"پاکستان کے خلاف سازش ہورہی ہے”۔پاکستان کو عالمی سازش کا سامنا ہے”۔”یہ امریکا کی سازش ہے”۔انڈونی "سازش و بیرونی ساز”۔”انڈین سازش و یہودی سازش”۔ یہ وہ جملے ہیں جو ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں اور ہمارے خلاف اپنوں و بیگانوں کی اندرونی و بیرونی سازشوں کا سن سن کر اب تو ہر پاکستانی کے کان پک چکے ہیں۔ اب لوگ سمجھتے ہیں کہ کیا ساری دنیا اتنی نکمی ہے کہ وہ دن رات ہمارے خلاف سازش کرے گی۔ کیا ہم ہی پوری دنیا میں انہیں ملتے ہیں کہ وہ سازشیں کریں۔
ہمارے پاس بچا ہی کیا ہے کہ جسے پانے کے لیے وہ سازش کریں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج ہر پاکستانی کے ذہن میں ہیں۔ مایوسی اتنی ہے کہ ہمیں اپنا ملک اس قابل ہی نہیں لگتا کہ کوئی اس کے خلاف سازش کرے اور دوسری طرف ہماری مفاد پرست اشرافیہ اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے یا اقتدار کو طوالت دینے کے لیے ان جملوں کا اتنا سہارا لے چکی ہے کہ اب یہ جملے سن کر ہی لگنا شروع ہوجاتا ہے کہ یہ پھر سے کسی نئی واردات کی تیاری ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اتنے نکمے ہوچکے ہیں کہ دنیا میں کسی بھی طاقت کے لیے ہم چیلنج نہیں رہے؟ کیا ہمارا خطے میں کوئی اثر باقی نہیں رہا یا ہم سے کسی کو کوئی ڈر باقی نہیں ؟
ہم گھر کی مرغی کو لاکھ دال برابر سمجھتے رہیں لیکن دنیا ایسے نہیں سمجھتی۔ پاکستان معاشی طور پر کمزور ضرور ہے لیکن ابھی اتنا بے وقعت نہیں ہوا کہ دنیا میں کسی کے لیے درد سر نا رہے۔ ابھی کل کی خبر پڑھ لیجیے کہ انڈونیشیا کےصدر نے 26 جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت کےبعد شام کو پاکستان آنا تھا. مودی کےدباؤ پرانہوں نے پاکستان کا دورہ منسوخ کر دیا ہے. سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان اتنا ہی بے وقعت ملک ہے تو آبادی میں دنیا کا سب سے بڑا ملک اور دنیا کا تیزی سے سب سے بڑی معیشت بنتا خطہ بھارت اسے آج بھی اپنے لیے اتنا بڑا چیلنج کیوں سمجھتا ہے ؟ کرکٹ کا میدان ہو یا سفارت کاری کا وہ ہر وہ حربہ آزماتا ہے کہ پاکستان کا نقصان ہوسکے۔ اقوام متحدہ سے لے کر پاکستان کے دوست ممالک تک کا کوئی ایک ایسا محاذ نہیں جہاں بھارت ایک دن بھی سکون سے بیٹھا ہو۔ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کا راستہ روکنے،کرکٹ کے دروازے بند کرنے،عالمی طاقتوں کو اس سے لڑوانے،دہشت گرد ملک ثابت کرنے اور حتی کہ پاکستان کے اپنے دفاع کے لئے بنائے گئے ہتھیاروں کو عالمی امن کے لیے خطرہ ثابت کرنے کے لیے بھارت سرمایہ بھی لگاتا ہے اور ہمہ وقت اس کے لیے لابنگ بھی کرتا ہے۔
بھارت تو ٹھہرا ہمارا پڑوسی اور 75 سالہ رقیب۔آپ کہیں گے کہ دونوں ممالک کے خراب تعلقات کی وجہ سے بھارت پاکستان کو اپنا دشمن ملک سمجھتا ہے۔اس وجہ سے وہ چاہتا ہے کہ وہ اسے کمزور سے کمزور تر کرنے کی جدوجہد کرے تاکہ وہ اپنی دشمنی نباہ سکے۔
بھارت کو ایک طرف کیجئے اور دنیا کے سپرپاور امریکہ کی طرف غور کیجئے۔ امریکہ سے ہماری کوئی سرحد نہیں ملتی ۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان کوئی تنازعہ اور دشمنی بھی نہیں ہے۔ پاکستان نے امریکہ کا ہمیشہ ساتھ دیا ہے۔ ابھی کل پڑوس کی ایک بڑی جنگ میں پاکستان امریکہ کو راستہ نا دیتا تو اس کا وہاں جنگ کرنا ممکن نا تھا۔ پاکستان نے امریکہ سے اچھے تعلقات کے لیے ہمیشہ اپنی قوت و طاقت سے بڑھ کر قربانیاں دی ہیں۔ معیشت اور طاقت کے میدان میں پاکستان اور امریکہ کا کوئی جوڑ ہے نا کوئی تنازعہ۔ لیکن ابھی کچھ دن پہلے امریکہ نے پاکستان کے لانگ رینج بیلسٹک میزائل پروگرام پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک کو عالمی قوانین کی کے تحت اپنے دفاع کا مکمل حق ہے۔ امریکہ جیسا طاقت ور ملک بھی اس سے خوفزدہ کیوں ہے؟ کوئی تو ایسی وجہ ہے کہ جس وجہ سے پاکستان کو دنیا اتنی اہمیت کی نگاہ سے دیکھتی ہے وگرنہ یار لوگوں کے بقول تو اب ہم اس قابل رہے ہی نہیں کہ دنیا ہماری پرواہ کرے۔ پھر امریکا جیسے ملک کو پاکستان پر پابندیاں عائد کرکے منہ کالا کروانے کی آخر کیا ضرورت پڑی تھی ؟
پاکستان کو خطرناک دہشت گردی کی لہر کا سامنا رہا ہے۔ جب بھی انہیں ذرا سا موقع ملتا ہے وہ پھر سے سر اٹھانے لگتے ہیں اور نقصان پہنچانے میں ذرا دیر نہیں کرتے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ اتنا ہی غیر اہمیت کا حامل ملک ہے تو غیر ملکی فنڈنگ و تربیت سے چلنے والی اس دہشت گردی کا کیا جواب ہے ؟ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ واقعی میں کچھ طاقتیں ایسی ہیں جو اس دھرتی کو شام و عراق بنانے کے خواب دیکھتی ہیں۔ کوئی تو ہے جو اس سے خوفزدہ ہے اور اسے نقصان میں دھکیلے رکھنا چاہتا ہے۔
ابھی کل برطانیہ میں گرومنگ گینگ سیکنڈل کی آڑ میں برطانیہ میں موجود 17 لاکھ پاکستانیوں کو نشانہ بنا کر بطور خاص پاکستانیوں کے خلاف برطانوی پارلیمنٹ میں قرارداد پیش ہوئی۔ دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے اپنے ذاتی ذرائع ابلاغ کے پلیٹ فارمز کو پاکستانیوں کے خلاف مہم جوئی کے لیے پیش کردیا۔ بھارتی تنظیموں کے انتہائی متعصب اور انتہاپسندانہ بیانیے کو پروان چڑھانے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے کر خود علم اٹھا لیا اور پاکستانیوں کے خلاف قرارداد پیش کروانے اور منظور کروانے کی کوشش کی۔ الگ بات ہے کہ اس انتہاپسندانہ قرارداد کو برطانوی وزیراعظم سمیت اراکین پارلیمنٹ کی بھاری اکثریت نے مسترد کرکے ثابت کردیا کہ یہ پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف تعصب کے سوا کچھ بھی نہیں۔
سوال مگر یہ ہے کہ دنیا کا امیر ترین فرد جو سپرپاور ملک امریکہ کے نومنتخب صدر کا سب سے قریبی دوست ہے۔ اس کی الیکشن کمپین کا سب سے بڑا ڈونر ہے۔ سوشل میڈیا کے مضبوط پلیٹ فارمز کا مالک ہے۔ وہ پاکستان کے خلاف باقاعدہ پوری دلجمعی کے ساتھ کوششوں میں مصروف کیوں ہے؟ پاکستان خطے کا اتنا ہی غیر اہم ملک ہے تو دنیا کے اہم ترین افراد کی توجہ اسی پر کیوں ہے؟ دنیا کے امیر ترین شخص کے تمام تر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اس کے خلاف متعصبانہ بیانیے کی ترویج کے لئے دن رات کیوں استعمال ہورہے ہیں؟ یہ اہم ترین لوگ اقوام متحدہ سے اسکی امداد بند کروانے کی دھمکیاں کیوں دے رہے ہیں ؟
ہمارے دوستوں کو بھی اب اسے کم از کم اتنی اہمیت تو دینی چاہیے جتنی ان کی نظر میں دنیا کے اہم ترین ممالک اور افراد دے ہیں۔