پرنس کریم آغا خان چہارم اس دنیا سے رخصت ہوئے

عرصہ ہوا آغا خان فیملی پر ہم نے ایک مفصل ویڈیو بنا کر اپنے یوٹیوب چینل Mohammad Fahad Haris پر اپلوڈ کردی تھی جس کا لنک پہلے کمنٹ میں دیا جارہا ہے۔

آغا خان خاندان کی بابت تفصیلی معلومات کے لیے شائقین یہ ویڈیو دیکھ سکتے ہیں۔

بطور 49ویں امام انکا انتخاب ان کے دادا سر محمد آغا خان سوئم نے 1958ء میں اس وقت کیا تھا جبکہ وہ صرف بائیس سال کے تھے اور اس وقت ان کے والد پرنس علی خان نہ صرف زندہ تھے بلکہ اگلے امام بننے کے امیدوار بھی تھے لیکن ان کی کسی قدر غیر سنجیدہ زندگی اور کھلے ڈلے معاشقوں کے سبب سر محمد آغا خان سوئم نے ان کی جگہ ان کے بیٹے اور اپنے پوتے پرنس کریم آغا خان کو آغا خان کمیونیٹی کا اگلا امام مقرر کردیا۔

آغا خان سوم کی وفات کے بعد دنیا بھر میں ان کے پوتے اور وصی پرنس کریم کی تخت نشینی کی رسومات شروع ہوئیں اور 23 جنوری 1958 کو کراچی میں بھی پرنس کریم آغا خان کی رسم تخت نشینی ادا کی گئی۔ اس طرح پرنس کریم آغا خانی یا اسماعیلی مسلمانوں کے 49ویں امام بنے اور آغا خان چہارم کے لقب سے پہچانے جانے لگے۔

یہ تقریب نیشنل سٹیڈیم میں منعقد ہوئی جس میں صدر اسکندر مرزا اور وزیراعظم فیروز خان نون نے بھی شرکت کی۔ تقریب میں پرنس کریم آغا خان کے تقریباً ڈیڑھ لاکھ پیروکار بھی موجود تھے۔

کریم آغا خان 13 دسمبر1936 کو سوئٹزر لینڈ کے شہر جینوا میں پیدا ہوئے تھے۔ کسی مخصوص قطعہ زمین پر تسلط نہ رکھنے کے باوجود وہ ایک ایسے حکمران ثابت ہوئے جو اپنے پیروکاروں کے دلوں پر راج کرتے ہیں اور ان کا کہا حرفِ آخر سمجھا جاتا ہے۔

سنہ 1969 میں پرنس کریم آغا خان نے ایک انگریز خاتون سے شادی کر لی جن کا اسلامی نام سلیمہ رکھا گیا۔ اس شادی کے مہمانوں میں برطانیہ کی شہزادی مارگریٹ، ہالینڈ کی شہزادی برن ہارڈ اور ایران کے شہزادے اشرف پہلوی بھی شامل تھے۔

سلیمہ سے شہزادہ کریم آغا خان کے تین بچے ہوئے: زہرہ آغا خان، رحیم آغا خان اور حسین آغا خان۔ شادی کے 26 سال بعد سنہ 1995 میں دونوں کے درمیان طلاق ہو گئی۔ سنہ 1998 میں کریم آغا خان نے دوسری شادی انارا Inaaraنامی خاتون سے کی جن سے ایک بیٹا علی محمد آغا خان پیدا ہوا، مگر چند سال بعد سنہ 2011 میں ان کی انارا سے بھی طلاق ہو گئی۔

پرنس کریم آغا خان دنیا بھر کے لوگوں کے مالی، علمی اور صحت کے امور میں مدد کرنے کے لیے ہر وقت کمربستہ رہتے ہیں۔ انھوں نے منصب امامت سنبھالنے کے بعد آغا خان ڈیولیپمنٹ نیٹ ورک کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور رفاہی کاموں کے ایک طویل سلسلے کا آغاز کیا جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

یہ ادارہ دنیا کے تقریباً 35 ممالک میں غربت اور انسانی زندگی کا معیار بہتر بنانے میں مصروف عمل ہے۔ آغا خان ڈیولیپمنٹ نیٹ ورک کے ذیلی اداروں میں آغا خان فاؤنڈیشن، آغا خان ہیلتھ سروسز، آغا خان پلاننگ اینڈ بلڈنگ سروسز، آغا خان اکنامک سروسز اور آغا خان ایجنسی فار مائیکرو فنانس شامل ہیں جن کی نگرانی شہزادہ کریم آغا خان خود کرتے ہیں۔

انھوں نے فن تعمیر کے فروغ کے لیے آغا خان آرکیٹیکچر ایوارڈ کا سلسلہ بھی شروع کیا جس سے دنیا بھر میں اسلامی فن تعمیر کو بڑا فروغ ملا۔ ان کے قائم کردہ ادارے آغا خان فاؤنڈیشن نے کراچی میں ایک بڑا ہسپتال اور میڈیکل یونیورسٹی قائم کی جو ملک میں اپنی طرز کی منفرد درسگاہ ہے۔ اس ہسپتال اور یونیورسٹی کا ڈیزائن امریکہ کی آرکیٹکچرل فرم پیٹی انٹرنیشنل Payette Associates نے تیار کیا تھا۔

آغا خان فاؤنڈیشن نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان کی ترقی میں بھی بڑا اہم کردار ادا کیا۔ سنہ 1980 میں آغا خان فاؤنڈیشن نے اس خطے میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام(Rural Support Program)، آغا خان ہیلتھ سروسز اور دیگر فلاحی اداروں کی بنیاد رکھی جو آج بھی اس علاقے کی ترقی اور خوش حالی میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔

آغا خان چہارم کو مختلف ممالک نے متعدد اعزازات اور خطابات سے بھی سرفراز کیا: انھیں 20 ممالک نے اپنے قومی اعزازات سے نوازا ہے اور دنیا کی 19 بہترین یونیورسٹیوں نے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی ہے۔

انھیں جو اعزازات عطا ہوئے ہیں ان میں حکومت برطانیہ کی جانب سے ’ہز ہائی نس‘ کا خطاب اور ’نائٹ کمانڈر آف دی برٹش امپائر‘ کا اعزاز، کینیڈا کی اعزازی شہریت، امریکی اکیڈمی برائے آرٹ اینڈ سائنسز کی فیلو شپ اور حکومت پاکستان کی جانب سے نشان امتیاز کا اعزاز شامل ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے