جولیاں، جہاں وقت پلٹ آیا

غاروں اور جنگلوں سے نکل کر، شہروں میں آباد ہو کر، محلات میں رہنے کو ، تہذیب یافتہ ہونا نہیں کہتے، بلکہ بربریت، سفاکیت اور وحشت سے چھٹکارا حاصل کرنا، تہذیب یافتہ ہونا ،کہلاتا ہے. معاشرے میں، غلامی، جہالت، استحصال، طاقت کا رقص، بربریت، سفاکیت اور وحشت ہو تو جنگل ہوں یا شہر، غاریں ہوں یا محلات، کیا فرق پڑتا ہے؟؟؟

ہم محو سفر تھے اور ہماری منزل تھی. جولیاں، کل کی جائے ولیاں، آج کا جولیاں.

Seat of saints دنیا کی قدیم ترین جامعات میں سے ایک ہے. جہاں ہزاروں برس پہلے علم و ادب کی محفلیں سجا کرتی تھیں. جہاں گندھارا آرٹ کے نقوش آج بھی موجود ہیں. بدلتے موسم میں، کہ جب دوپہر کی دھوپ بھی بھلی لگ رہی تھی، ہم جولیاں پہنچ گئے. کچھ گفٹ شاپس پر رکھی اشیاء نے توجہ اپنی جانب کھینچ لی. مقامی سنگ تراشوں کے ہاتھوں بنے بدھا کے چھوٹے چھوٹے مجسمے اور مختلف پتھروں سے بنے ڈیکوریشن پیسز اور برتن، جن کا حُسن سورج کی روشنی میں مزید نکھر جاتا ہے. یہ دیکھ کر غالب کا خیال، غالب آ گیا.

اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں
واااہ

جولیاں کے آثار دیکھنے کے لیے سیڑھیاں چڑھنا ہوں گی. چڑھنے لگے،سیڑھیاں ختم ہونے کو تھیں کہ سانس پھولنے لگ گیا. میرے ہم سفر یعنی میرے کزن کا خیال تھا کہ کچھ دیر کسی بینچ پر بیٹھ کر سستا لیا جائے. جونہی میں نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو منزل قریب تھی. میں نے فوراً کہا کہ اب ٹھہرنے کی ضرورت نہیں ہے.

جولیاں کے آثارِ قدیمہ کے مرکزی دروازے سے داخل ہوئے. ٹکٹ خریدے اور گائیڈ کی راہنمائی میں جولیاں یونیورسٹی کے صحن میں پہنچے. کیا دلرُبا منظر تھا. ہری پور کے سرسبز و شاداب پہاڑوں کے دامن میں، گزرے کل کے آثار. سب سے پہلے یہ احساس ہوا کہ یہ درسگاہ، یہ خانقاہ، بنانے والوں نے کیا خوبصورت جگہ کا انتخاب کیا تھا.

میں صحن اور تالاب کے درمیان چہل قدمی کرنے لگا. میں اُس آسمان کے نیچے ، زمین کے اُس حصے پر تھا، جہاں ہزاروں سال پہلے تہذیب کے خدوخال بنائے گئے، اپنی ذہانت اور اختیار و ارادے کی قوت کے بل بوتے پر زندگی جینے کے اصول و ضوابط طے کیے گئے، قوانین بنائے گئے، نظام بنائے گئے، تنوع کو قبول کیا گیا، اشیاء کی حقیقتوں کو جانا گیا، طیش اور عیش میں اپنے جذبات پر قابو پا کر، معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کیا گیا.

انسان کا مقام و وقارِ انسانیت محفوظ اور برقرار رکھا گیا تھا. باقی دنیا میں مثلاً عرب، یورپ اور مصر میں منڈیاں سجا کرتی تھیں، جہاں انسان بطور غلام بکا کرتے تھے.مگر یہاں غلامی کا کوئی تصور نہیں تھا.

جب دنیا غلامی، استحصال اور جہالت میں غرق تھی، یہاں فلسفہ،سیاسیات،منطق اور مذہب پر ایسی کتابیں لکھی گئیں جو آگے چل کر انسانیت کا اثاثہ ٹھہریں اور آج بھی انسان انہیں سے استفادہ حاصل کر رہا ہے. یہیں سے فلسفہ یونان پہنچا. یہی وجہ ہے کہ Megasthenes اپنی کتاب The Indica میں اس بات کا اظہار کرتے ہوئے ملتا ہے کہ یونانی ٹیکسلا کو دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے.

فنونِ لطیفہ اور ادب کے ذریعے یونانیوں نے اتنا علم دنیا کو دیا کہ اُس کے نقوش و اثرات آج بھی عالمی علم و ادب سمیت ہر شعبے پر نظر آتے ہیں.عقیل احمد روبی صاحب نے اپنی کتاب، یونان کا ادبی ورثہ، میں لکھا ہے کہ؛
200 سال میں ایتھنز کے المیہ نگاروں نے 4000 ڈرامے لکھے، جن میں سے صرف پچاس ہم تک پہنچے ہیں. اُن کا بیشتر علمی سرمایہ ضائع ہو چکا ہے لیکن آج اگر وہ مل جائے تو عالمی ادب کا منظر ہی بدل جائے. اب یہ سوچیں کہ جن یونانیوں کے علم کا یہ معیار تھا تو اُس ٹیکسلا کے علم کا کیا مقام ہو گا؟ جسے دیکھ کر یونانی دنگ رہ گئے تھے.

میں اُن کمروں کے درمیان چہل قدمی کر رہا تھا ،جہاں کبھی چانکیہ کوٹلیا رہتا تھا، جس کی کتاب، ارتھ شاستر، سیاست میں مقام بلند رکھتی ہے. پانینی رہتا تھا، جسے دنیا کا پہلا گرامر دان اور بابائے لسانیات کہا جاتا ہے.میں اُس صحن میں تھا جہاں کوسالا کا پسینادی، بندھولا، انگولیمالا، جیواکا، چاراکا اور چندر گپت موریا ،علم حاصل کرتے تھے.

کافی دیر جولیاں کے مرکزی تالاب کے گرد چہل قدمی کرنے کے بعد اب ہم دروازے کی جانب واپس پلٹ رہے تھے مگر میرے تصور میں اب بھی ہزاروں برس پہلے کی زندگی چہل پہل جاری تھی. علمی محفلیں برپا تھیں، مختلف علوم پر مباحثے ہو رہے تھے اور دنیا بھر سے یہاں آنے والے سینکڑوں طالبان علم، پیٹ کی بھوک اور پیاس سے بے خبر، اپنے گھروں اور والدین سے بہت دور، پہاڑوں کے دامن میں، علم کی پیاس بجھا رہے تھے. مجھے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وقت پلٹ آیا ہو.

مگر یہ تصور تھا،حقیقتاً جب ہم جولیاں کے داخلی دروازے سے داخل ہو رہے تھے تو، دس سے بارہ، مرد و خواتین پر مشتمل غیر ملکی سیاحوں کا ایک گروپ واپس پلٹ رہا تھا اور اب جبکہ ہم واپس پلٹ رہے تھے تو دو مرد حضرات اور کچھ بچوں پر مشتمل مقامی سیاحوں کا گروپ داخل ہو رہا تھا. یعنی اب دن بھر یہاں صرف سیاح آتے ہیں، کچھ وقت گزارتے ہیں اور چلے جاتے ہیں. وہ علم اور ادب کی محفلیں اب نہیں سجتیں، طالبان علم، اب کہیں اور اپنی پیاس بجھاتے ہیں.

اب تو صرف پتھر ہیں، آثار ہیں، نقوش ہیں. ماضی کے، گزرے کل کے. آج شاید صبح جب سورج کی پہلی کرن ان پتھروں پر پڑتی ہے تو دیکھنے والی کوئی آنکھ نہیں ہوتی . جب بارش کی بوندیں اس خشک ہو چکے تالاب میں گرتی ہیں تو وہاں ایسا کوئی نہیں ہوتا جو یہ دیکھ کر سمجھ سکے کہ جب کوئی جاندار پیاس سے نڈھال ہو کر، مرنے کے قریب ہو، اور یکایک پانی کے چند قطرے اُس کے لبوں کو چھو لیں، تو اُسے مزید زندگی کی امید نظر آ جاتی ہے.

سورج ڈوب جانے کے بعد، جب آہستہ آہستہ رات کا اندھیرا گہرا ہونے لگتا ہے تو یہاں ویرانی اور سناٹے کا نظارہ کیسا ہوتا ہے؟ کوئی نہیں دیکھتا. کوئی نگۂ نظارہ باز نہیں ہوتی جو یہ دیکھ سکے کہ چودھویں کا چاند کیسے اِس صحن کو کیسے روشن کرتا ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے