خواتین پر تشدد ہمارے معاشرے کا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے ۔ ایسے واقعات آئے روز ملک میں اور بالخصوص صوبہ پنجاب میں مختلف اشکال میں رونما ہوتے ہیں ۔ تشدد کے یہ واقعات جسمانی، جنسی، نفسیاتی اور آن لائن ہراسانی کی صورت میں سامنے آتے ہیں ۔ ان کے انسداداور تدارک کے قوانین اور ضابطوں پر موثر عمل نہ ہونا بھی ایسے واقعات کے محرکات بن
جاتے ہیں
پروین بی بی
ضلع بہاولپور کے علاقہ اوچ شریف کی پروین بی بی جو دو بچوں کی ماں ہے ۔ اسکا پہلا شوہر وفات پاگیا تو اس نے دوسرا نکاح کرلیا ۔ کچھ عرصہ زندگی سکون سے گزری لیکن پھر دوسرے شوہر سے مسائل کا سامنا شروع ہوگیا ۔ پروین بی بی کا کہنا ہے کہ اسکا شوہر جائیداد کی لالچ میں آکر اس سے جھگڑنے لگا ، بات جسمانی تشدد اور پھر سفاکی تک جاپہنچی ۔ پروین بی بی کی ناک کاٹ دی گئی اور شوہر برملا اعتراف کرتے ہوئے غیرت کے نام پر اس اقدام کی آڑ لینے لگا ۔ بات پولیس مقدمہ اور عدالت تک پہنچی شوہر نے اثر و رسوخ اور ڈرانے دھمکا نے کا سہارا لیکر پروین بی بی کو علاج معالجہ کے نام پر کچھ رقم دے کر خاموش کر ادیا ۔
دوسری خاتون
اوچ شریف کی ہی ایک اور خاتون (فرضی نام )کا تعلق ایک نواحی گاؤں سے ہے ۔ یہ چھ بچوں کی ماں ہے اور نہایت ہی غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس کو بھی شوہر کے ہاتھوں ناک کٹوانے کے بدترین تشدد کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہاں بھی غیرت کے نام کی آڑ لی گئی اور وجہ تنازعہ اس خاتون کی جواں سال بیٹی ٹھہری ۔ اس لڑکی نے پسند کی شادی کی تو اسکی والدہ کو شوہر اور سسرال والوں سے لڑائی جھگڑے کا سامنا کرنا پڑا ۔ وقوعہ کے مطابق اس کی ساس اور شوہر نے مل کر خاتون کی ناک کاٹ دی ۔ معاملہ ابھی تھانے تک ہی پہنچا تھا کہ خاندان کے دباؤ پر آکر صلح ہو گئی ۔ صلح کی شرط فقط علاج معالجے کا خرچ دینے تک محدود رہی ۔ یہ خاتون اب اپنے میکے میں ایک بیٹی کے ساتھ بے بسی کی زندگی گزار رہی ہے ۔ اسکا کہنا ہے کہ اسے ناکردہ جرم کی اتنی بھیانک سزا دی گئی ۔
سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق، پنجاب میں خواتین پر تشدد ک10 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔ یہ 2022 کے 8,787 کیسز کے مقابلے میں 16 فیصد زائد ہیں ۔ اسی رپورٹ کے مطابق صوبہ میں 2023ء کے دوران جنسی زیادتی 6,624 کیسز رپورٹ ہوئے۔ یہ سال 2022 کے 5,890 کیسز کے مقابلے میں 12 فیصد زیادہ ہیں۔ایسے جرائم کے حوالے سے فیصل آباد 728 کیسز کے ساتھ سرفہرست رہا۔ اس کے بعد لاہورمیں 721 اور سرگودھا میں 398 واقعات رجسٹرڈ ہوئے ۔ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات دیکھیں تو پنجاب میں سال 2023 کے دوران 120 کیسز رپورٹ ہوئے۔ یہ اعداد و شمار ان واقعات کے ہیں جو رجسٹرڈ ہوتے ہیں ۔ ایسے مزید واقعات جو رپورٹ نہیں ہوتے
اور دباؤ پر چھپا دیئے جاتے ہیں ، انکی تعداد الگ ہے
ماہر قانون احمد رضا( پراسیکیوٹر)کا کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب، بالخصوص بہاولپور میں خواتین پر تشدد اور ان سے زیادتی کے واقعات سنگین مسئلہ بن چکے ہیں ۔ اس ضلع میں اگرچہ ایسے واقعات کے اعداد و شمار محدود ہیں لیکن حالات اور واقعات اس بات کے شاہد ہیں کہ یہ مسائل گھمبیر ہیں ۔ دیہی علاقوں میں یہ مسئلہ زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہے ۔
سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کی ایک بڑی تعداد رپورٹ نہیں ہوتی۔ یہ صورتحال جو سماجی بدنامی اور قانونی کارروائیوں کی پیچیدگیوں کی وجہ سے رونما ہوتی ہے ۔ اگرچہ قوانین موجود ہیں، لیکن ان کا مؤثر نفاذ اور متاثرین کی سماجی و معاشرتی حمایت میں کمی پائی جاتی ہے ۔ متاثرہ خواتین کو اسی معاشرے میں رہنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہمت چھوڑ کر خاموش ہو جاتی ہیں ۔ خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے مؤثر قانون سازی، اور قوانین کا سختی سے نفاذ، اور عوامی آگاہی کی مہمات کی ضرورت ہے ۔