رابطہ عالم اسلامی اس وقت مسلم امہ کے لیے رابطے کا بھرپور فریضہ سر انجام دے رہا ہے۔ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ولی عہد امیر محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کی سرپرستی میں رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی اس ادارے کا نام روشن کیے ہوئے ہیں.مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یورپ اور امریکہ میں دوسرے مذاہب کے ساتھ بھی رابطہ رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان سے ان کو خاص محبت اور لگاو ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے عید الفطر بھی پاکستان میں یتیم بچوں کے ساتھ گزاری تھی اور
حال ہی میں رابطہ عالم اسلامی نے حکومت پاکستان، وزارت تعلیم کے اشتراک سے اسلام آباد میں مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم، چیلنجز اور مواقع کے عنوان سے ایک بہترین کانفرنس منعقد کی۔ اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طحہ اور ان کا ادارہ بھی ان کے ساتھ اشتراک میں تھا۔ کانفرنس کے اختتام پر انتہائی جاندار اور اہم اعلان اسلام آباد بھی جاری کیا گیا۔ جس میں واضح کر دیا گیا ہے کہ جو کوئی بھی لڑکیوں کی تعلیم پر اسلام کے مسلمہ اصولوں کی مخالفت کرتا ہے اس سے اعلان برآت کیا جائے۔
میں اس وقت شدید صدمہ کی کیفیت میں تھا کہ میرا کوہ نور، میری اہلیہ پروفیسر صائمہ
چوہدری کو ہم سے جدا ہوئے چند دن ہوہے ہیں۔ وہ بھی تعلیمی میدان میں خدمات سرانجام دے رہی تھیں۔ انھوں نے بھی قوم کی بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں اپنی جو بھی عمر ملی وہ گزاری اور آخری میٹنگ بھی اسی حوالے سے کر کے ہمیں بے رحم دنیا کے حوالے کر کے خود راہی ملک عدم ہوہیں۔ وہ نرم دل اور نرم مزاج تھیں اور انشاءاللہ ، اللہ کی رحمتوں میں ہوں گی۔
کانفرنس تین روزہ تھی اور اس میں 47ممالک کے وزراء اور مندوبین نے شرکت کی۔
نایب وزیر اعظم اسحاق ڈار، وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ، اقوام متحدہ کی زیر سرپرستی واحد یونیورسٹی آف پیس کے صدر پروفیسر فرانسسکو، اسلامی جامعات کے سیکرٹری جنرل پروفیسر سامی الشریف، اسلامی ممالک کی نیوز ایجنسیوں کے اتحاد کے ڈی جی محمد عبدریہ الیامی،ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختار ، سابق وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف سمیت عالم اسلام کی اہم شخصیات شریک رہے۔
سابق وزیر بلدیات پنجاب ابراہیم حسن مراد کے ساتھ ہم پہلے دن افتتاحی سیشن میں پہنچے جہاں ملک کے معروف علمائے کرام موجود تھے، مفتی تقی عثمانی، مولنا فضل الرحمان، پروفیسر ساجد میر، مفتی منیب الرحمن، سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم، شاہ اویس نورانی، قاری حنیف جالندھری
مولنا علی محمد ابو تراب، مفتی زبیر بن عبدالرحیم اشرفی، مولانا طاہر اشرفی،مولانا عبدالعفور حیدری، مولنا فضل الرحمان خلیل،مولانا زاہد محمود قاسمی
سمیت ملک کے نامور علمائے کرام نے موضوع کے حوالے سے اظہار خیال کیا، قران و حدیث کے حوالوں سے موضوع کا تفصیلی جائزہ لیا۔ کانفرنس کے انعقاد میں پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر عزت مآب جناب نواف بن سعید المالکی کا اہم کردار ہے۔ ان کو یہاں محبتیں تقسیم کرتے ایک عرصہ ہوا ہے اور اب تو وہ پاکستانی ہی ہیں۔ اور ہمارے سفیر کے طور پر اپنا بھرپور کرادا ادا کر رہے ہیں
پاکستان میں رابطہ کے سربراہ شیخ سعد بن مسعود الحارثی اور رابطہ سعودی عرب کے استاذ مجدوعی،عبد الوہاب الشہری، ڈاکٹر شیما اور ادارے کے تمام اراکین نے فعال کردار ادا کیا۔
دوسرے روز کا اہم سیشن وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کا کانفرنس سے خطاب تھا۔ شہباز شریف جس ملک جاتے ہیں ابتدائی گفتگو اسی ملک کی زبان میں کرتے ہیں، یہاں بھی انھوں نے عربی زبان میں معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور امیر محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کی پاکستان سے بے پایاں محبت اور تعاون کا ذکر کیا۔ اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ بچیوں کی تعلیم وقت کا ایک اہم چیلنج ہےجس سے نمٹنے کے لیے مسلم ممالک کو مشترکہ اور اہم اقدامات لینے ہوں گے۔ جو ملک کم ترقی یافتہ اور کمزور ہیں ان میں بچیوں کی تعلیم تک رسائی کو یقینی بنانا ایک مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تمام مسلم ممالک اس مقصد کے لیے یکجا ہو کر کام نہ کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کی تجارتی اور سماجی خدمات، محترمہ فاطمہ جناح کی قیام پاکستان کی جدوجہد میں شرکت، اور بے نظیر بھٹو کا اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننا اسلام کی عظمت کی روشن مثالیں ہیں۔
مریم نواز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری خواتین ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔
ملالہ یوسف زئی جو کانفرنس میں شریک تھیں۔ ان کا اور ارفع کریم کا بھی بطور خاص ذکر کیا۔انھوں نے تعلیم کے حوالے سے اعلان اسلام آباد کا بھی زکر کیا اور کہا کہ اور اعلان اسلام آباد ہم سب کی امنگوں کا ترجمان ہو گا۔
سیکرٹری جنرل رابطہ عالم اسلامی ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ عورتوں کی تعلیم کی مخالف اقلیت درست راستے پر نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کی قیادت میں اس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے۔ یہ کانفرنس رابطہ عالم اسلامی کا اقدام ہے تا کہ عورتوں کی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا جاسکے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام کے تمام مکاتب فکر عورت کی تعلیم کے حق میں ہیں اور معاشرے کی ترقی کے لیے عورت کو تعلیم دینا ہو گی۔ کانفرنس میں موجود تمام علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ جس طرح مردوں کے لیے تعلیم ضروری ہے اسی طرح عورتوں کے لیے تعلیم ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں ہونے والی تقاریر نے عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے پیدا شدہ منفی پروپیگنڈا کی نفی کی ہے۔ اور ہم ان تقاریر کو دنیا بھر میں ان تقاریر کا پھیلاؤ کریں گے۔ جو لوگ عورتوں کی تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم کسی خاص کمیونٹی یا ملک کو ہدف نہیں بنانا چاہتے۔بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ سب لوگوں تک یہ بات پہنچے۔اور اسلام نے عورت پر کوئی قید نہیں لگاہی اور ہم یہی بات ہر جگہ پہنچانا چاہتے ہیں۔
اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طحہ نے تعلیم کو مسلم دنیا کی ترقی کا اہم ستون قرار دیا۔ اور کہا کہ بچیوں کی تعلیم کو فروغ دینا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ اس موقع پر رابطہ عالم اسلامی اور اسلامی تعاون تنظیم کے درمیان معاہدہ بھی ہوا جس کے تحت خواتین کی تعلیم کے لیے وظائف جاری کیے جاہیں گے۔
پاکستان کی پہلی لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ بچیوں کی تعلیم کے لیے معاشرتی رویوں کو چیلنج کرنا ہو گا۔ خواتین کی تعلیم کو قومی میزانیہ اور پالیسی کا لازمی حصہ بنانا ہو گا۔
کانفرنس میں مختلف سیشنز بھی منعقد کیے گئے جہاں پر مسلم دنیا کے بہترین اسکالرز نے اپنی تجاویز پیش کیں۔ یو ایم ٹی کے چیئرمین اورصدر ابراہیم حسن مراد نے آخری روز کے سیشن میں بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے اعدادوشمار کے ساتھ بات کی اور کہا کہ مسلم دنیا کی 43 فیصد بچیاں اسکول سے باہر ہیں۔ جبکہ عیسائی دنیا کی 11 اوریہودیوں کی صرف ایک فیصد بچیاں اسکول سے باہر ہیں۔ اسی طرح مسلم دنیا کی بچیوں کے اوسطاً 4.9 , کرسچین کے 9.1 اور یہودیوں کے 13.4 سال اسکول میں گزرتے ہیں۔ یہ صورت حال ہمارے لیے بہت الارمنگ ہے۔ اور اس کے لیے مربوط لایہ عمل کی ضرورت ہے۔
کانفرنس کے آخری روز نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کا کلیدی خطاب تھا۔ملالہ نے کہا کہ دنیا میں 12 کروڑ لڑکیاں اسکول نہیں جاتی ہیں اور پاکستان میں 25 لاکھ لڑکیاں اسکول نہیں جا سکتی ہیں۔ فلسطین میں اسرائیل نے پورا تعلیمی نظام تباہ کیا۔ اگر ہم افغانستان کی بات نہ کریں تو ہمارا مقصد پورا نہیں ہو گا۔ طالبان نے خواتین کے حقوق چھیننے کے لیے سو سے زائد قانون سازیاں کیں۔ طالبان خواتین کو انسان نہیں سمجھتے۔
چیرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا تعلیم کوئی استحقاق نہیں بلکہ بنیادی حق ہے۔ مسلم دنیا تعلیم کے زریعے بچیوں کو با اختیار بنانے کے عزم کی تجدید کرے۔
وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ہمیں امتیازی رویہ کو چیلنج کرنا ہو گا۔
ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم کی سربراہی ، حکومت پاکستان اور اسلامی تعاون تنظیم کے اشتراک سے ہونے والی کانفرنس کاانتہائی جاندار اور اہم
اعلامیہ اعلان اسلام آباد کے نام سے جاری کیا گیا۔ اور کہا گیا کہ کانفرنس میں مسلم دنیا کے دنیا بھر سے مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی جو کہ کروڑوں مسلمانوں پر اپنا اثر رکھتے ہیں۔ اور ان سب نے مل کر لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت کی۔ اور اسے بنیادی حق قرار دیا جس کی حفاظت الہی قوانین نے کی۔ اسلامی تعلیمات نے اسے لازم قرار دیا۔ اور کہا کہ اس سے دنیا میں امن و سکون اور سماج کو انتہا پسندی، تشدد، جرائم اور الحاد سے بچانے میں مدد ملے گی۔ خواتین کی تعلیم میں رکاوٹ بننے والے فتاویٰ ، خیالات اور نظریات کو مذہب کا شرمناک استحصال قرار دیا گیا۔
اور جو لوگ، ادارے اسلام کے مسلمہ اصولوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ یا ان پر تحفظات رکھتے ہیں۔ ان سے اعلان برآت کیا جائے۔
اعلامیہ میں ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی کی کاوشوں کو سراہا گیا اور اس اعلامیہ پر عمل درآمد کے لیے بھرپور حمایت کی یقین دہانی کروائی گئی۔ اسلامی تعاون تنظیم جو کہ اقوم متحدہ کے بعد سب سے بڑا فورم ہے۔ وہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے گی۔ اور یہ اعلامیہ محض نعرہ نہیں بلکہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے