جس طرح مکان، مکینوں سے آباد ہوتے ہیں ایسے ہی معبد، عباد سے آباد ہوتے ہیں. مکین مکان چھوڑ جائیں یا عباد، معبد چھوڑ جائیں تو یہ سنسان اور ویران ہو جاتے ہیں. جہاں کبھی قہقہے گونجتے تھے وہاں وحشت ناک خاموشی ڈیرے جما لیتی ہے. جہاں کبھی عباد عقیدت کے مظاہرے کرتے تھے، وہاں اب کوئی نہیں آتا.
یہ ایک خوبصورت صبح تھی. موسم خوشگوار تھا اور میں اپنے ماموں زاد بھائیوں کے ساتھ ٹیکسلا کی جانب رواں دواں تھا. ہماری پہلی منزل ٹیکسلا میوزیم تھی. جہاں ٹیکسلا سے مختلف اوقات میں کھدائیوں کے نتیجے میں برآمد ہونے والے، گندھارا تہذیب سے تعلق رکھنے والے قیمتی نوادرات رکھے گئے ہیں. میوزیم سے نکلنے کے بعد ہم اپنی اصل منزل یعنی دھرما راجیکا کی جانب روانہ ہو گئے. دھرما راجیکا ،وقت کے رخسار پہ ٹھہرا چمکدار آنسو.
ٹیکسلا میوزیم سے تقریباً ٢.٨ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سنسان، ویران اور کھنڈرات کا یہ شہر، دھرما راجیکا ہے. صدیوں پہلے یہ شہر کبھی آباد تھا. بدھ بھکشو یہاں ویساکھ مناتے، سٹوپا کے اردگرد پھول سجاتے، عقیدت میں سٹوپا کے چکر لگاتے. کیا رونق ہوتی، چہل پہل، عقیدت. مگر اب کبھی کبھار کوئی بھولا بھٹکا سیاح ادھر آ نکلتا ہے، ورنہ تو خاموشی ہے اور ایسی خاموشی کہ دل کی دھڑکن صاف سنائی دے.
خیر ہم دھرما راجیکا کے مرکزی دروازے سے داخل ہو رہے تھے. ہمارے ساتھ ساتھ ایک، تین افراد، مرد و خواتین پر مشتمل غیر ملکی سیاحوں کا گروپ بھی داخل ہوا. اُن سے گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ ان کا تعلق اٹلی سے ہے اور وہ پاکستان میں سیاحت کی غرض سے آئے ہوئے ہیں. میں جب بھی پاکستان میں سیاحتی مقامات پر غیر ملکی سیاحوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے ایک خوشگوار احساس ہوتا ہے. کیونکہ میں پاکستان میں غیر ملکی سیاحت کے امکانات سے واقف ہوں. مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ غیر ملکی سیاحت کس حد تک ہماری قومی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے اور میں اس کا اظہار وقتاً فوقتاً اپنے بلاگز اور ویلاگز میں کرتا رہتا ہوں.
سر سبز و شاداب درختوں کے سائے میں، جن کی ٹہنیاں جھک جھک کر سیاحوں کا استقبال کر رہی تھیں، سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچے. عظیم الشان دھرما راجیکا سٹوپا ہماری آنکھوں کے سامنے تھا. دھرما راجیکا ، کا مطلب ہے، راجہ کا دھرم. جب چندر گپت موریا کے پوتے، اشوکا نے بدھ مت قبول کیا تو، اُس نے یہ سٹوپا بنوایا تھا. یہاں گوتم بدھا کی راکھ اور دانت لا کر رکھے گئے.
میں سٹوپا کی سیڑھیوں پر کھڑا ہوں اور اڑھائی ہزار برس پہلے کا منظر میری آنکھوں کے سامنے آ رہا ہے. جب اشوکا ان سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر تقریر کر رہا تھا. اُس کے یہ الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے کہ؛
"میرے ننانوے بھائی تھے. میرے بھائی نے تکشاشلا کا بادشاہ بننا تھا. لیکن وہ مر گیا اور میں نے بہ زور بازو سے یہاں قبضہ کر لیا. میں ایک بدہیت انسان تھا. میں نے کلنگ کی جنگ میں ڈیڑھ لاکھ انسانوں کو قتل کیا. اتنے ہی بھوک اور بیماری سے مر گئے. پھر میں نے ایک روز لوگوں سے پوچھا کہ کیا میں خوب صورت ہوں؟ تو ان کا جواب ڈر اور خوف کے عالم میں تھرتھرانے کی صورت میں ملا. مجھے ایک بدھ بھکشو ملا، اُس نے مجھے بتایا کہ خوبصورتی، محبت میں پنہاں ہے، ڈر اور خوف میں نہیں”.
اسی سٹوپا پر اشوکا نے، انسانوں، جانوروں اور درختوں سے محبت کا درس دیا.
سٹوپا کے پاس کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد ہم آگے بڑھے.
پانی محفوظ کرنے کے لیے تالاب، ایک اور سٹوپا، جس کے گرد بدھا کے چھوٹے چھوٹے مجسمے بنے تھے، وائٹ ہنز کے ہاتھوں تباہ ہونے والے چھوٹے، بڑے مجسموں کی باقیات،خانقاہ اور بدھ بھکشوؤں کے رہائشی کمروں کے آثار، یہ سب کچھ ہم نے دھرما راجیکا میں دیکھا. ایک پرانے درخت کے سائے میں کچھ دیر بیٹھے. ہلکی پھلکی ہوا، پتھروں کو چھو کر، ہمارے وجود سے ٹکرا رہی تھی اور ہم وہاں صدیوں پرانی انسانی زندگی کو محسوس کر رہے تھے.