اس کالم کے ناقدین پرمشتمل ایک طبقے کے بارے میں میری خوش فہمی تھی کہ اس کے ساتھ ابلاغ اب مسئلہ نہیں رہا۔برسوں سے قائم تعلق نے کم ازکم یہ دیوار تو گرا دی۔ مدعا کی تفہیم اب واضح ہے۔اگر وہ اختلاف کریں گے تو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ ’آپ میری بات نہیں سمجھے‘۔اب معلوم ہوا کہ یہ دیوار تو قائم ہے۔میں ہی اپنی بات کی شرح پر قادر نہ ہو سکا۔اس کمی کو پورا کرنے کے لیے، ’توضیحی کالموں‘ کا سلسلہ بھی جاری رکھنا پڑے گا۔ آج کےکالم کو اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھیے۔ آج تعلیم،شعور اور شرح خواندگی پہ بات ہو گی۔
تعلیم سیکھنے کا عمل ہے جو ہمی جہتی ہے۔اس کے بہت سے ذرائع ہیں۔ان میں مشاہدہ ہے،تجربہ ہے،حواسِ خمسہ سے حاصل ہونے والا مواد ہے۔اسی کا ایک ذریعہ وہ رسمی تعلیم بھی ہے جس کا دروازہ حروفِ تہجی کی تعلیم سے کھلتا ہے اور پھر لوگ حسبِ توفیق اس دروازے سے داخل ہو تے اورعلم کی بڑی بڑی بستیوں کی سیاحت میں عمر گزار دیتے ہیں۔ سیکھنے کے اس عمل کو ایک سمت دینا پڑتی ہے۔اس کو شخصی اور سماجی ضرویات سے ہم آہنگ بنایا جا تا ہے۔ گر ایک معاشرے میں کسی خاص شعبے کے ماہرین کی ضرورت ہو تو نئی نسل کو اس طرف لگا دیا جا تا ہے تاکہ تعلیم سماجی بہتری میں ایک کردار ادا کر سکے۔
ایک بات البتہ واضح ہے۔ماہرین کی تیاری سے افضل ،ایک مقصد بھی ہے اور وہ ہے انسان کو مہذب بنانا۔اسے شعورِ حیات عطا کر نا۔اگر کسی فن کا ماہر ،اپنے میدان میں درجہ کمال کو پہنچا ہوا ہو مگر جوہرِ انسانیت سے خالی ہے تو وہ صرف اعلیٰ درجے کا حیوان ہے،اس کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے درست تعلیم وہی ہو تی ہے جو پہلے مرحلے میں انسان کو ایک نظامِ اقدار سے وابستہ کرتی ہے جو اس کے عقلی اور اخلاقی حواس کو بیدار رکھتاہے۔ انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ یہ خدمت مذہب نے سر انجام دی ہے۔مذہب کا وولڈ ویو اخلاقی ہے۔انسانی تاریخ میں پیغمبروںسے بڑا اخلاقی نمونہ پیش نہیں کیا جا سکا۔
یہ اہلِ فلسطین ہوں یا اہلِ کشمیر یا دنیا کا کوئی معاشرہ اور قوم ،جسے نامساعد حالات کا سامنا ہے یا وہ کسی جبر اور ظلم کا شکار ہے اور اسے اس صورتِ حال سے نجات چاہیے تو اسے کیا کر نا چاہیے؟اس سوال کے جواب پر اس کے مستقبل کا انحصار ہے۔یہ جواب تلاش کرنے کے لیے ایک خاص تعلیم کی ضرورت ہے۔ یہ تعلیم الہامی ہدایت ،انسانی تاریخ،سماجی حالات،اسباب،سیاسی واقعات اور اہلِ علم ودانش کے نتائجِ فکر کے علم سے عبارت ہو تی ہے۔کسی حکمتِ عملی کی کامیابی کے دو پیمانے ہیں۔ایک اخلاقی ،دوسرا مادی۔میں اس وقت اخلاقی بحث نہیں اٹھا رہا،صرف اس پہلو سے بات کر رہا ہوں کہ اہل ِ فلسطین وہ کون سے حکمتِ عملی اپنا ئیں جو ان کو منزل تک پہنچا سکے؟اگر منزل دور ہے تو انہیں اس قابل رکھ سکے کہ ان کے پاس زادِ راہ موجود رہے۔ اس وقت تو اثاثہ ختم ہو رہا ہے اور منزل کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ ان کو ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جو انہیں اس کیفیت سے نکالے ۔موجودہ تعلیم یا شرح ِ خواندگی تو ان کے کسی کام نہیں آ سکی۔اندھیرے میں چھلانگ کے علاوہ،انہیں کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا۔
القاعدہ کو افرادی قوت کہاں سے میسر آئی تھی؟جدید تعلیمی اداروں سے ،بالخصوص آئی ٹی جیسے جدید علوم کے ماہرین سے۔امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے جدید ترین نظام کی آنکھوں میں دھول جھونکا آسان نہیں تھا۔وہ یہ کر گزرے۔ڈاکٹر نورین کہاں کی پڑھی ہوئی تھیں؟ ایک عالمی قوت کو برسوں حالتِ اضطراب میں رکھنا مہارت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اس تعلیم کا انجام کیا ہوا؟ دنیا،بالخصوص مسلم دنیا کو ایک نہ ختم ہو نے والے بحران میں مبتلا کرکے،القاعدہ قصہ پارینہ بن چکی۔ معلوم ہوا تعلیم علومِ آلیہ میں مہارت کا نہیں،شعورِ حیات کا نام ہے۔
پھر یہ مقدمہ بھی محلِ نظر ہے کہ سارے فلسطینی حماس کے نقطہ نظر کو درست سمجھتےہیں۔ میرے نقطہ نظر کی تفہیم میں ایک دوسری کمزوری یہ ہے کہ حماس اور فلسطینیوں کو باہم مترادف سمجھا جا رہا ہے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے جیسے سارے ’پڑھے لکھے‘ لوگ حماس کے حامی اور مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔اگر یہ لوگ تعلیم کے حصول میں لگے رہے تو یہ اسی وجہ سے ممکن ہوا کہ ان کی ترجیحات دوسری تھیں۔ان کے نقطہ نظر کا الگ سے جائزہ لینا جا نا چاہیے۔پھر اس کا ایک دوسرا دلچسپ پہلو بھی ہے۔آج ہمارے ہاں حماس کے حامیوں کا ایک طبقہ وہ ہے جو کل یاسر عرفات کا حامی تھا اور اسلام پسندوں کو امریکی ایجنٹ کہتا تھا۔ماضی میں دونوں کا اختلاف تاریخ کا حصہ ہے۔اس وقت جو لوگ سوویت یونین کے نظریاتی خانے سے باہر تھے ،انہیں امریکی ایجنٹ قرار دینے کا رواج تھا۔اخوان اور فلسطین کے اسلام پسندوں کو یہی کہا جا تا تھا۔آج انہیں ہیرو بنایا جا رہا ہے کیونکہ پی ایل او قصہ پارینی بن چکی۔
پاکستان کی نئی ’پڑھی لکھی‘ نسل جس مزاج کی حامل ہے،اس سے بھی یہ مقدمہ ثابت ہو تا ہے کہ تعلیم محض شرحِ خواندگی میں اضافے کا نام نہیں۔ میرا یہ احساس پختہ ہو تا جا رہاہے کہ پچھلے تیس برس میں ہم نے تعلیم کو جس طرح روزگار اور مادی ترقی کا ایک اوزار بنا رکھا ہے اور اخلاقی و سماجی شعور کی تعلیم کوکم تر ثابت کرنے کی ریاستی کوشش کی ہے،اس نے نئی نسل کو ذھنی طور پر پست بنا دیا ہے۔سماجی ،عقلی اور مذہبی و اخلاقی علوم کی بے توقیری کی گئی کہ ان کا کوئی مصرف نہیں۔پرویز مشرف صاحب اس کے سب سے بڑے داعی تھے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ سطحی تجزیے اور سماجی تعمیر کے تقاضوں سے بے خبری میں بے پناہ اضافہ ہو چکا۔ دوسری طرف مادی ترقی کا حال بھی سامنے ہے۔
فلسطین کی آزادی کا سوال آج نظری نہیں رہا۔ایک حکمتِ عملی نے اسے یہاں تک پہنچایا ہے۔یہ ایک تجربہ ہے جو کیا جا چکا۔ ستر اسی برس بعد تو یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہو نا چاہیے کہ جو حکمتِ عملی اپنائی گئی،اس کے کیا نتائج نکلے؟یہ کیسی تعلیم ہے کہ اس کا بھی فیصلہ نہ کر سکے؟اگر یہ کامیاب رہی تو اس کامیابی کے نشان کہاں ہیں؟بدقسمتی سے ناکامی کے آثار اب سرز مین ِفلسطین کے قدم قدم پر ثبت ہیں۔ ان سوالات پر غور کے لیے ہمیں تعلیم اور شعور کا فرق سمجھنا ہوگا۔جو تعلیم شعور پیدا نہ کر سکے،وہ ایک قوم کے کسی کام کی نہیں۔شرحِ خواندگی میں اضافہ تعلیم نہیں ہے۔ ہمارے ہاں آج بھی تعلیمی ایمرجنسی نافذ ہو تی ہے کہ کروڑوں بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہے۔اہم تر سوال یہ ہے کہ اگر انہیں ہم تعلیمی اداروں کے اندر لے آئے تو کیا تبدیلی آئے گی؟
کاش مسلمانوں میں ایسے سنجیدہ فورمز ہوں جہاں ان کو درپیش مسائل عقلی،منطقی اور اخلاقی تقاضوں کے ساتھ زیرِ بحث آئیں۔کل کا فلسطین ،آج کے فلسطین سے بہتر ہو۔کل کا کشمیر،آج کے کشمیر سے بہتر ہو۔ ہرآنے والا دن امید لے کر آئے ۔خدا کے لیے موت کو گلیمرائز نہ کرو۔مسلمانوں کو زندگی کا پیغام دو۔ظلم سے نمٹنے کے لیے جرات اور خود کشی کے فرق کو سمجھو۔ کاش فلسطینیوں کو بھی ایسی قیادت نصیب ہو جو ان کو پہلے مرحلے میں جمع کرے اور پھر ایک حکمتِ عملی پر یکسو کردے جو ان کے لیے پیغامِ حیات ہو۔