ایک اندازے کے مطابق خیبرپختونخوا میں 5 سے 14 سال کے درمیان 78 لاکھ بچے پیٹ کے کیڑوں کے شکار ہیں۔ اس ریسرچ کی بنیاد پر گورنمنٹ آف خیبر پختونخواہ نے مختلف اداروں کی مدد سے پچھلے تین سال سے ایک انشیٹیو لیا ہے۔ جس کے مطابق سکول اور اسکول سے باہر تمام بچوں، جن کی عمریں پانچ سے 14 سال کے درمیان ہے۔ موبنڈاذول 500 ملی گرام کی گولیاں کھلائی جارہی ہے۔ اس عمل کے لیے حکومت نے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ سے بڑے اچھے ٹرینرز ہائر کیے ہیں۔یہی ٹرینرز سکول کے اساتذہ کو ایک دن ٹریننگ دیتے ہیں۔ وہی ٹرین اساتذہ پر اپنے سکول میں مزید اساتذہ کو ٹرین کر رہے ہیں اور اسی طرح یہ سرگرمی اپنے پائے تکمیل تک پہنچ پاتی ہے۔
اس عمل کے لیے حکومت کی تیسری لہر اس سال نومبر کے 14,15,اور 18 تاریخ کو ہونے جارہی ہے۔ڈیوارمنگ پروگرام کے مطابق بچوں میں کیڑے ہونے کی وجہ سے ان میں کاہلی، اکتاہٹ، بیمارپن اور سبق میں دل جمعی نہ لینا کی علامتیں بتائی گئی ہے۔ اور ایک ریسرچ کے مطابق تقریبا 78 لاکھ بچے اس بیماری میں مبتلا ہے، جس کی وجہ سے ہر سال ہمارا ریزلٹ خراب سے خراب تر آرہا ہے۔
بیماری کی وجوہات ہماری غربت، تعلیم سے دوری، کاہلی اور صفائی کے غیر موثر اقدامات بتائے جا رہے ہیں۔ کیونکہ یہ کیڑے، کھلی جگہ میں فضلا کا کھلا چھوڑنا، وہی آلودہ مٹی میں بچوں کا کھیلنا، سبزیوں اور پھلوں کا نہ دھونا اور مکمل ایس،او،پیز کو نہ فالو کرناشامل ہیں۔
اب ان سے کیسے بچا جا سکے؟ ان تمام چیزوں کا پورا پورا خیال کرنا اور زندگی کو ایس، او، پیز کے مطابق گزارنا اس سے چھٹکارے کا باعث بن سکتا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ پہلے سے متاثر ہیں ان کے لیے کیا اقدامات ہورہے ہیں؟ تو اس کے لئے گورنمنٹ نے ڈیوارمنگ پروگرام شروع کیا ہے۔ جس کے مطابق ٹرین ٹیچر 14، 15 اور 18 نومبر کو اپنے اسکولوں میں موبنڈاذول 500 ملی گرام کھلائیں گے۔ اس گولی پر پوری ریسرچ ہوئی ہے اور ڈبلیو، ایچ، او کے مطابق اس کے کوئی برے سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہیں، البتہ ٹریننگ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کوئی بچہ پہلے سے دوسری دوائیاں کھا رہا ہے تو اسےوہ دوا دینا منع ہے۔ اسی طرح اگر چھ ماہ تک کسی بچے نے کیڑوں کی کوئی بھی گولی کھائی ہے وہ بھی نہ کھائے۔ اسی طرح بچہ بیمار ہے یا کوئی مہلک بیماری ہے، اسے بھی یہ دوا نہ دی جائے۔
اس سے پہلے، گورنمنٹ 65 لاکھ بچوں کو یہ دوا کھلا چکی ہے۔ جس کے مطابق، اس دوا کے کوئی برے سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہیں۔ ان تمام اقدامات کے ساتھ ساتھ اگر ڈیوارمنگ والے دن کسی بچے پر کوئی اٹیک ہو۔ تو قریبی ہسپتال میں ایمرجنسی ہوگی اور صحت کا عملا الٹ رہے گا۔
لکھائی کا مطلب، لوگوں میں آگاہی، دی وارمنگ والے دن والدین اپنے بچوں سمیت اسکول میں حاضری، گورنمنٹ کی بڑی کاوش، عوام کی اساتذہ کے ساتھ میچول انڈرسٹینڈنگ اور سب سے بڑی بات کہ گورنمنٹ کا خرچہ بےجا نہ جائے، کی تلقین ہے۔
شاید اس پروگرام سے کچھ لوگ اتفاق بھی نہ کریں لیکن میرے خیال میں گورنمنٹ کا زبردست اقدام ہے۔ اس لیے عوام کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔