احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور کی رہائشی سمیرا جس کے والدین آنکھوں سے نابینا تھے .غربت سے دوچار گھرانا تھا ،جس کی وجہ سے اس کو اور اس کی بہن کو 12 سے 14 سال کی عمر میں شادی کے بندھن میں باندھ دیا گیا .سمیرا کی بہن کو پہلی ڈیلیوری کے بعد سے ہی اس کے ہاتھ پاؤں اور جسم کے جوڑ کھل گئے تھے اور سمیرا کا کم عمر ہونے کی وجہ سے پہلی ڈیلیوری کے ساتھ ہی بچہ ضائع ہو گیا اور دوسری ڈیلوری کے بعد سے پٹھوں میں کھنچاؤ اور جوڑوں کے درد کا شکار رہتی ہیں. جس کی وجہ سے وہ نا تو زیادہ کام کاج کر سکتیں ہیں اور نا ہی کوئی وزن اٹھا سکتیں ہیں.
اس طرح سمیرا کا کہنا ہے کہ ہم کم عمر اور نادان تھیں، جس کی وجہ سے آج ہمارا یہ حال ہوا ہے. ہماری سب والدین سے التجاء ہے کہ کبھی بھی اپنی کم عمر بچی کی شادی نا کریں کہ بعد میں ساری زندگی اسے صحت کے مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا اور ان کا معصوم بچپن بھی ختم ہو جائے گا. کرن (فرضی نام) کی شادی 13 سال کی عمر میں ہوئی تو اس کی پہلی ڈیلیوری کے بعد بچے کا وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے بچے کی موت واقع ہو گئی، اس طرح کے لا تعداد کیسیز ہیں جو بیان کرنا ممکن نہیں .
پاکستان میں لڑکے اور لڑکی دونوں کے لئے شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر ہے .عموماً پسماندہ علاقوں میں بچوں کی کم عمری کی شادی کو رسم و رواج کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ کہیں ’ونی‘ کہیں ’سوارہ‘ تو کہیں کسی اور روایت کے تحت بھی کم عمر بچوں کو بیاہ دیا جاتا ہے۔ تاہم جنوبی پنجاب میں کم عمری کی شادی کا رجحان باقی صوبے سے نسبتاً زیادہ ہے. یونیسیف اور دیگر اداروں کی رپورٹس کے مطابق 21 فیصد لڑکیوں کی 18 برس کی عمر سے قبل شادی کر دی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں 3 فیصد لڑکیوں کی 15 سال کی عمر ہونے سے پہلے ہی شادی کر دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ حمل اور بچوں کی پیدائش کی پیچیدگیاں 15 سے 19 سال والی ماؤں کی موت کا بھی سبب بنتی ہیں جبکہ کم عمری کی شادی غربت اور نسل در نسل غدائیت کی کمی کو برقرار رکھتی ہے.
مشاہدہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ (ترمیمی ) بل 2022کی ایک کانفرنس میں کہا گیا ،جہاں مقررین نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں ہر سال 19 لاکھ لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کر دی جاتی ہے. دنیا بھر میں کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کی فہرست میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے. اس طرح پنجاب بہاولپور زیادہ تر دیہاتی علاقوں پر مشتمل ہے، جس کی وجہ سے ان علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کی شرح زیادہ ہے، ان کیسز کی شرح معلوم کرنا مشکل ہے کیونکہ لوگ اس کو رپورٹ ہی نہیں کرتے. تعلیم کی کمی اور غربت کی وجہ سے ان کے لیے یہ چند جملے ہی کافی ہیں کہ بیٹی جوان ہو جائے فورا شادی کر دو،، بیٹی بوجھ ہے جلدی سے بوجھ اتار دو،، جوان ہوئی بیٹی کو گھر بٹھانا گناہ ہے.
اس قسم کے فقرے سن کر لوگ ایک جیتی جاگتی کم سن بچی کو بیاہ دیتے ہیں. اس معصوم کی معصومیت اور بچپن ختم ہو جاتا ہے. گھر کی ذمہ داریاں سر پر آ جاتی ہے، اب ایک 12 سے 15 سال کی بچی یہ سب زمیداریاں اٹھائے اور پھر وہ پریگننٹ ہو جاتی ہے، شادی شدہ زندگی کے ساتھ پیٹ میں پلتی ایک اور جان کیا ان سب مراحل کے لیے ایک 12 سے 15 سال کی بچی گزر سکتی ہے ؟ کیا اس کے لیے یہ سب ذمہ داریاں اٹھانا آسان ہے ؟
دین اسلام میں بچوں کا عاقل اور بالغ جب تک نہ ہوں تو ان کی شادی کرنا ضروری نہیں مگر لوگ”عاقل ” کو بھول کر صرف بالغ کو سامنے رکھ کر ایک بچی کی شادی کر دیتے ہیں .جس سے اس کے ساتھ ذہنی جسمانی اور جنسی استحصال تو ہوتا ہی ہے اور ساتھ میں وہ صحت کے مسائل کا بھی شکار رہتی ہے بلکہ گھریلو تشدد بھی سہتی ہیں. اپنی کم عمری نادانی اور” عاقل” نا ہونے کی وجہ سے اور لوگ اس بات کو گناہ یا ظلم نہیں سمجھتے. ان معصوم بچیوں کا ذہنی جسمانی اور جنسی استحصال بڑےدھڑلے سے کیا جاتا ہے کہ شادی ہو گئی ہے .یہ سب اس کی زمہ داری ہے .
گائنا کالوجسٹ لیڈی ڈاکٹر آصفہ شکرانی کم عمر بچیوں کی شادی اور ان کی صحت کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ جب ایک کم عمر لڑکی کی شادی کی جاتی ہے تو یہ سب مسائل اس کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں ،جن کے ساتھ وہ باقی کی زندگی گزارتی ہیں کیونکہ ایک کم عمر لڑکی Organ development, Mental development, spiritual development کے مراحل سے گزر رہی ہوتی ہے. اس کے اوپر ذہنی ، جسمانی ، اور جنسی اثرات مرتب ہوتے ہیں.
ان کا کہنا کہ کم عمر بچی ابھی اپنی گروتھ کے مراحل میں ہوتی ہے، اس کے لیے ازدواجی زندگی اور پھر بچہ کی پیدائش ایک سخت مرحلہ ہے، جس میں اکثر بچہ اور لڑکی کی موت واقع ہو جاتی ہے کیونکہ ابھی ان کی ہڈیاں اتنی مضبوط نہیں ہوتیں. ان میں بلڈ پریشر ،خون کی کمی، بچے کو سانس کا مسئلہ وغیرہ جیسے مسائل پیش آتے ہیں اور آج کل ان میں کینسر کی شرح بھی بڑھ رہی ہے .
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ عاصم بخاری قانونی حوالے سے بتاتے ہیں کہ ہم ذہنی طور پر اسی سوچ کے غلام ہیں، جسمیں بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا اور بعد میں اتنا فرق ہوا کہ بیٹی پیدا ہوتے ہی اس کی شادی کا سوچنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ سوچنے کی بھی زحمت نہیں کرتے کہ اتنی کم عمر بچی جس نے ایک نسل کو پروان چڑھانا ہے، کم سے کم اس کو تو سمجھدار ہونے دیں.
ان حالات کے پیشِ نظر قانون سازی بھی کئی بار ہوئی جیسے کہ 1929 سے لے کر 1930, 1938, 1968, 2015, 2018 اور 2024 میں بھی نابالغ 18 سال سے کم عمر کی بچیوں کی شادی پر پابندی کا قانون پیش کرتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا اور ڈاکٹرز بھی کم عمری کی شادیوں پر ان کی صحت کے منفی اثرات پر بات کرتے نظر آتے ہیں مگر پھر بھی دیہاتی علاقوں میں یہ رواج آج بھی اسی طرح قائم ہے کہ بچی جوان ہو شادی کردو. ان سب کے ذمہ دار، انکے وہ والدین ہیں جو قرآنی تعلیمات اور قانون سے نابلد ہیں.
دوسرا وہ قانون دان جو جانتے بوجھتے ہوئے کم عمر بچیوں کو زیادہ عمر کرانے کے طریقہ کار بتاتے ہیں اور وہ لوگ جو کسی یونین کونسل نادرا آفس سے پوری عمر 18 سال کرانے کے سرٹیفکیٹ جعلسازی رشوت ستانی کر کے بنواتے ہیں اور ایسے نکاح خواں جو جانتے ہوئے زیادہ رقم لے کر غیر قانونی غیر انسانی شرعی نکاح پڑھانے کا فعل سر انجام دیتے ہیں. حکومت نے قانون تو بنا دیا مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا. حکومت اور این جی اوز اور سوشل نیٹورک کے ذریعے ایسے علاقوں میں معلومات دیں ،جب تک ان کو علم ہی نہیں ہو گا تب تک بیٹی بوجھ سمجھ کر زندہ درگور ہوتی رہیں گیں .
اور آخر میں اتنا کہنا چاہوں گی کہ اس سب کو روکنے کے لیے جب تک سخت سزا والدین کے لئے، نکاح خواں کے لیے جو ہے وہ نہیں ملے گی تو یہ سب روکنا ممکن نہیں آپ کیا کہتے ہے ؟؟