پاکستان میں توانائی کے بحران اور مہنگی بجلی کے مسائل نے عوام کو متبادل ذرائع تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس پس منظر میں، سولر انرجی ایک اہم اور مؤثر حل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ شمسی توانائی کے بے پناہ ذخائر اور مناسب حکمت عملی سے بجلی کے بحران کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ گھروں، دفاتر، تعلیمی اداروں اور صنعتی شعبے میں سولر انرجی کے بڑھتے ہوئے استعمال نے ایک طرف توانائی کی ضروریات پوری کی ہیں تو دوسری طرف بجلی کے اخراجات کو نمایاں طور پر کم کیا ہے۔ حکومت نے بھی سولر پینلز پر سبسڈی دینے اور بینکوں کے ذریعے قرضوں کی سہولت فراہم کر کے عوام کو اس طرف راغب کرنے میں مدد دی ہے۔
شمسی توانائی کے استعمال کے بڑھنے سے عوام کو توانائی کی دستیابی میں آسانی ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ غیر متوقع مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ ان مسائل میں سے سب سے بڑا مسئلہ ایئر کنڈیشنرز کے بڑھتے ہوئے استعمال کا ہے۔ چونکہ شمسی توانائی کے ذریعے پیدا ہونے والی بجلی بظاہر "مفت” محسوس ہوتی ہے، لوگ زیادہ سے زیادہ ایئر کنڈیشنرز کا استعمال کر رہے ہیں۔ ایئر کنڈیشنرز کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے، اور تقریباً ہر گھر، دفتر اور دکان میں یہ سہولت عام ہوتی جا رہی ہے۔
اگرچہ ایئر کنڈیشنرز آرام اور سہولت فراہم کرتے ہیں، لیکن ان کا بے تحاشا استعمال ماحولیاتی نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ ایئر کنڈیشنرز میں استعمال ہونے والی گیسز، جیسے ہائیڈرو فلورو کاربنز (HFCs)، گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں اضافہ کرتی ہیں۔ یہ گیسز ماحول میں جا کر گلوبل وارمنگ کو بڑھاتی ہیں، جس کا نتیجہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے، گلیشیئرز کے پگھلنے، سمندری سطح کے بلند ہونے، اور غیر متوقع موسمی تبدیلیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ پاکستان، جو پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہا ہے، ان اثرات کا براہ راست نشانہ بن رہا ہے۔
مزید برآں، شہروں میں ایئر کنڈیشنرز کے وسیع پیمانے پر استعمال سے "ہیٹ آئی لینڈ” کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے۔ ایئر کنڈیشنرز سے خارج ہونے والی گرمی مقامی درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہے، جس سے گرمی کی شدت مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہ صورتحال لوگوں کو ایئر کنڈیشنرز کے مزید استعمال پر مجبور کرتی ہے، جس کے نتیجے میں توانائی کا ضیاع اور گرین ہاؤس گیسز کا اخراج مسلسل بڑھ رہا ہے۔
حکومت کو فوری طور پر ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو توانائی کے مؤثر استعمال اور ماحول کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ سب سے پہلے، ایسے قوانین متعارف کرائے جائیں جو توانائی کی بچت کرنے والے آلات کے استعمال کو فروغ دیں۔ ایئر کنڈیشنرز بنانے والی کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ جدید اور ماحول دوست ٹیکنالوجی پر مبنی مصنوعات تیار کریں جو کم توانائی استعمال کریں اور ماحول کے لیے محفوظ ہوں۔
تعلیمی ادارے اور میڈیا بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تعلیمی نصاب میں ماحولیاتی تعلیم کو شامل کیا جائے تاکہ نئی نسل کو ماحولیاتی تحفظ کی اہمیت سمجھائی جا سکے۔ میڈیا کو گرین ہاؤس گیسز، گلوبل وارمنگ، اور توانائی کے ذمہ دارانہ استعمال پر آگاہی مہمات چلانی چاہئیں۔ عوام کو یہ شعور دینا ضروری ہے کہ ایئر کنڈیشنرز کا غیر ضروری استعمال نہ صرف ان کے بجلی کے بلوں کو بڑھاتا ہے بلکہ ماحولیاتی توازن کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے۔
عوام کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ ایئر کنڈیشنرز کے استعمال کو محدود کرنا اور اسے صرف ضرورت کے وقت استعمال کرنا ماحولیاتی تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ گھروں میں قدرتی روشنی اور ہوا کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی عادت اپنانی چاہیے تاکہ بجلی کی بچت ہو اور ماحولیاتی نقصان کم کیا جا سکے۔
مزید برآں، حکومت کو شہری منصوبہ بندی میں ماحول دوست اقدامات کو شامل کرنا ہوگا۔ شہروں میں درخت لگانے اور گرین اسپیسز کو فروغ دینے سے شہری درجہ حرارت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ گرین بلڈنگز کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ایسی عمارتوں کی تعمیر کی جائے جو توانائی کی بچت کریں اور ماحول کے لیے سازگار ہوں۔ سولر انرجی کے ساتھ جدید بیٹری سسٹمز کا استعمال کیا جائے تاکہ دن میں پیدا ہونے والی اضافی بجلی رات کے وقت استعمال کی جا سکے، اور توانائی کا ضیاع نہ ہو۔
اگرچہ شمسی توانائی پاکستان کے توانائی بحران کا ایک مؤثر حل ہے، لیکن اس کے ساتھ پیدا ہونے والے ماحولیاتی اثرات کو نظر انداز کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ ایئر کنڈیشنرز کے بڑھتے استعمال اور ماحولیاتی مسائل پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت، عوام، اور اداروں کو مل کر توانائی کے مؤثر استعمال اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم ایک محفوظ، پائیدار، اور ماحول دوست مستقبل کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔