روئے زمیں پر عورت کے لیے کوئی جنگ اس کی منشا سے تو نہیں لڑی گئی۔ لیکن جنگجو قوتیں اس کا باعث خدا عورت زمین یا زر کو قرار دے کر خود کو بری الزمہ قرار دے دیتی ہیں۔ ہابیل قابیل کی کہانی کی طرح یہاں بھی جنگ اور مقابلے اور قتل کے تار و پود عورت کے گرد گھمائے جا رہے ہیں۔کسی جنگ میں بھی عورت مبازرت طلب نہ تھی لیکن سپارٹا اور ٹرائے کی دانش کو کسی جواز کی ضرورت تھی۔ سو مذہب کے بعد عورت اس کا بہترین جواز ہے۔
میں جب قائد اعظم پوسٹ گریجویٹ کالج میں ایف ایس سی کر رہی تھی تو میری آپی اسی کالج میں انگلش لٹریچر کی پروفیسر تھیں ، میں نے تبھی کنگ لیئر ، میکبتھ ، ڈاکٹر فاسٹس ، ہیلن آف ٹرائے کی داستاں پڑھی تھی۔ یوں میں نے ماسٹرز کی کلاسز میں بیٹھ کر انگلش لٹریچر پڑھنے کا شوق بھی پورا کرلیا۔
ہیلن آف ٹرائے/ Helen of Troy کی داستان یونان کے مشہور شاعر ” ہومر “ کی نظموں ” ایلیڈ “ کا پس منظر بیان کرتی ہے ، جسے ٹرائے کی جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بارہویں اور تیرہویں صدی قبل مسیح کے دوران ٹرائے کی یہ جنگ یورپ کی حسین ترین عورت ہیلن کو حاصل کرنے کی خاطر دو مشہور بادشاہی ادوار شہنشاہ سپارٹا اور کنگ ٹرائے کے درمیان مسلسل دس سال تک جاری رہی ، جس کے نتیجے میں ٹرائے کا شہر جل کر راکھ ہو گیا تھا۔ یوں ایک تولہ سیب سے شروع ہو نے والی یہ جنگ لکڑی کے ایک گھوڑے پر ختم ہوئی تھی۔
ہیلن نہ صرف حُسن کی ملکہ تھی بلکہ سپارٹا کی ملکہ بھی تھی ، ہیلن ٹینڈر یوس کی بیٹی اور مینی لیوس کی بیوی تھی ، اس رومانوی داستان میں مختلف کردار ہیں۔ جن میں ہیلن کے خاندان کے علاؤہ پیرس جو کہ ٹرائے کے بادشاہ پریئم کا بیٹا تھا اور پریئم Priam جو کہ ٹرائے کا بادشاہ تھا اور ہیکٹ جو کہ پیرس کا بھائی تھا ، اور یونانیوں کا دیوتا ایرس اور دیوی Eris جسے فساد کی دیوی کہا جاتا ہے ، اور عقل و دانش اور فتح کی دیوی ایتھینا Athena ، اور افروڈائٹی دیوی Aphrodite جسے محبت ، خوبصورتی کی دیوی کہا جاتا ہے ، اور ہیر ا دیوی Hera جو جو آسمانی دیوتا زیوس کی بیوی ہے ، زیورس دیوتا(ی جو ونانیوں کا سب سے بڑا دیوتا ،آسمانوں کا دیوتا، مشتری ہے۔ یونانیوں کا کہنا تھا کہ اُن کے دیو ی ، دیوتا بھی انسانوں کی طرح لڑتے جھگڑتے ، حسد و رقابت اور ایک وسرے کے خلاف سازشوں میں جتے رہتے تھے۔ صدیوں پہلے پیلو دیوتا /Peleu اور تھیٹس دیوی کی شادی کے موقع پر تمام دیوی ، دیوتاؤں کو مدعو کیا گیا تھا ۔ یہ ایک شاندار اور عالیشان دعوتِ شیراز تھی۔ جس میں کوہِ اولمپس سے سبھی لافانی دیوی دیوتا شریک ہونے آئے تھے ، مگر فساد برپا کرنے والی دیوی ایرس کو شادی کا شرکت نامہ نہیں بھیجا گیا تھا ۔ تو وہ تلملاہٹ کا شکار ہوگئی تھی۔ شادی کے عین موقع پر فساد کی دیوی ایرس خاموشی سے آسمانوں سے زمین پر اتری اور تقریب میں سونے کا ایک سیب اچھال دیا۔
سیب کے ساتھ ایک تحریر درج تھی:۔
”یہ سیب تقریب میں شامل دنیا کی سب سے خوبصورت دیوی کے لیے ہے “ ،
اس وقت تقریب میں کئی دیویاں مدعو تھیں ، خصوصاً محبت ، عقلمندی اور طاقت کی دیویاں اپنے حسن و جمال میں بے مثال تھیں ، اور ہر دیوی کا خیال تھا کہ یہ سیب اسے ملنا چاہیے ، کیونکہ وہ خوبصورت ترین دیوی ہے۔ بحث و تکرار کے بعد جب نوبت لڑائی جھگڑے تک آ پہنچی تو سارے دیوی ، دیوتاؤں نے آسمانوں کے دیوتا زیورس (مشتری) سے درخواست کی کہ وہ فیصلہ کریں کہ کونسی دیوی سونے کے سیب کی حقدار ہے۔ چونکہ مشتری دیوتا بڑا سمجھدار تھا ، چنانچہ اس نے سوچا اگر تینوں میں سے کسی ایک دیوی کو سیب دیا جائے گا تو باقی سب دیویاں اس فیصلے سے ناراض ہو جائیں گی اور اگر ان میں سے کسی کوبھی سیب نہ دیا جائے اور اگر وہ اپنی بیوی کو سیب دے گا تو پھر باقی دیویاں اس کو کوسنا شروع کردیں گی۔مشتری دیوتا نے اپنی بیوی سمیت باقی دیویوں کواپنے پاس بلوایا اورانہیں کہا ؛ وہ ٹرائے کے چرواہے اور پیرس کے پاس جائیں ، پیرس فیصلہ کرے گا اور جس دیوی کو سب سے خوبصورت سمجھے گا ، اسے سیب دے دیا جائے گا۔
یوں زیورس دیوتا کی بات سن کر تینوں دیویاں پیرس کے پاس جا پہنچیں۔ ہیرا دیوی نے پیرس کو سمجھایا کہ اگر وہ یہ سیب اسے دے گا تو وہ اسے دنیا کا سب سے امیر اور طاقتور انسان بنا دے گی۔اور ایتھینا دیوی نے کہا کہ وہ سیب کے بدلے اسے ہر جنگ کا فاتح بنادے گی ، جبکہ محبت کی دیوی نے ہلکے سے پیرس کے کان میں سرگوشی کی ؛ میں دنیا کی خوبصورت ترین عورت کو تمہارے عشق میں مبتلا کر دوں گی۔ پیرس نے ساری دیویوں کی طرف دیکھا اور سوچ بچار کے بعد سونے کا سیب محبت کی دیوی (افرو ڈائٹی ) کے ہاتھوں میں تھما دیا ، جس کے بدلے اس نے پیرس کو دنیا کی خوبرو ترین عورت (سپارٹا کی ملکہ ہیلن) کے بارے میں بتاتے ہوئے یہ انکشاف بھی کردیا کہ وہ یعنی پیرس کوئی معمولی چرواہا نہیں ہے بلکہ ٹرائے کے بادشاہ پریئم کا بیٹا ہے۔
پیرس حقیقت میں ٹرائے کے بادشاہ پریئم کا حقیقی بیٹا تھا۔ جس کی پیدا ئش کے وقت قسمت کا حال بتانے والے نے پیشنگوئی کی تھی کہ یہ بچہ بڑا ہو کر ٹرائے سلطنت کی تباہی کا سبب بنے گا ، اس لیے بادشاہ پریئم نے اسے خود سے جدا کرکے ایک جنگل میں بکریاں چرانے والے چرواہے کے سپرد کردیا تھا۔ پیرس حسن و جمال میں اپنی مثال آپ تھا مگر وہ اس حال میں بڑا ہوا کہ اسے اپنا شہزادہ ہونے کا علم ہی نہ ہوسکا تھا۔ یوں محبت کی دیوی افروڈائٹی کا انکشاف سنتے ہی پیرس نے چرواہے کی لاٹھی وہیں پھینک دی اور فوراً ٹرائے پہنچ کر شہزادہ بن گیا ، اگرچہ وہ شہزادہ بن گیا تھا مگر ہیلن ا سکے حواسوں پر ہمہ وقت سوار رہنے لگی تھی ، اس لیے کچھ عرصہ عیش و عشرت میں گزارنے کے بعد وہ اپنے بھائی ہیکٹر کے ہمراہ ایک بحری جہاز میں سپارٹا کی طرف چل پڑا۔ اور سپارٹا پہنچ کر دونوں بھائی بادشاہ مینی لیوس کے مہمان بنے۔
رات بھر شراب و کباب کی محفل سجی رہی۔ پیرس کا بھائی ہیکٹر کچھ دن بعد واپس ٹرائے چلا گیا ، لیکن پیرس ہیلن کے عشق میں مبتلا ہو کر سپارٹا میں ہی رک گیا ۔چونکہ خوبصورتی کی دیوی نے ہیلن کے دل میں بھی پیرس کے لیے پیار بھر دیا تھا ، اسی لئے وہ بھی پہلی ہی ملاقات میں پیرس کو اپنا دل دے بیٹھی ۔پھر ایک دن جب بادشاہ مینی لیوس شکار کیلئے باہر گیا تو ، پیرس نے ہیلن کو ساتھ لیا اور دونوں محل سے بھاگ کر ٹرائے کی جانب نکل گئے ۔بعض ناقدین کے مطابق پیرس ہیلن کو سپارٹا سے اغواء کرکے ٹرائے لے گیا تھا ، جبکہ ہومر کی نظموں کے مطابق وہ اپنی مرضی کے ساتھ سپارٹا چھوڑ کر پیرس کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ جب بادشاہ مینی لیوس کے علم میں آیا کہ اسکی کی بیوی ٹرائے کے شہزادے پیرس کے ساتھ بھاگ گئی ہے تو اس کی غیرت جاگ گئی ، لیکن اکیلا سپارٹا ٹرائے جیسے طاقتور ملک کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا چونکہ ہیلن بچپن سے ہی خوبصورت تھی ، لیکن جب وہ جوان ہوئی تو حسن جیسے اس پر ٹوٹ کر برسا اور اس کے لا فانی حسن کی شہرت اسپارٹا کے محل سے نکل کر پہلے یونان اور پھر دنیا بھر میں پھیل گئی تھی یوں اس کی مقبولیت اس کے باپ ٹینڈر یوس کیلیے سوہانِ روح کی وجہ بن گئی تھی ، اور ٹینڈر یوس کو خدشہ نظر لاحق ہونے لگا تھا ، کہ کہیں ہیلن اپنے لافانی حسن کیوجہ سے یونان میں فساد کا باعث بن جائے گی۔جب ہیلن کی شادی کا وقت قریب آیا تو یہ خطرہ زیادہ شدت سے سامنے آگیا ، کیونکہ کئی یونانی بادشاہوں اور شہزادوں نے براہ راست اس کا ہاتھ مانگا تھا جبکہ بعض نے اس مقصد کے لیے خصوصی سفارتی مشن بھی سپارٹا بھیجے تھے۔
جس طرح ہندو آریا سماج میں اونچے طبقے کی لڑکیوں کو شوہر کے انتخاب کی آزادی ہوا کرتی اور وہ سوئمبر کے موقع پر اپنی پسند کا مرد چنا کرتی تھیں ، جیسا کہ سیتا نے رام کو چنا تھا ، اسی طرح ہیلن کے باپ نے بھی سوئمبر کی رسم کا اہتمام کیا تھا ، جس میں کئی شہزادوں اور بادشاہوں نے شرکت کی اور ہیلن کے شوہر کا فیصلہ کرنے سے قبل رسمی تقریب میں موجود تمام بادشاہوں ، شہزادوں اور شہ زوروں سے حلف لیا گیا تھا کہ اگر کسی نے ہیلن کے منتخب شوہر سے مقابلے کی کوشش کی تو باقی تمام شہزادے مل کر منتخب ہونے والے کا ساتھ دیں گے۔یوں ٹینڈر یوس کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی اور وہاں موجود افراد نے ٹینڈریوس کا حلف قبول کر لیا اورسوئمبر کے موقع پر ہیلن کے شوہر کے طور پر مینی لیوس کا انتخاب کیا گیا اور دونوں کی شادی کر دی گئی۔ ہیلن کے باپ ٹینڈریوس کے انتقال کے بعد مینی لیوس سپارٹا کا نیا بادشاہ بن گیا اور ہیلن ا سکی ملکہ۔ ابھی چند برس ہی مینی لیوس نے اپنی خوبصورت بیوی ہیلن کے ساتھ امن و آشتی کے ساتھ گذارے تھے کہ اس کی پر مسرت زندگی میں پیرس نامی رقیب گھس آیا۔ یوں جب مینی لیوس کو جب پتا چلا کہ پیرس اس کی محبوب بیوی ہیلن کو بھگا کر لے گیا ہے تو۔۔۔۔
جاری ہے…