات ہوتی ہے، ہمیں دیامر بھاشہ ڈیم کا ذکر ضرور سننے کو ملتا ہے، جیسے کہ یہی ڈیم ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔ لیکن کیا واقعی اس ڈیم کی تکمیل کے بعد ہمارا مستقبل محفوظ ہو جائے گا؟ کیا زمینوں کے معاوضے اور واپڈا میں نوکریاں ہمارے آئندہ کے لیے کافی ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے آبا و اجداد کی زمینوں کے معاوضے یا چند سرکاری نوکریاں دیامر کے نوجوانوں کا خواب پورا نہیں کر سکتیں۔ ہمارا،اصل مستقبل پانی، ماحول، اور سیاحت سے جڑا ہوا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات، پانی کی کامیابی اور قدرتی وسائل کا ضیاع ہمارے لیے بڑے چیلنجز ہیں، جن پر غور کرنا از حد ضروری ہے۔ دیامر کے باسیوں کو صرف معاوضے اور ملازمتوں تک محدود رکھنے سے ہماری ترقی ممکن نہیں۔
وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی سوچ کو وسیع کریں اور مستقبل کے لیے ایک ٹھوس لائحہ عمل تیار کریں۔ ہمیں اس سوچ سے باہر نکلنا ہوگا کہ "چولہا پیکیج” یا زمینوں کے معاوضے ہی ہمارے مستقبل کی ضمانت ہیں۔ ہمیں اس پر غور کرنا ہوگا کہ ہم اپنے وسائل کو بہتر طریقے سے کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔ پانی سے جڑی سیاحت، فشنگ ٹورازم، اور ہوٹل انڈسٹری جیسے شعبے ہمارے لیے بے پناہ مواقع فراہم کر سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے ہمیں منصوبہ بندی اور حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔
دیامر کے نوجوانوں کو قبائلی اختلافات اور معمولی فائدوں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنے خطے کے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے۔ دیامر کو ایک پُرامن اور ترقی یافتہ ضلع بنانے کے لیے ہمیں اپنے وسائل کا دانشمندانہ استعمال سیکھنا ہوگا۔ سیاحت کا فروغ، ہوٹل انڈسٹری کی ترقی، اور امن و امان کا قیام وہ کلیدی عناصر ہیں جو ہمارے مستقبل کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ دیامر کو دہشت گردی اور دیگر سماجی برائیوں سے پاک کرنے کے لیے ہمیں مشترکہ کاوشیں کرنی ہوں گی، اور اس کے لیے شعور و آگاہی کا فروغ اولین شرط ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ واپڈا اور حکومت پاکستان نے اب تک دیامر کے مستقبل کے حوالے سے کوئی ٹھوس حکمت عملی تیار نہیں کی۔ واپڈا نے ہمیں زمینوں کے معاوضے اور نوکریوں کے جھانسے میں الجھا کر ہمارے حقیقی مسائل کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ واپڈا کے منصوبے ہمارے نوجوانوں کو صرف وقتی فائدے دے رہے ہیں، لیکن دیامر کی مجموعی ترقی اور خوشحالی کے لیے کوئی طویل المدتی منصوبہ نہیں بنایا گیا۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہماری شناخت، تہذیب، اور معاشرتی ورثہ چند پیسوں کے عوض فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ واپڈا اور حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ نوکریوں سے آگے بڑھ کر دیامر کے مستقبل کے لیے جامع پلاننگ کرے۔ہمیں ایسے مواقع فراہم کیے جائیں جن سے ہم اپنے وسائل کو بہتر طور پر استعمال کر سکیں اور اپنے بچوں کے لیے ایک محفوظ اور خوشحال مستقبل تعمیر کر سکیں۔
آج دیامر کے باسیوں کی جنگ زمینوں کے معاوضے یا نوکریوں کے حصول تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ یہ جنگ دراصل ہمارے اور ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کی جنگ ہے۔ ہمیں اپنی سرزمین اور ثقافت کے تحفظ کے لیے متحد ہونا ہوگا، اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہم اپنے قدرتی وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کر کے معاشی ترقی کے نئے دروازے کھول سکیں۔
دیامر بھاشہ ڈیم جیسے میگا منصوبے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم صرف ماضی کی یادوں میں کھو جائیں یا چند وقتی فوائد پر قناعت کریں۔ ہماری اصل کامیابی اس میں ہے کہ ہم دیامر کو ایک ترقی یافتہ، پُرامن اور خوشحال ضلع بنانے کے لیے مل جل کر کام کریں، اور اپنے وسائل کا بہترین استعمال کر کے اپنی شناخت کو محفوظ رکھیں۔