کچھ طویل وقفے کے بعد ایک تحریر اپنے قارئین کی نذر کر رہی ہوں. سنجیدہ اور حساس مدیرہ رابعہ سید نے ایک دو بار اپنے مخصوص مخلصانہ انداز میں ٹٹولا بھی. میں نے ان کو اپنے ڈپریشن اور تھکن کے بارے میں بتا دیا. ہر نئی چوٹ وقتی طور پر بکھیر دیتی ہے، رنج دیتی ہے، تکلیف ہوتی ہے، مگر ہم جیسی فیمنسٹ ایکٹوسٹ کہاں سدھرنے والیاں ہیں؟ مزید بہادر اور کسی حد تک ڈھیٹ ہو کر پھر اٹھ کھڑی ہوتی ہیں. درد کو اس کی دہلیز سے پہلے ہی وداع کر دیتے ہیں.
حق تلفی ، نا انصافی اور ظلم پر جہاں تک ہو سکے گا ،جب تک جان میں جان ہے , سانس کی ڈوری قائم ہے ، آواز اٹھاؤں گی، بولوں گی، چیخوں گی اور لکھوں گی. اس جہان خرابات میں عملی دانشمندی سے دور ہی رہوں گی – مظلوم، مَقہُور، محروم اور مجبور کمیونٹیز کے ساتھ رہوں گی. اس کے لئے این جی ا و کا ہونا ضروری نہیں . ہمّت کی ضرورت ہے اور نقصانات جھیلنے کی استطاعت ، اس انوکھی دیوانگی … عاشقی کا اپنا ہی مزہ ہے، جو وکھرے / اوکھے لوگ ہی جانتے ہیں .
دوستی میں تری در پردہ ہمارے دشمن
اس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے
سوچتی ہوں کہ حقیقی ایکٹیوزم ہے کیا ؟ کیا وجہ ہے کہ بعض لوگوں کو مزاحمت کی راہ میں کوئی خاص مزاحمت پیش نہیں آتی- وہ گولی سے بھی جانبر ہو جا تے ہیں اور گالی سے بھی پریشان نہیں ہوتے ؟ ( اچھی بات ہے گو کہ حیران کن ہے ) . جن کو الزام دیا جاتا ہے، وہ بھی بس ہلکا پھلکا رومانس نما جبر دکھا تے ہیں .
کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل تیرے، پربت تیرے، بستی تیری، صحرا تیرا
اور—– اور—اور کیا ہوتا ہے بس! ہلکی پھلکی پھکی پڑ جاتی ہے.. پانچ ، دس یا بیس ہزار کے مچلکے ، تھوڑی دیر کے لئیے ایئر پورٹ پر روکنا وغیرہ وغیرہ. موبائل بھی سلامت ، شہرت بھی سلامت، ملک سے محبّت بھی سلامت ، غریبوں سے اَپْنایَت بھی سلامت ، سکالرشپ اور فیلو شپ بھی سلامت ،بزنسس،جائیداد اور جگر بھی سلامت ، میک اپ اور کپڑے بھی سلامت ، بے باک صحافیوں کی بھی مبارک و سلامت اور غیر ملکی سفارت خانوں کے دعوت نامے بھی سلامت .
ایک غیر ارادی نظر ایسے ایکٹوسٹ کے پروفائلز پر ڈالیں تو جلد ہی ظاہر ہو جاتا ہے کہ الله کی رضا اور تقسیم والے فارمولے کے علاوہ پاکستان میں بآسانی مزاحمت کرنے کے لئیے ایلیٹ ہونا ، کہیں کہیں صحیح ڈومیسائل کا ہونا اور اچھا بلکہ بہت اچھا فنکار ،کلاکار ہونا ضروری ہے . اس کے علاوہ نورا کشتی کے اسرار و رموز بھی جاننا ضروری ہے.
میری طرح نہیں کہ جو تھوڑے بہت دوست تھے، وہ بھی کھو بیٹھی ہوں کہ ان لوگوں سے روابط نہیں رکھ سکتی جو چھوٹی عمر کے بچے بچیوں کو گھریلو ملازم بلکہ غلام بنا کر رکھتے ہیں اور اگر ان سے پوچھا جائے تو آگے سے بے شرمی سے سوال کرتے ہیں کہ تم ہوتی ہی کون ہو یہ سوال کرنے والی اور یہ کہ ہم نے ان کو روٹی پانی دیا ہے، ورنہ بھوکے مرجاتے .
میں یا میرے جیسے چند بیوقوف تو باز نہیں آ ئیں گے لیکن وہ نوجوان جو سچ مچ کا سچا ایکٹیوزم کرنا چاہتے ہیں ،ان کو سر اورمادام کے ویژن ‘، رانگ نمبرز اور لچھے دار دھوکوں کا ضرور پتا ہونا چاہیے . مزاحمت اور ملازمت دو مختلف کام ہیں ، ماتحتی کے اپنے مزے ہیں.
بات چل نکلی ہے تو یہ بھی بتا دوں کہ میں خود بھی فریب کھا چکی ہوں اور جن کو اچھا اور اونچا مانا جاتا ہے ان کے ہاتھوں روندے جانے کا دکھ الگ ہی درد رکھتا ہے یعنی نیکسٹ لیول ہے .
کُج اُنج وی راہواں اوکھیاں سَن
کُج گَل وِچ غماں دا طوق وی سی
کُج شہر دے لوک وی ظالم سَن
کُج سانوں مرن دا شوق وی سی
————
ڈاکٹر رخشندہ پروین نے اپنی نو عمری میں صحافت کا آغاز انگریزی اخبار "دی مسلم ” سے کیا تھا. وہ اردو اور انگریزی زبانوں میں کالم/بلاگس اور کتابیں لکھتی ہیں. مشکل موضوعات پر وکھری باتیں کرتی ہیں ،لبرل ہیں ، فیمنسٹ ہیں اور پاکستان سے غیر مشروط محبّت کرتی ہیں. کبھی شاعری بھی کرتی تھیں. مختلف جامعات میں پبلک ہیلتھ ، تولیدی صحت ، میڈیا اور فیمنسم پڑھاتی بھی رہی ہیں . وہ پی ٹی وی پر صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی سولو خاتون اینکر ہونے کا بھی اعزاز رکھتی ہیں. تعلیمی اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر اور پبلک ہیلتھ سائنٹسٹ ہیں اور صنفی امتیاز کے حوالے سے ان کے کئی ٹی وی اور کمیونٹی پروجیکٹس نمایاں ہیں.وہ سچ کے ہمراہ ہونے والی مفاہمت اور عزت کے ساتھ قائم ہونے والے امن کی آرزومند رہتی ہیں۔ قصیدہ گوئی سے نابلد ہیں.