اوور سیز پاکستانی : حقیقت اور واہمے

پاکستانی سیاست کو عدم برداشت کا تحفہ دینے کے بعد اہل سیاست کی نظریں اب اوورسیز پاکستانیوں پر لگی ہیں کہ کس طرح انہیں اپنی سیاست کا ایندھن بنا لیں۔ یہ خواہش ایک مکمل سیاسی بیانیے کی شکل میں ظہور پذیر ہو چکی ہے۔ اس میں بہت سارا پوسٹ ٹروتھ ہے اور ڈھیر سارے واہمے ہیں ۔ حقیقت مگر ان سے بالکل مختلف ہے۔ حقیقت کو سمجھے بغیر اس معاملے کا تجزیہ نہیں ہو سکتا۔

پہلی بات یہ ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے ہاں اصلاح احوال کی تڑپ شاید ہم سے زیادہ ہے۔ وہ ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں معیار زندگی بہتر ہے ، مساوات ہے ، آگے بڑھنے کے ماقع ہیں ، قانون کی حکمرانی ہے۔ وہ جب یہ سب کچھ دیکھتے ہیں تو فطری طور پر پاکستانی معاشرے کا ان معاشروں کے ساتھ تقابل کرتے ہیں۔ وہ اپنے گھروں سے دور ہیں ، اپنے پیاروں سے دور ہیں ، ، ان میں یہ احساس پیدا ہونا فطری بات ہے کہ اگر پاکستان میں اصلاح احوال ہو جاتی تو وہ یہاں پردیس نہ کاٹ رہے ہوتے۔

یہ وہ چیز ہے جو انہیں اصلاح احوال ، بہتری اور تبدیلی کے خوش کن تصور میں لپٹے کسی بھی جذباتی بیانیے کا آسان شکار بنانے کی گنجائش رکھتی ہے۔جن اہل سیاست کا دعوی ہے کہ وہ ’ مائنڈ گیم ‘ کے ماہر ہیں انہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ اس زرخیز زمین کو اپنے پوسٹ ٹروتھ سے نم کر دیں۔

سمجھنے کی بات مگر یہ ہے کہ اوورسییز پاکستانیوں میں بھی اتنا ہی تنوع ہے جتنا پاکستان کے شہریوں میں ۔یہ مذہبی اور سیاسی ، تمام حوالوں سے مختلف الرائے لوگ ہیں ،اور ایسا بالکل نہیں کہ یہ سب کے سب کسی ایک سیاسی پارٹی کے دست و بازو ہوں۔چنانچہ جب ان سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ پاکستان رقوم بھیجنا بند کر دیں تو معلوم ہوا کہ ترسیلات زر میں کمی کی بجائے اضافہ ہو گیا ہے اور اس مالی سال کی پہلی سہہ ماہی میں ترسیلات زر قریب 9 ارب ڈالر کو چھو رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں؟

وجہ بڑی سادہ ہے۔ یہ لوگ آخر ملک سے باہر گئے کیوں ہیں؟ان کی بڑی تعداد پردیس صرف اس لیے کاٹ رہی ہے کہ وہ پیچھے اپنے پیاروں کو رقوم بھیج سکیں۔ کوئی والدین کو بھیج رہا ہے تو کوئی بیوی بچوں کو۔یہ رقم لاکھوں گھرانوں کی لائف لائن ہے۔وہ اس کی ترسیل کو کیسے روک سکتے ہیں اور کیوں روکیں گے؟

یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں ہر پہر پیاس بجھانے کے لیے کنواں کھودنا پڑتا ہے۔کیا وہ سیاست کا ایندھن بنتے ہوئے اپنے پیاروں کو رقوم بھیجنا بند کر دیں؟ یوٹیوب پر ڈالروں کے تعاقب میں ایسی مہم ضرور چلائی جا سکتی ہے کہ وہاں ڈالر بسا اوقات نامعقولیت کا تعاقب کرتے پائے جاتے ہیں لیکن مرتی مارتی دنیا کے حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں۔

یہ رقوم نہ کسی سیاسی جماعت کو بھیجی جاتی ہیں نہ حکومت کو ، نظام معیشت میں اس کا فائدہ ریاست کو بے شک ہوتا ہے لیکن ترسیل کی شان نزول سیاسی وابستگی یا عدم وابستگی نہیں ، سماجی ضروریات ، تعلقات اور رشتے ہیں۔ یہ کسی حکومت پر ، کسی سیاسی جماعت پر یا حتی کہ معاشرے پر بھی کسی کا کوئی احسان نہیں ہے ۔ دنیا بھر سے لوگ تلاش روزگار میں بیرون ملک جاتے ہیں اور وہاں سے اپنے پیاروں کو رقوم بھیجتے ہیں ۔ ایسی انہونی معلوم انسانی تاریخ میں پہلی بار پاکستان میں نہیں ہو رہی ہے کہ ہر وقت معاشرے کو حکم دیا جائے کہ احسان مندی میں گردن جھکائے رکھے ورنہ اوورسیز پیسے بیجنا بند کر دیں گے۔

اوورسیز ، جہاں بھی ہیں ، پاکستانی ہیں۔ یقینا ان کی سیاسی وابستگیاں بھی ہوں گی لیکن وہ کسی سیاسی ترکش کے تیر نہیں ہیں کہ داخلی سیاست میں انہیں ہتھیار بنا لیا جائے اور زبان حال سے پیغام دیا جائے کہ داخلی سیاست میں ماحول سازگار نہ ہوا تو پھر اوورسیز کارڈ کھیلا جائے گا۔

سیاسی طوفان بدتمیزی ، خود اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ خیر خواہی نہیں ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد سعودیہ میں رہتی ہے۔ خلیجی ممالک میں بھی ایک بڑی تعداد مقیم ہے۔ داخلی سیاست کا آزار اگر ان کے دامن سے لپٹتا ہے تو یہ نقصان ہی نقصان ہے۔ ملک کا بھی اور اوورسیز کا بھی۔ کسی ملک کے سربراہ کے پاکستان تشریف لانے پر اگر جعلی ویڈیوز کے ساتھ ایک طوفان کھڑا کر دیا جائے گا اور سوشل میڈیاکے پوسٹ ٹروتھ کے ذریعے اس پر گرہیں لگائی جائیں گی تو اس میں شامل جواوورسیز اس ملک میں مقیم ہوں گے کیا ان کے لیے مسائل نہیں ہوں گے؟یقینا پیدا ہوں گے ا ور یہ صرف ان تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ ان کا دائرہ وسیع ہو گا اور یہ آئندہ کے لیے پاکستانیوں کے لیے ان ممالک میں داخلے کے امکانات کو بھی سکیڑ سکتے ہیں۔

یہی حال یورپ میں ہے۔ پاکستا ن سے کوئی سیاسی حریف وہاں جاتا ہے یا حتی کہ سابق چیف جسٹس جاتا ہے تو ان کا ہانکا کیا جاتا ہے۔ موبائل کیمرا پکڑ کر ان کا تعاقب کیا جاتا ہے۔ گندی گالیاں دی جاتی ہیں اور پھر فخریہ طور ان کا ابلاغ کیا جاتا ہے ۔ جو سب سے گندی گالیاں دیتا ہے اور اس غیر اخلاقی سرگرمی میں سب سے نمایاں ہوتاہے اسے برانڈ بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ یہ تو عہد موجود کا چی گویرا ہے۔ یہ ہمارا رستم اور سہراب ہے۔ دیکھیے اس نے فلاں کے گھر کے باہر بھی گالیاں دیں اوور فلاں کو بھی معاف نہیں کیا۔

کیا کسی کو اندازہ ہے کہ یہ بات آگے بڑھی تو کہاں تک جائے گی؟ کارکنان تو سب کے ہی ہیں اور بد تمیزی کے لیے دس بارہ لوگ ہی کافی ہوتے ہیں۔اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ اس سے بیرون ملک آپ ملک کا کیا امیج بنا رہے ہیں۔

ایوب خان سے سید مودودی کے شدید سیاسی اختلافات تھے۔ روایت کیا جاتا ہے کہ جب وہ امریکہ پہنچے تو ان سے ایوب خان کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا۔انہوں نے مسکرا کر جواب دیاکہ ایوب خان سے میرے جتنے بھی اختلافات تھے وہ ایک بیگ میں تھے اور وہ بیگ میں لاہور ایئر پورٹ پر چھوڑ آیا ہوں۔ یہاں میں صرف پاکستان کا ایک شہری ہوں۔جب میں واپس جائوں گا تو لاہور ایئر پورٹ پر پڑا ہوا اپنا بیگ اٹھا لوں گا۔

بیرون ملک پاکستانی اپنے ملک کے سفیر ہوتے ہیں ، اس کے خلاف وکیل استغاثہ نہیں ہوتے۔ کوئی انہیں اس روپ میں ڈھالنا بھی چاہے تو اسے ناکامی ہی ہو گی۔ہاں دھول ضرور اڑائی جا سکتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ بھی ملک کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہو گا۔ اس سلسلے کو تھم جانا چاہیے اور اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے