سرکار فلم میں امیتابھ بچن کا ایک مشہور ڈائیلاگ ہے، ”نزدیکی فائدے سے پہلے دور کا نقصان سوچو” یہ ڈائیلاگ سن پتا نہیں کیوں ہمیشہ میرے ذہن میں استاد محترم نصرت جاوید صاحب آتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ڈائیلاگ استادِ محترم نصرت جاوید صاحب کو ذہن میں رکھ کر لکھا گیا ہوگا۔
جب ہم لوگ آج ٹی وی سے ”بولتا پاکستان” کیا کرتے تھے، تو اس وقت بھی نصرت جاوید صاحب نیوز چینلز کے مستقبل سے خاصے مایوس رہا کرتے تھے۔ اور اکثر کہا کرتے تھے کہ عنقریب یہ دکان بند ہوجائے گی تو پھر کیا ہوگا۔
تب ہم نے ایک نیا پروگرام سوچا تھا ”Nusrat Can Cook Also” مجھے لگتا ہے کہ اب وہ وقت واقعی آ گیا ہے کہ استادِ محترم کو یہ پروگرام کرنا پڑے گا۔
پیکا قانون کے بعد صحافیوں کی ”دکانیں اور ڈھابے” کو تو لگنے والے ہیں تالے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کریں گے کیا بیچارے؟ پتا نہیں کیوں لیکن مجھے سب کی فکر کھائے جارہی ہے۔ نصرت جاوید صاحب تو شاید پہلے سے اس صورتحال کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے، مگر باقی صحافیوں نے کیا سوچ رکھا ہے؟جاوید چوہدری، طلت حسین، حامد میر، کاشف عباسی، عاصمہ شیرازی، نسیم زہرا، کامران خان اور دیگران۔۔۔
انتہائی نیک نیتی کی بنیاد پر ان کے لیئے چندآئیڈیاز ہیں۔ فیصلہ تو سب کا اپنا اپنا ہی ہوگا ظاہر ہے۔
حامد میر صاحب جس طرح کی شخصیت ہیں اور جیسے وہ پروگرام کرتے رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کو آن لائین پینٹ کوٹ اور ٹائیوں کا کام کرنا چاہیئے۔ ان پراڈکٹس کی اشتہاری فلمیں بھی بنائیں۔ سوٹ پہن کر ماڈلنگ بھی فرماتے رہیں۔ کیا عجب کہ برانڈز والے مفت کے سوٹ بھی دے دیں۔
جاوید چوہدری بھی ایک دور اندیش آدمی نکلے۔ پہلے ہی آن لائین ادویات کی اشتہاری فلمیں بنانا شروع ہوچکے ہیں۔ اس میں اگر چھوٹی مکھی کا خالص شہد اور اونٹنی کا دودھ بھی ایڈ کرلیں تو بِکری بھی اچھی ہوگی، لائیکس اور ویوز بھی بڑھیں گے۔
زیادہ پریشانی تو مجھے برخوردار عزیزم کاشف عباسی کے بارے میں ہے۔کاشف کو چاہئیے ٹریک سوٹس کی طرف دھیان دے۔ فٹ آدمی ہے۔ اور بذات خود ایک سپورٹس مین۔ سیالکوٹ کے برانڈز اٹھائے پہن کر پروگرام کرے۔ اتنے تو فینز ہیں۔ دنوں میں چھا جائے گا۔ ٹریک سوٹ پہنا کر کھلاڑیوں کے انٹرویو کا آپشن بھی موجود ہے۔
عاصمہ شیرازی اور نسیم زہرا، میری محترم بڑی بہنیں۔ ہمیشہ بہت شفقت سے پیش آتی ہیں۔ ان کے لیئے تو خاص برادرانہ مشورہ ہی ہوگا میری طرف سے۔ پیکا قانون کے متاثرین میں یہ بھی ہوں گی۔ یہ دونوں مل کر اگر دَم دروُد اور تعویذ گنڈے کے پروگرام شروع کر دیں تو کافی کامیاب ہو سکتی ہیں۔اور اگر ہلکا سا ٹچ کالے جادو کا بھی دے سکیں تو کیا کہنے۔ کبھی صحافت کو یاد بھی نہیں کریں گی۔ ان شا اللہ
طلعت حسین صاحب تو کیمرے کے سامنے ہمیشہ ایک جنگجو کی طرح آتے ہیں۔ ان کا معاملہ بھی سیٹ ہے۔ بڑے بڑے شنواری ہوٹلوں پر جا کر ان کے بارے میں پروگرام کریں، پہلے بھی کرچکے ہیں، مفت کا کھانا کھائیں۔ ٹیم کو بھی کھلائیں، گھر کے لیئے پیک بھی کروالیں۔ اور ریٹنگ بھی لیں۔ چُپڑی ہوئی اور وہ بھی دو دو۔
کامران خان صاحب کے لیے سوچنا پڑے گا۔میرا خیال ہے کہ انہیں چاہئیے کہ یہ بنائیں اشتہاری فلمیں مردانہ طاقت کی ادویات، بڑھاپے کے مسائل پر۔ جوڑوں کے درد، پراسٹیٹس وغیرہ اور اس کے علاج اور ادویات۔ بہت اچھا کرپائیں گے یقینا۔انہیں خود بھی سہولت رہے گی اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
فی الحال کے لیئے اتنا ہی۔ ابھی بہت کام باقی ہے۔ بہت سے صحافی ہیں جن کے لیئے مجھے سوچنا ہے۔ جیسے ہی ان کے لیئے کوئی اچھے آئیڈیاز لا سکا فورا آپ سے بھی شیئر کروں گا۔ ان لوگوں نے ہماری اتنی خدمت کی۔ ہمیشہ پل پل سے باخبر رکھا ہمیں۔ ہمیں زیب نہیں دیتا کہ ان حالات میں ہم ان کا ساتھ نہ دیں۔