یہ کانفرنس مسلم ممالک میں خواتین کی تعلیم سے متعلق تھی۔ملالہ یوسف زئی بھی اس میں شریک تھیں ۔وزیراعظم شہباز شریف صاحب نے اپنے خطاب میں عالمِ اسلام کی نامور خواتین کا ذکر کیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کا نام بھی لیا اور انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔یہ اس سیاسی بلوغت کا اظہار تھا،جس کی آج ہمیں شدید ضرورت ہے۔
ایک وقت ایسا بھی تھا جب شریف خاندان ، بھٹوخاندان کا نام سنتا تو اس کا خون کھول اٹھتا تھا۔دونوں کے مابین مخاصمت کی ایک طویل تاریخ ہے جس نے برسوںہماری سیاست کو یرغمال بنائے رکھا۔قوم منقسم رہی۔ہم معاشی طور پر آگے بڑ ھ سکے اور نہ سماجی طور پر۔پھر پرویز مشرف صاحب تشریف لائے اور ’مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے‘ کے مصداق،دونوں بڑی جماعتوں کو ایک دوسرے کے قریب کردیا۔ان جماعتوں نے سیاسی بلوغت کی دنیا میں پہلا شعوری قدم رکھا۔اس کا اظہار’میثاقِ جمہوریت‘ کی صورت میں ہوا۔ اس کا سرِ عام اعلان ہوا کہ جمہوریت کو اصل خطرہ کہاں سے ہے اور اس ضمن میں اہلِ سیاست کا کردار کیا ہو نا چاہیے۔
اس پر بحث ہو سکتی ہے کہ بعد میں اس میثاق کا کتنا احترام کیا گیا لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سے سیاسی بلوغت کی سمت میں قابلِ ذکر پیش قدمی ہوئی۔کم ازکم خون کھولنا تو بند ہوا۔یہی نہیں نون لیگ کی طر ف سے سیاسی تاریخ پر نظر ثانی کے مزید شواہد بھی سامنے آئے۔بھٹو صاحب کی پھانسی کے عدالتی حکم کو اب کھلم کھلا قتل قرار دیا جا تا ہے اور اسے عدالتی ناانصافی پر محمول کیا جا تا ہے۔مریم نواز صاحبہ گڑھی خدا بخش کا چکر بھی لگا چکیں۔پیپلزپارٹی کی طر ف سے س نوعیت کا کوئی علامتی قدم تو نہیں اٹھایا گیا لیکن اس کے لہجے کی سختی کم ہوئی اور وہ سیاسی طور پرنون لیگ کے ساتھ ہم قدم ہو گئی۔کچھ لوگ اسے موقع پرستی قرار دیں گے۔میرا احساس ہے کہ یہ موقع پرستی ہوتو بھی اب یہ تاریخ کا حصہ اور اہم پیش قدمی ہے۔ سیاست میں اتفاق و اختلاف ہوتا رہتا ہے۔مستقبل میں ایک دوسرے پر تنقید کرتے وقت،انہی یاد رہے گا کہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں کیا کہہ چکے۔ اس کا فائدہ ہو گا ، نقصان کوئی نہیں۔آوازیں پیچھا تو کرتی ہیں۔
میرا خواہش ہے کہ یہ دائرہ مزید بڑھے اوراس میں دوسری جماعتوں اور افراد کو بھی شامل کیا جا ئے ۔اگر کسی نے قومی تاریخ میں کوئی کارنامہ سر انجام دیا ہے تو اس کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے۔اس عمل کو سیاسی مصلحتوں ہی نظر سے نہ دیکھا جا ئے۔کیا ہی اچھا ہو کہ اس میں عمران خان صاحب کو بھی شامل کیا جائے۔بحیثیت کرکٹر،ان کا ایک کردار ہے۔ان کا شمار دنیا کے بڑے کرکٹرز میں ہو تاہے۔وہ اس ٹیم کے کپتان تھے جس نے وولڈ کپ جیتا۔ان کا یہ اعزاز ہے جو اب تاریخ کا حصہ ہے۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ قومی ذرائع ابلاغ پر کرکٹ کی بات ہوتی ہے اور اس میں عمران خان کا ذکر نہیں ہو تا۔اس سے عمران خان صاحب کو نہیں،ان لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے جو اس تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کر تے ہیں۔یہ ایسا ہی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا ذکر ہو اور بھٹو صاحب یا نواز شریف صاحب کا نام نہ لیا جائے۔ایک نے اس پروگرام کا آغاز کیا اور دوسرے نے اس کا سرِ عام اعلان کر کے،پاکستان کی ایٹمی قوتوں میں شامل کر وا دیا۔
اسی طرح علمائے دیوبند کا ایک تاریخی کردار ہے۔ تاریخ پر ان کے ان منٹ نقوش ہیں۔یا بطور سماجی مصلح،خان عبدالغفار خان کی خدمات ہیں۔کیا علمائے دیوبند کے علمی کارناموں کا اسی وقت اعتراف کیا جائے گا جب جمعیت علمائے اسلام کی سیاسی تائید کی ضرورت ہوگی؟کیا باچا خان اس وقت محترم قر ار پائیں گے جب اے این پی سے سیاسی اتحاد ہو گا؟میں جس سیاسی بلوغت کا ذ کر کر ہا ہوں،اس کو اظہار سیاسی مصلحتوں اور مجبوریوں سے بے نیاز ہو کر کیا جا نا چاہیے۔اس سے ایک ایساسیاسی کلچر وجود میں آئے گا جس میں تحمل ہو گا۔باہمی احترام ہو گا اور انتہا پسندانہ رویوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
ایک اچھے معاشرے کے قیام کے لیے ،ایک دوسرے کی خوبیوں کا اعتراف بہت اہم ہے۔اس سے دل نرم ہو تے ہیں۔ہم انسان ہیں اور انسانوں میں بیک خوبیاں اور خامیاں پائی جا تی ہیں۔ ہم دو انتہاں میں جیتے ہیں۔ایک طرف پیکرِ حسن وخوبی اور دوسری طرف سراپا شر و فساد۔انسان عام طور پر ایسے نہیں ہوتے۔ سیاست میں اختلاف کو قبول کیا جانا چاہیے۔اس میں تلخی بھی آ جا تی ہے۔اس کا لیکن یہ مطلب ہر گز نہیں ہو تا کہ ہم قوم کو دو حصوں میں بانٹ دیں۔اس سے نجات اسی وقت ہوگی جب ہم اپنے راہنماؤں اور دوسروں کی قیادت کو انسان سمجھیں گے۔قائد اعظم سے محبت کے لیے ابوا لکلام آزاد کا انکار ضروری نہیں۔ان کے علمی کمالات سے صرفِ نظر ایک بڑی محرومی ہوگی۔
اعتراف کے لیے ہم کسی واقعے یا شخصیت کےماضی بن جانے کا انتظار کرتے ہیں۔اصل آزمائش اپنے حال میں جینا ہے۔معاصر لوگوں کی خوبیوں کا اعتراف دوسروں کو نہیں،آپ کو بڑا بناتا ہے۔جاوید احمد غامدی صاحب سے کسی نے پوچھا:ڈاکٹر اسرار احمد صاحب سے آپ کے کیا اختلافات ہیں؟‘ ان کا جواب تھا:آپ مجھ سے یہ سوال کیوں نہیں کرتے کہ میرے ان سے اتفاقات کیا ہیں۔اختلافات سے،اتفاقات کی فہرست زیادہ طویل ہے‘۔اسی طرح یو ٹیوب پر جاوید غامدی صاحب کے بارے میں احمد جاوید صاحب کی گفتگو سن لیجیے۔اس رویے سے اختلافات کا دروازہ بند نہیں ہوتا لیکن اختلاف سے ذاتی غرض اور انا ختم ہو جاتی ہے۔پھر جواختلاف ہوتا ہے،وہ سماج کے ارتقا کے لیے اہم ہو تا ہے۔
شہباز شریف صاحب نے جو کہا،اس کا خیر مقدم کر نا چاہیے۔ہمیں دلوں میں جھانکنے کی ضرورت نہیں ۔اہلِ سیاست کو عوام کی طرف سے یہ پیغام جانا چاہے کہ وہ ان سے اسی رویے کی توقع رکھتے ہیں۔اگر سیاست دانوں کی اچھی باتوں کی تحسین ہو گی تو ان سے ایسی باتوں کامزید صدور ہو گا۔ اگر ہم ان کی انتہاپسندی کی تحسین کریں گے یا مخالفین کے لیےتوہین آمیز بیانات پر تالی بجائیں گے تو وہ اسی سمت چل پڑیں گے۔ سیاست دان عوامی تائید کی فضا میں سانس لیتا ہے۔اگر اسے معلوم ہو جائے کہ عوام کو سنجیدگی اور اعلیٰ ظرفی پسند ہے تو استہزا پر مبنی الفاظ ہماری سیاسی لغت سے خارج ہو جائیں۔
ساحر لدھیانوی نے کہا تھا ’بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل نہیں ‘ ۔میرا خیال یہ ہے یہی ہماری آزمائش ہے کہ ہم اپنے جذبات کو کس حد تک تہذیب اور آداب کے سانچے میں ڈھال سکتے ہیں۔بھوک شاید نہ ڈھل سکتی ہو ،اختلاف مگر ڈھل سکتا ہے۔اعلیٰ ظرفی کو شعار کیا جا سکتا جو طبیعت میں دوسروں کی خوبیوں کے اعتراف کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ انتہاپسندی حکومتی رویے میں ہو تو ظلم بن جاتی ہے۔اپوزیش میں ہو تو انتقام اور نفرت کی آب یاری کرتی ہے۔ ہمیں ان اخلاقی رزائل سے اوپر اٹھنا ہو گا کہ معاشرے اخلاقی فضائل سے بنتے ہیں۔اگر کبھی اہلِ سیاست کی طرف سے اس سمت میں پیش قدمی دکھائی دے تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے تاکہ دوسروں کو بھی حوصلہ ہو۔ہم بہت کچھ گنوا چکے۔ہمارے پاس مزیدگنوانے کو کچھ نہیں۔ معاصرین کی خدمات کا اعتراف ہماراحال بنے نہ کہ ماضی۔اسی سے رویے بدلیں گے۔یہیں سے تعمیر شروع ہو گی۔