کیا ہم واقعی عزت دار اور باوقار قوم کہلانے کے قابل ہیں؟ ہماری سنجیدگی، ہمارے وقار اور ہماری قومی حمیت کا عالم یہ ہے کہ جب ہمارے حکمران دوسرے ممالک کے دورے پر جاتے ہیں، تو ان کا استقبال کسی سربراہِ مملکت، وزیر، یا کسی اعلیٰ سطحی حکومتی نمائندے کی بجائے کوئی درمیانے درجے کا سرکاری افسر یا کبھی کبھار کوئی کاروباری شخصیت کرتی ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ عالمی برادری میں ہماری حیثیت کیا ہے، اور ہم خود کو کتنا قابلِ احترام بنا پائے ہیں۔
مگر ہمارا اصل مسئلہ یہ نہیں کہ ہمیں عزت کیوں نہیں ملتی، بلکہ یہ ہے کہ ہم خود اپنی عزت کا خیال رکھنے میں کس حد تک ناکام ہو چکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک امریکی خاتون جو شکل و صورت اور تمیز تہذیب میں بالکل بخشی ھوئی ھیں پاکستان آئیں، جن کی آمد کا بظاہر کوئی خاص مقصد نہیں تھا، سوائے اس کے کہ وہ مبینہ طور پر ایک پاکستانی لڑکے کی محبت میں گرفتار ہو کر یہاں پہنچی تھیں۔ حیرت کی بات یہ نہیں کہ ایک غیر ملکی خاتون پاکستان آئیں ، بلکہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے میڈیا، سوشل میڈیا اور حتیٰ کہ حکومتی نمائندوں نے اس واقعے کو ایسا رنگ دیا جیسے یہ کوئی قومی اہمیت کا معاملہ ہو۔
یہ خاتون نہ کسی سفارتی مشن کا حصہ تھیں، نہ کوئی بین الاقوامی شخصیت، نہ کوئی سرمایہ کار، اور نہ ہی کوئی ایسی ہستی جن کی آمد سے پاکستان کو کوئی فائدہ پہنچتا۔ اس کے باوجود سندھ کے گورنر، کراچی کے میئر، اور کئی دیگر سرکاری شخصیات نے اس معاملے پر بیانات دیئے، ویڈیوز بنوائیں، اور عوامی فورمز پر اپنی آرا کا اظہار کیا۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا، تو شاید یہ ایک عام سا واقعہ ہوتا جو چند دن میں بھلا دیا جاتا، مگر ہماری غیر سنجیدگی اور مسخرہ پن نے اسے ایک قومی مذاق بنا دیا۔
یہ سب دیکھ کر لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں ترجیحات کا شدید فقدان ہے۔ اگر یہی سنجیدگی اور دلچسپی ہمارے حکمران ملکی ترقی، معیشت، تعلیم، صحت، اور سفارتی تعلقات جیسے معاملات میں دکھاتے، تو آج ہمارے مسائل کی شدت کچھ کم ہو چکی ہوتی۔ لیکن افسوس، ہم وہ قوم ہیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے واقعات کو اصل قومی معاملات سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
اس معاملے کو دیکھ کر سب سے زیادہ افسوس اس وقت ہوا جب ہمارا ایک سنجیدہ اور سفید ریش بابا بھی اس "تماشے” میں شامل ہوکر اپنی رھی سہی عزت کا تماشا بنا بیٹھا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر اس معاملے میں کوئی قانونی پیچیدگی تھی تو ایف آئی اے اس کا نوٹس لیتی، خاتون کا ویزہ اگر غیر قانونی تھا تو اسے ڈیپورٹ کر دیا جاتا، اور معاملہ وہیں ختم ہو جاتا۔ مگر ایسا کرنے کی بجائے ہم نے اپنی قومی عزت کو خود ہی نیلام کر دیا۔
یہاں پر وہ محاورہ یاد آتا ہے کہ "ملکوں کی کتیا کاموں اور نوکروں کے لیے مالکن ہی ہوتی ہے "۔ ہم نے خود کو اس حد تک غیر سنجیدہ بنا لیا ہے کہ ایک غیر اہم واقعے پر پورا ملک تماشہ دیکھنے میں مصروف ہو جاتا ہے، جبکہ اصل مسائل پسِ پردہ چلے جاتے ہیں۔ ہم اپنی اخلاقی اور سفارتی اقدار کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ نہ صرف باعثِ شرم ہے بلکہ ہمارے زوال کی رفتار کو مزید تیز کر رہا ہے۔
اصل سوال یہ نہیں کہ اس امریکی خاتون کا پاکستان آنا درست تھا یا غلط، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ہم نے اپنے ہی وقار کو کیوں اور کیسے اتنا ارزاں کر دیا؟ کیا ہمیں واقعی کوئی شرم آئے گی؟ یا ہم اسی غیر سنجیدگی میں مزید پستی کی طرف بڑھتے جائیں گے؟