کشمیری کیوں سراپا احتجاج

جمہوری طرز حکومت میں حکومتیں اپنے احتساب کا سامنا کرتی ہیں ،اس احتساب کا عمل دو طرح سے عمل میں لایا جاتا ہے. ایک تو ریاست کی عوام اور دوسرا اپوزیشن یہ کردار ادا کرتی ہے،جہاں عوام سیاسی شعور سے نابلد ہو وہاں مقتدر قوتیں عوام کے حقوق سلب کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی،اپوزیشن کو متبادل حکومت سمجھا جاتا ہے۔اس تمہید کا مقصد آزاد کشمیر کے موجودہ حالات کا تقابلی جائزہ ہے۔

اپریل 2022 میں جب وفاق میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی تو اس رجیم چینچ کا اثر نہ صرف وفاق بلکہ چاروں صوبوں سمیت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی پڑا،اپریل 2022سے پہلے تک آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کی حکومت قائم تھی مگر یکا یک ایوان کہ انداز ایسی ہوا چلی کہ کپتان کے وفا دار ،وفادار نہ رہے،عہدوں اور وزارتوں کی لالچ نے انہیں اصول ،نظریہ،اور وفاداری بھلا دی،تحریک انصاف کے اپنے ممبران اپنے ہی قائد ایوان سے بے وفائی کرگئے جلتی پر تیل مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی نے ڈھالا۔

یوں آزاد کشمیر کے اندر مائنس تحریک انصاف ایک قومی حکومت قائم کی گئی ،جس کی سربراہی مقتدرہ سے قربت کی وجہ سے چوہدری انوار الحق کے حصے میں آئی ،عدم اعتماد کی کامیابی سے پہلے تک موصوف کا تعلق تحریک انصاف سے تھا اور اسپیکر اسمبلی ہوا کرتے تھے،وزیر اعظم بننے کے بعد ان سمیت ان کی کابینہ میں درجنوں وزراء کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے ، نہ وہ کسی نظریہ کے ساتھ کھڑے ہیں ان کا نظریہ اقتدار اور منزل وزارت تک رسائی ہے.

عوامی مینڈیٹ کی توہین کرتے یہ طبقہ اقتدار کا آسائشوں کے مزے لوٹ رہا تھا کہ صدا آئی "ہمیں ہمارا حق دو” یہ جمہور کی آواز تھی جس نے ریت کی دیواروں سے بنا مظفرآباد کا آسائشی قلعہ لرز اٹھا ۔بھلا ہو عوامی ایکشن کمیٹی کا جنھوں نے قوم نما ہجوم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا سیاسی شعور بانٹا ،نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیری عوام اپنے آئینی ،جمہوری ،بنیادی اور ،سیاسی حقوقِ کے حصول کیلئے پُرامن طور پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں۔اس وقت آزاد کشمیر میں تمام سیاسی جماعتیں حکومت کا حصہ ہیں اپوزیشن نام کی چڑیا کا وجود ہی نہیں انہیں حالات میں عوام نے جاندار اپوزیشن کا کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے۔ہر ذی شعور شہری اس احتجاج اور مطالبات کی حمایت کرتا دیکھائی دیتا ہے.

زندہ قوموں اور مہذب معاشروں میں احتجاج ایک عام اور معمول کی بات ہے۔ عوام جسے اپنے حقوق کے لئے آخری حربے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔

دنیا تبدیل ہو رہی ہے۔ لوگ باشعور ہیں۔ سوشل میڈیا ہے۔ دنیا کی ترقی اور نظام عوام دیکھ رہی ہے اور اس کا اپنی ترقی اور رائج نظام سے موازنہ بھی کر رہی ہے۔

اب جو پُرانے زہن مقتدراہ میں بچ گئے ہیں وہ جو بھی کرنا چاہیں کر لیں۔ عوام کسی نہ کسی صورت ایسا ہی رویہ رکھے گی۔ کسی بھی حکمران کو اجازت نہیں ہو گی کہ وہ اپنی مَن مانی کرے اور عوامی حقوق کو غصب کرنے کی کوشش کرے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے