مذہب، بحث کا ایک مقبول موضو ع ہے۔ہمیشہ ہی تھا مگر ابلاغ کے نئے ذرائع نے اس میں وسعت پیدا کر دی ہے۔اس کے نتیجے میں ،بعض عمدہ بحثیں بھی پڑھنے کو مل جاتی ہیں۔رطب و یابس البتہ بہت ہے۔ ان مباحث پر نظر ڈالنے سے جو تاثر ابھرا،مجھے خیال ہوا کہ اس کا اظہار کر دینا چاہیے۔ مذہب چونکہ ہماری سماجی بنت کا حصہ ہے،اس لیے،یہ ناگزیر ہے کہ بات داخلی سیاست کی ہو یا مسئلہ فلسطین کی،کہیں نہ کہیں مذہبی حوالہ ضرور پایا جا تا ہے۔ گویا معاملات کے فہم سے،ہماری مذہبی تفہیم کا تعلق بہت گہرا ہے۔
ان مباحث میں شریک مذہبی گروہوں کو کئی طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔میں یہاں بطور خاص تین کا ذکر کروں گا ۔لوگ ان سے واقف ہیں لیکن شاید ان کے خدو خال کا پوری طرح تعین نہیں کر سکے۔ایک طبقہ وہ ہے جو علمِ جدید کے مقابلے میں ذھنی طور پر ہار تسلیم کر چکا ہے مگر اس کے اعتراف سے گریزاں ہے۔وہ مذہب کے دامن کو بچاتے ہوئے،اس شکست کو مختلف عوامل سے منسوب کر نا چاہتا ہے۔مثال کے طور پر وہ یہ کہتا ہوا پایا جا ئے گا کہ مذہب کا مقدمہ تو برحق ہے مگر اِس کو اچھے وکیل نہیں مل سکے۔ پھر وہ مذہب کے جدید وکلا پر نقد کر کے بتائے گا کہ وہ تو دراصل استعمار کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔فلاں روایت کے نام پر کھڑا ہے لیکن روایت کا حقیقی نمائندہ نہیں ہے۔ اس طبقے کا اپنا رجحان روایت کی طرف ہے مگر وہ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اس کا تصورِ روایت ہے کیا اور وہ معروف روایتی گروہ سے کیسے مختلف ہے؟
دوسرا طبقہ وہ ہے جو خود کو روایتی کہتا ہے اور اس کے نزدیک روایت سے وابستگی سے مراد تقلید ہے۔ وہ منطق و مناظرےکے پرانے ہتھیاروں کے ساتھ مذہب کا مقدمہ پیش کرتا ہے۔زبان جدید ہے ،جدید علوم اور ضروریات سے بھی کچھ آگاہی ہے۔ اس لیے ایک عام مذہبی ذہن اس کو آسانی سے قبول کر لیتا ہے جو روایت سے وابستگی ہی میں خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ قدیم مفسرین و فقہا نے فہمِ دین کے باب میں اصول و اطلاق کی سطح پر ضروری کام کر دیا ہے۔اس میں کسی قابلِ ذکراضافے کی ضرورت نہیں۔ اس کا کام بس اتنا ہے کہ اسے نئے دلائل فراہم کر دے۔ یہ احساس اتنا گہرا ہے کہ یہ طبقہ ہر مختلف بات کو رد کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتا ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تردید اس کے نزدیک حفاظتِ دین کے لیے لازم ہے۔ ٹھیٹھ روایتی طبقہ جدیدمنہاجِ تفہیم کی تردید کے لیے،اس طبقے کا سہارا لیتا ہے۔
پہلاطبقہ دوسرے کےمقابلے میں ذھنی طور پر برتر جگہ پر کھڑا ہے۔کم از کم اپنی کمزوری اور مذہب کو درپیش چیلنج کی نوعیت سے تو آگاہ ہے۔اسے مگر یہ اندازہ نہیں ہو رہا ہے کہ مذہب کا مقدمہ دراصل کہاں سے اٹھے گا؟خارج سے یا داخل سے؟اگر خارج سے اٹھنا ہے تو نئے عہد کا خمیر اس کے لیے سازگار نہیں۔اگر داخل سے اٹھنا ہے تو پھر فہمِ دین کی روایت پر نظر ثانی کے سوا چارہ نہیں۔اس پر یہ طبقہ آمادہ نہیں کیونکہ جوہری طور پر روایتی ہونے کی وجہ سے،وہ اس اندیشے میں مبتلا کہ اس عمل کے دوران میں،کہیں روایت کا سرا ہی ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
تیسرا طبقہ وہ ہے جس کا اصرار ہے کہ دین کے باب میں فیصلہ کن حیثیت اللہ کے رسول ﷺ کی ہے۔ دین کو سمجھنے کے لیے ،دو کام ناگزیر ہیں۔ایک تو ساری سعی و جہد اس پر صرف کی جائے کہ دین کے باب میں کہی گئی بات کی سند ،یقینی طور پر اللہ کے پیغمبر سے مل جائے۔دوسرا یہ کہ دینی متون کی تفہیم میں ان اصولوں کو بنیاد بنایا جائے جو زبان و بیان کے مسلمات اور عقلِ عام کے مطابق ہوں۔ایک بات کو دین قرار دینے کے یہی دو طریقے ہیں۔یہ دین کو اس کے داخلی ماخذ سے سمجھنا ہے۔روایت،عقل و منطق،علمِ جدید،انسانی تفہیم،سب اس کے تابع ہیں۔ دین کو کسی خارجی اصول یا ضرورت کے تابع نہیں کیا جا سکتا۔اس کی حقیقت اس کے داخل ہی سے متعین ہو گی۔خارجی حالات کی رعایت کے لیے بھی دینی متون کے داخل میں جھانکنا ہو گا۔قرآن مجید خود میزان ہے۔کوئی انسانی علم یا تفہیم اس پر حاکم نہیں۔
پہلا طبقہ شدید ابہام کا شکار ہے اور کسی حتمی رائے تک نہیں پہنچ پا یا۔اس کا اضطراب واضح ہے۔ علمِ جدید نے،اس کے خیال میں، ایسا جال بُن دیا ہے کہ اب وہ دین کے نام پر پیش کی جا نے والی ہر بات کو شک کی نظر سے دیکھتا اور اس خدشے میں مبتلا رہتا ہے کہ کہیں یہ استعمار کی کوئی سازش نہ ہو۔اس طبقے کا اعتماد بری طرح مجروح ہوا ہے۔ دوسرا طبقہ پُر اعتماد ہے،اگرچہ اس کے رویے کی جارحیت بتاتی ہے کہ وہ بھی ان دیکھے اندیشوں میں گھرا ہوا ہے۔ان اندیشوں کا سامنا وہ اپنے جارحانہ انداز سے کرنا چاہتا ہے۔چونکہ مناظرے پر یقین رکھتا ہے اس لیے اس معرکے میں،ہر ہتھیار کا استعمال جائز سمجھتا ہے۔
تیسرا طبقہ سب سے سہل جگہ پر کھڑا ہے۔اس پر کسی قول،علم یا رائے کے دفاع کا کوئی بوجھ نہیں۔اس کے نزدیک چونکہ علم کے نام پر پیش کی جا نے والی کوئی بات تنقید کے امکان سے خالی نہیں،اس لیے اسے اگر اپنی رائے سےرجوع کرنا پڑے تو اسے کوئی تکلف محسوس نہیں ہو تا۔اس کا انحصار صرف اس پر ہو تا ہے کہ نبی ﷺ سے سند کی نسبت میں ضعف نہ ہو اور بات کی تفہیم زبان و بیان اور عقلی مسلمات کے مطابق ہو۔اس وجہ سے اسے ایسا اعتماد حاصل ہے کہ علم کی دنیا میں ،وہ بالعموم ہر چیلنج کا سامنا کر سکتا ہے۔کسی خاص رائے کا دفاع اس کی مجبوری نہیں ہے۔اس فکری آزادی نےاس طبقے کو ایک بحرِرواں کی لہر بنا دیا ہے جس کا سفر رکھتا نہیں۔
کچھ طبقات اور بھی ہیں،جن میں بطورِ خاص تقلید کا مسلک ہے۔ یہ سوادِ اعظم ہے۔ یہ طبقہ عام طور پر زمان و مکان کے تقاضوں سے بے نیاز ہو تا ہے۔اس کے پاس ایک کتاب ا لحیل ہوتی ہے جس سے ضروری پڑھنے پر فتویٰ لے سکتا اور اپنا کام چلا سکتا ہے۔چونکہ یہ عوامی دین کا ترجمان ہے، اس لیے اسے عام طور پر بقا کا مسئلہ در پیش نہیں ہو تا۔ اسے ان مباحث سے کم دلچسپی ہو تی ہے،جو کسی عہد کی علمی روایت کو متاثر کر تے ہیں۔اس کی عصبیت برقرار رہتی ہے اور عامتہ الناس اس سے وابستہ رہتے ہیں۔
ان سب طبقات کی موجودگی افادیت سے خالی نہیں۔تاہم تدبر سے یہ جانا جا سکتا ہے کہ کون سا طبقہ زیادہ محفوظ جگہ پر کھڑا ہے۔ان طبقات میں ضروریاتِ دین کےباب میں کوئی اختلاف نہیں۔فرق صرف زاویہ نظر میں ہے جو نتائجِ فکر پر اثر انداز ہو تا ہے۔اس سے ایک تصوِ حیات پیدا ہو تا ہے اور وہ اپنی جگہ بہت اہم ہے۔اگر مقصدِ حیات کے تعین میں غلطی لگ جائے تو بظاہر یکساں دکھائی دینے والی تعلیمات مختلف نتائج تک لے جا تی ہیں۔نماز سب ایک طرح سے پڑھ رہے ہوتے ہیں مگر کسی کے لیے اس کی نوعیت ایک ٹرینننگ کی ہوتی ہے اورکسی کے لیے مطلوب کی۔یہ فرق معمولی نہیں۔اس کو سمجھا جا سکے تو پھراس بات کی تفہیم آسان ہو جا تی ہے کہ دین پر غور کا منہج کتنا اہم ہے۔