رنگوں کا منیر، بجھ گیا

وہ جنوری 2022 کا ایک خوبصورت دن تھا. ہم ڈھرنال کی جانب محو سفر تھے. میرا ماموں زاد بھائی، میرا ہم سفر تھا. اُس روز ہم ڈھرنال میں سنگلاخ چٹانوں اور پتھروں کے مصور، مصور منیر کے مہمان تھے. مصور منیر صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچے تو وہ اپنے بیٹے، مصور شکیل کے ہمراہ ہمارے منتظر تھے. نہایت گرمجوشی اور شفقت سے ہمارا استقبال کیا.

ہم اُن کے ہمراہ مہمان خانے کی جانب چل پڑے. مہمان خانہ کیا تھا، رنگوں سے سجا ایک طلسم کدہ تھا.

جا بجا مصور منیر صاحب کے شاہکار فن پارے بکھرے تھے. رنگوں اور عقیدت کی خوشبو مہک رہی تھی. مصور منیر صاحب نے اپنی زندگی اور فن کے سارے سفر کی داستان سنائی جو دیواروں پر کوئلے سے آڑی ترچھی لکیریں کھینچنے سے شروع ہوا.

مصور منیر صاحب نے بتایا کہ جب ابتداً انہوں نے مصوری سیکھنے کا ارادہ کیا تو ایک اکیڈمی میں گئے جہاں مصوری کا فن سکھایا جاتا تھا. وہاں انٹرویو لینے والے نے پوچھا کہ آپ کہاں سے ہیں؟ مصور منیر صاحب نے بتایا کہ میرا تعلق ڈھرنال سے ہے. یہ سن کر وہ صاحب کہنے لگے کہ؛

تمہارا تعلق جس علاقے سے ہے، تمہارے ہاتھوں میں رنگ اور برش نہیں بلکہ اسلحہ جچتا ہے.

دراصل اُن دنوں اسی ڈھرنال سے تعلق رکھنے والے، محمد خان کے نام کا خوب چرچا تھا. جسے لوگ محمد خان ڈاکو کے نام سے جانتے ہیں. حالانکہ محمد خان ڈاکو تھا نہیں بلکہ وہ ایک انصاف پسند، رحمدل اور اصولی شخص تھا جسے ناانصافیوں کے خلاف اور اپنی اور اپنے پیاروں کی حفاظت کے لیے ہتھیار اٹھانا پڑے. محمد خان کی تفصیلی کہانی پھر کبھی سہی.

یہ سنتے ہی مصور منیر صاحب نے نہ صرف اس اکیڈمی میں داخلہ لینے کا فیصلہ ترک کیا بلکہ کسی سے بھی فن مصوری نہ سیکھنے کا فیصلہ کیا.

زندگی کے شب و روز گزرتے رہے اور ڈھرنال کا منیر احمد تنہا فن مصوری کے زینے چڑھتا رہا. چڑھتے چڑھتے اتنا بلند ہو گیا کہ عالمی اُفق پر جگمگانے لگا. عالمی سطح پر جانا، پہچانا اور سراہا جانے لگا.

پاکستان میں گولڈ میڈل حاصل کیا. 1993 میں رائل اکیڈمی آف لندن میں بین الاقوامی نمائش میں حصہ لیا. 2001 میں کوینکا فوٹوگرافی کے ایشیائی مقابلوں میں حصہ لیا اور سنگاپور ایشیاء فرسٹ ایوارڈ حاصل کیا. اس کے علاوہ جاپان میں کونیکا سنچوریا عالمی مقابلے میں بھی فرسٹ ایوارڈ حاصل کیا.

یوں اپنے فن سے، اپنی محنت، لگن اور خلوص سے ڈھرنال کے منیر احمد نے ڈھرنال کا تعارف بدل دیا.

ملاقات کے بعد مصور منیر صاحب نے اپنی رہائش گاہ پر قائم آرٹ گیلری کا دورہ کروایا اور اپنے بیسیوں فن پارے دکھائے. بعدازاں اُن کے صاحبزادے نے المصور اکیڈمی کا دورہ کروایا جہاں وہ نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ فن مصوری، خطاطی اور دیگر فنون اگلی نسلوں میں منتقل کر رہے ہیں.

اکیڈمی کے مختلف حصوں کا دورہ کرنے کے بعد ہم واپس پلٹ آئے.

کاروانِ حیات چلتا رہا اور جنوری 2025 کی ایک شام آ گئی کہ جب مجھے یہ خبر ملی کہ مصوری کا منیر بجھ گیا ہے. یہ خبر سن کر بہت دکھ ہوا کہ ہمارا علاقہ بلکہ ہمارا ملک ایک تعمیری اور تخلیقی سوچ رکھنے والے عظیم انسان سے محروم ہو گیا ہے . اُس روز بھی مصور منیر صاحب تلہ گنگ کے جناح ہال میں تلہ گنگ آرٹس سوسائٹی کی تقریب میں محو گفتگو تھے. تقریر ختم کر کے اپنی نشست پر بیٹھے تو اچانک حرکت قلب بند ہو گئی اور وہیں اُن کا انتقال ہو گیا.

مصور منیر صاحب کے آخری الفاظ یہ تھے؛
وقت کم ہے، روح کے لیے کچھ کر لے!
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
میں دعا گو ہوں کہ خدا وند متعال ،مصور منیر صاحب کی کامل بخشش و مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے. آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے