ہم جہاں بھی نظر دوڑاتے ہیں، ہمیں ہر طرف دین کے نام پر کھلی دکانیں اور بڑے بڑے کیش اینڈ کیری اسٹورز نظر آتے ہیں۔ یہ وہ دکانیں ہیں جہاں دین کو ایک کاروبار بنا دیا گیا ہے، جہاں گمراہی، جہالت، اور دین سے دوری کی سیل لگی ہوئی ہے۔ ہر شخص اپنے اپنے عقیدے، نظریے اور مفادات کے مطابق "دین” بیچ رہا ہے۔
کوئی روحوں سے بات کروانے کا دعویٰ کر رہا ہے، تو کوئی اپنے مرشد کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے بھی بڑا بنا کر پیش کر رہا ہے۔ کوئی اپنے مسلک اور فرقے کو ہی اصل دین کہہ کر دوسروں پر ٹھونس رہا ہے۔ ان سب چیزوں کی باقاعدہ مارکیٹنگ یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر کی جا رہی ہے۔ لوگ جوک در جوک ان دکانوں پر جا رہے ہیں، خرید رہے ہیں، اور دین سمجھ کر اپنا ایمان بیچ رہے ہیں۔
ہمیں غور کرنا ہوگا کہ جو چیز ہمیں رسول اکرم ﷺ کی زندگی میں نہیں ملتی، جو خلفائے راشدین کی سیرت میں نہیں پائی جاتی، وہ اچانک "دین” کیسے بن گئی؟ ان غیر مستند روایات، خود ساختہ عقائد اور رنگین پیکنگ میں لپٹے دھوکوں کو دین بنا کر بیچا جا رہا ہے، اور ہم ان کے خریدار بنتے جا رہے ہیں۔
آج کے علماء، سکالرز، واعظ، اور مولوی ان بازاروں میں اپنے اپنے اسٹال لگا کر بیٹھے ہیں۔ ہر کسی کے پاس اپنا ایک "برانڈڈ دین” ہے، جسے وہ اپنی تشہیر کے ذریعے دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔
ایسی صورت میں اصل دین کو پانے اور اس پر چلنے کا صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے: قرآن کو خود پڑھا جائے، خود سمجھا جائے، اور اس کے مطابق زندگی گزاری جائے۔ خلفائے راشدین کی سیرت کو پڑھا جائے اور اسے عملی زندگی میں نافذ کیا جائے۔ ہمیں ہر قسم کے فرقہ وارانہ تعصب اور مسلکی جکڑ بندی سے نکلنا ہوگا۔ یہی نہیں، ہمیں اپنے بچوں کو بھی ان گمراہ کن بازاروں سے بچانا ہوگا تاکہ وہ سچے دین پر قائم رہ سکیں۔
اصل دین وہی ہے جو قرآن اور سنت میں ملتا ہے، نہ کہ وہ جو کسی کی ذاتی تشریح اور دکان داری کا حصہ بن چکا ہو۔ ہمیں دین کو سمجھنے کے لیے کسی درمیانی راستے یا کسی کی تشہیر کردہ پروڈکٹ کی ، کسی پیر کی فقیر کی کسی مرشد کی یا کسی بابے کی ضرورت نہیں، ھمیں دین پر چلنے کے لیئے ھر گز کوئی دیو بندی کوئی بریلوی کوئی اہل حدیث کوئی سنی یا کوئی شیعہ بننے کی ضرورت نھیں ھے۔ ھمیں کسی مولانا ، کسی مفتی کسی علامے کسی ڈاکٹر کسی یوٹیوبر کی تشہیر سن کر اس کے پیچھے چلنے اور اس کی دکان چمکانے کی ضرورت نھیں ھے بلکہ خود قرآن اور سنت کو مضبوطی سے تھامنے کی ضرورت ہے۔ اس فتنے کے خطرناک ترین دور میں یہی نجات کا واحد طریقہ اور راستہ ہے۔