شہنشاہ ٹرائے مینی لیوس کو جب پتا چلا کہ پیرس اس کی محبوب بیوی ہیلن آف ٹرائے کو لے گیا ہے تو اس نے فوری رد عمل دینے کی بجائے تحمل سے کام لیا اور میسینائے کے بادشاہ ایگا میمنن کے پاس جانے کا فیصلہ کیا جو مینی لیوس کا بھائی تھا۔ جب مینی لیوس نے سارا واقعہ آیگا میمنن کے گوش گزار کیا تو اپنے بھائی کے ساتھ ہونے والی بے عزتی کے بارے میں سن کر ایگا میمنن کی بھی غیرت جاگ اٹھی لیکن وہ ٹرائے جیسی عظیم طاقت سے جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا ، تو اس نے مینی لیوس کو تحمل سے رہنے کا مشورہ دیا اور پورے یونان میں اپنے سفیر دوڑا دئیے ، یوں آیگا میمنن کے سفیروں نے مینی لیوس کے ساتھ ہوئی بے عزتی کو یونان کی بے عزتی بنا کر پیش کیا۔
یوں اس نے اہلِ یونان کے بادشاہوں کو ٹرائے کے خلاف جنگ لڑنے پر آمادہ کر لیا۔ یونان کے جنگجو مینی لیوس کی قیادت میں ٹرائے کی جانب حملے کے لیے روانہ ہوئے۔ اور یونان کے ہر شہر سے بہادر لوگ فوج میں شامل ہوتے چلے گئے ، خصوصاً اس زمانے میں یونان میں ایک ” اوڈسیوس “ نامی شخص کافی مشہور تھا ، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ جس فوج میں اوڈسیوس شامل ہوتا ہے اس فوج کو شکست دینا ناممکن ہوتا ہے۔ یوں اوڈسیوس سمیت یونانیوں کے لشکر جرار نے ٹرائے پر دھاوا بول دیا۔ مگر یونانیوں کو جلد معلوم ہو گیا کہ جنگ شروع کرنا آسان ہے ، مگر جیتنا بہت مشکل ہے۔ چونکہ ٹرائے کے بادشاہ پرئیم نے ایشیائے کوچک کے علاقوں اور سر زمین یونان پر واقع تھریس سے بہادر لوگ بھر تی ہو کر آئے تھے۔ جن سے ایک بہت بڑی فوج جمع کر رکھی تھی اور ٹرائے کے ان جری بہادروں کی مزاحمت نے یونانی فوج کو ناکوں چنت چبوانا شروع کر دئیے۔
وقت گزرتا گیا ، ٹرائے اور یونان کی فوجیں وقفے وقفے سے ایک دوسرے پر حملہ کرتی رہیں ، لیکن کوئی بھی لڑائی فیصلہ کن ثابت نہ ہوسکی۔ یوں یونان کی فوجیں قومی غیرت کی آگ بجھائے بغیر واپس جانے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ جبکہ ٹرائے کی دیواریں اتنی مضبوط تھیں اور رسد کا نظام اتنا اعلیٰ تھا کہ سالوں کی ناکہ بندی کے باوجود ٹرائے کے شہریوں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑرہا تھا۔ یہ جنگ دس سال تک جاری رہی اور اس جنگ میں بے شمار لوگ مارے گئے۔لڑائی اس قدر خوفناک تھی کہ آسمانوں پر بیٹھے دیوی اور دیوتا بھی اس جنگ سے الگ نہ رہ سکے۔ ان میں سے کچھ سپارٹا کے ساتھ ہو لیے ، اور کچھ ٹرائے کے ساتھ مل گئے۔
لڑائی میں پیرس کا بڑا بھائی ہیکٹر بھی مارا گیا۔ مگر ٹرائے کے شہریوں نے شکست نہ مانی اور اپنے آپ کو ٹرائے کے قلعے میں محصور کئے رکھا۔ یونانیوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ فصیل شہر کو کیسے توڑا جائے؟ ایک تو وہ اپنے ملک سے بہت دور اور پھر رسد سے بھی محروم ہو چکے تھے ، اس لیے انہیں ٹرائے کے اردگرد پھیلے چھوٹے قصبوں پر خوراک کی خاطر حملہ کرنا پڑتا تھا۔ ہر طرف سے ناکامی کے بعد سپارٹا کے فوجیوں نے ایک ایسی شاطرانہ چال چلی کہ جس کا اہل ٹرائے کو گمان تک نہ تھا۔ یوں یونانیوں نے لکڑی کا ایک عظیم الجثہ گھوڑا تیار کیا جو اندر سے کھوکھلا تھا۔اس جنگی چال کے پیچھے یونان کے بہادر اور دانا شخص ”اوڈسیوس“ کا ہاتھ تھا۔ سپارٹا کی یونانی فوج نے ٹرائے کی فوج کو بظاہر یہ تاثر دیا کہ وہ شہر کی فصیل کے سامنے لکڑی کا گھوڑا چھوڑ کر بد دل ہو کر محاصرہ ہٹا کر اپنے بحری جہازوں پر سوار ہو کر واپس سپارٹا جا رہے ہیں ،مگر جہازوں کو ٹرائے والوں کی نظروں سے اوجھل کرنے کے بعد انہوں نے ایک گھاٹی میں جاکر گھات لگا کر رات کا انتظار کیا۔
یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا ؛ جس کے مطابق سپارٹا (یونان) کے سپاہیوں نے اپنے بنائے گھوڑے کو ٹرائے شہر کے صدر دروازے کے سامنے کھڑا کرکے اپنے جہازوں کو ساحل سمندر سے ہٹا کر دورسمندر میں غائب ہوجانا تھا۔ اور انہوں نے سب کچھ اپنے منصوبے کے مطابق سرنجام دیا۔
جب ٹرائے کے شہریوں نے اگلی سحر شہر کے دروازے پر ایک بڑا لکڑی کا گھوڑا دیکھا تو سخت پریشان ہو گئے۔ وہ شہر کی دیوار سے جھانک جھانک کر اسے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ سپارٹا کے فوجی اور بڑے جہاز کہیں دور دور تک نظر نہیں آرہے ۔ یوں سارا دن اسی طرح گزر گیا ، مگر سپارٹا کے سپاہیوں کا کوئی نام ونشان دیکھائی نہ دے رہا تھا۔ صرف لکڑی کا ایک گھوڑا فصیل کے سامنے کھڑ اتھا۔ تو ٹرائے کے شہری حیران ہوگئے کہ آخر اچانک سپارٹا والے کہاں اور کیوں غائب ہوگئے ہیں؟؟؟
انہوں نے سوچا کہ شاید وہ اتنے لمبے عرصہ کی جنگ سے تھک کر ہار مان لی ہوگی گئے اور اچانک واپس چلے جانے کا فیصلہ کرلیا ہو گا اور لکڑی کے گھوڑے کے بارے میں سب کا یہی خیال تھا کہ سپارٹا والے ایک نشانی کے طور پر شہر کے دروازے پر اسے چھوڑ گئے ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ لکڑی کا یہ گھوڑا یونانیوں کی جانب سے سمندر کے دیوتا پوسیڈون کے لیے ایک نذرانہ ہے۔ تاکہ ان کا واپسی کا سفر بحفاظت سے گزرے۔ وہ اس گھوڑے کو شہر میں لے گئے تاکہ سمندری دیوتا پوسیڈون اپنے نذرانے کی اس بے قدری پر یونانیوں سے ناراض ہوکر ان کے واپسی کے سفر کو اپنے قہر کا نشانہ بنائے۔ لیکن لکڑی کا یہ عظیم الجثہ گھوڑا اندر سے کھوکھلا تھا جس میں اوڈسیوس اور اس کے بہادر فوجی گھات لگائے چھپے بیٹھے تھے۔ اگلے دن ٹرائے کے شہریوں نے جب شہر کا دروازہ کھولا اور لکڑی کے گھوڑے کودھکیلتے ہوئے شہر کے اندر لے آئے۔ تو سب لوگ گھوڑے کے ارد گرد ناچ رہے تھے اور سپارٹا والوں کے جنگ سے بھاگ جانے کا جشن منا رہے تھے۔ یہ لوگ اس بات پر خوش تھے کہ بالآخر ایک طویل جنگ کا خاتمہ ہو گیا ، اور مینی لیوس کا لشکر ہار کر ہیلن کو بازیاب کروائے بغیر واپس سپارٹا چلا گیا ہے۔ سارا دن پورے شہر میں جشن منایا جاتا رہا۔شام ہوتے ہی سب لوگ تھک ہار کرسوگئے۔
تو آدھی رات کے وقت جب ٹرائے شہر خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا ، حتیٰ کہ جشن سے کی تھکن سے ٹرائے کے محافظ بھی میٹھی نیند سو چکے تھے۔ تو منصوبے کے مطابق سپارٹا کے سپاہی اور ان کے جنگی جہاز ٹرائے شہر کی طرف واپس لوٹ آئے اور انہوں نے پھر سے ٹرائے شہر کا محاصرہ کرلیا۔ لکڑی کے گھوڑے میں چھپے فوجی خاموشی سے باہر نکلے ، اور انہوں نے سب سے پہلے شہر کے سارے دروازے اپنی فوج کیلیے کھول کر سپارٹا کی فوج کو شہر میں گھسایا ۔ یہ ایک بہت ہی شاطرانہ انداز سے ترتیب دیا گیا شبِ خون تھا۔ ٹرائے کے شہریوں پر رات کی تاریکی میں یونانی فوجوں نے زبردست حملہ کیا اور ان کے تمام سورماؤں کو تہہ تیغ کردیا گیا ، عورتوں اور بچوں کو غلام بنا نے کے بعد شہر کو آگ لگا کر راکھ میں تبدیل کردیا۔ ٹرائے کا بادشاہ پریئم بھی مندر میں عبادت کرتے ہوئے قتل ہوگیا تھا ، ہیلن کا عاشق پیرس بھی مارا گیا۔ یوں سپارٹا کابادشاہ مینی لیوس ایک فاتح کی حیثیت سے اپنی ملکہ ہیلن کو وہاں سے لے کر واپس سپارٹا چلا آیا۔ ٹرائے شہر کی مکمل تباہی اور ہیلن کی واپسی کے بعد دس سال تک جاری رہنے والی جنگ ٹروجن اختتام پذیر ہوگئی۔
سپارٹا اور ٹرائے جیسی دو عظیم طاقتوں کے درمیان دس سال تک جاری رہنے والی مشہور جنگ ” ٹروجن “ کی وجہ ایک خوبصورت عورت ” ہیلن “ تھی جسے یونانی اساطیری کہانیوں میں اپنے وقت کی خوبصورت ترین عورت قرار دیا گیا ہے اور ہیلن کی اسی خوبصورتی کی بنا پر دیوتاؤں کی دس سالہ طویل جنگ ہزاروں ہلاکتوں اور ایک شہر کی مکمل تباہی و بربادی کا سبب بنی تھی۔
ٹروجن کی جنگ میں ٹرائے نام کا جو شہر جل کر خاکستر ہوا تھا کہا جاتا ہے کہ وہ موجودہ ملک ترکی کا شہر ” انا طولیہ“ تھا۔
ہیلن آف ٹرائے کا انجام؛
تاریخ میں کہیں بھی ہیلن آف ٹرائے کا انجام یا اس کی موت کے بارے میں واضع نہیں لکھا گیا جبکہ جو انجام میں نے پندرہ سال پہلے پڑھا تھا۔ وہ کہیں میرے ذہن کے دامن میں رہ گیا تھا ۔
جس کے مطابق مینی لیوس کو اپنی بیوی کی بے وفائی کی وجہ سے عورت ذات سے ہی شدید نفرت ہوچکی تھی۔ لہٰذا اس نے دنیا کی خوبصورت ترین عورت ہیلن آف ٹرائے کو درد ناک موت دینے کا اعلان کیا اور حکم دیا کہ تمام رعایا پتھروں سمیت چوراہے پر ہیلن آف ٹرائے کا انجام دیکھنے کے لیے مقرر کردہ وقت پر موجود ہو۔
متعین کردہ وقت اور دن کے مطابق ہیلن آف ٹرائے کو چوراہے میں ایک ستون کے ساتھ برہنہ حالت میں باندھا گیا اور وہاں موجود تمام لوگوں کو ہیلن آف ٹرائے پر سنگ ریزی کا حکم دیا گیا۔ جس سے حسین ترین عورت ہیلن آف ٹرائے کا حسن بد ترین انداز سے داغدار کرنے کے ساتھ اسکو درد ناک موت سے دوچار کرکے تاریخ رقم کی گئی کہ بے وفائی کا انجام کتنا درد ناک ہوگا۔
یوں ہیلن آف ٹرائے کا یہ انجام سالوں سے مجھے افسردہ کیے ہوئے ہے۔
ہیلن آف ٹرائے کی داستاں جن کتب میں لکھی گئی ہے وہ یہ ہیں ؛
1. The Song of Achilles” by Madeline Miller:
2. Helen of Troy: Beauty, Myth, Devastation” by Ruby Blondell
3. Helen of Troy” by Margaret George:
4. The Memoirs of Helen of Troy” by Amanda Elyot (Amada Dilair):
5. Helen of Troy: Goddess, Princess, Whore” by Bettany Hughes:
ہیلن آف ٹرائے کا درد ناک انجام ہمیں بتاتا ہے کہ اختتام دراصل کرداروں کا ہوتا ہے کہانیوں کا نہیں۔ ہیپی اینڈنگ کا صرف سوچ ، خیال یا گمان ہوسکتا ہے حقیقت نہیں کیونکہ کرداروں کا اختتامیہ کبھی بھی ہیپی اینڈنگ پر نہیں ہوتا۔
Yeah Helena makes me Immortal.♥️