جوزفینا کی خود کشی اور ڈپریشن کے مسائل

خود کشی!
امریکہ میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں۔
اذیت در اذیت ہے!
دل باہر آنے کو جیسے بیتاب ہے۔ دماغ کی نسیں پھٹ جانے کو ہیں۔ وجود رو رہا ہے ، اندر تک گھائل ہوں۔۔۔اور تکلیف اس قدر ہے کہ پورا وجود چٹخ اٹھتا ہے۔مگر یہ آنکھیں بنجر ہیں۔آنکھیں ساتھ ہی نہیں دیتیں۔۔۔ایک آنسو بھی نہیں نکل پاتا۔۔۔اور ویرانی اس قدر ہے کہ سمجھ نہیں آتا اس کا کیا ، کیا جائے؟
یہ اذیت جو دل کو جکڑ لیتی ہے!
اور انسان کے وجود کو ہلا دیتی ہے۔ کبھی کبھی انسان کی برداشت ، اُس کا ضبط ، اُس کا حوصلہ ، سب جواب دے جاتا ہے۔۔ دل چاہتا ہے چیخیں مار مار کر روؤں مگر ایسا کر نہیں سکتی۔ بچپن بھی کتنا اچھا ہوتا تھا نا جب دل کرتا اونچی اونچی آواز میں جہاں مرضی رو لیتے تھے۔ مگر اب رونے کے لیے تنہائی چاہیے ہوتی ہے۔ ڈر ہوتا ہے کہیں کوئی دیکھ نہ لے
آنسو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے ،
رات کی تاریکی میں اپنی ہچکیوں کا گلا دبا کر اپنے ہاتھوں سے اپنے آنسو پونچھنا پڑتے ہیں کہیں کسی کو پتا نہ چل جائے۔ کیونکہ ہمارے آنسوؤں سے ہمارے اپنے بھی اذیت میں چلے جاتے ہیں۔ اپنوں کی محبت بھی بڑی آزمائش لیتی ہے۔

پتا ہے کیا؟
میں اذیت کو لفظوں میں اتار کر بھی مکمل نہیں اتار سکتی۔ سر سے پاؤں تک اذیت ہی اذیت ہے اور دماغ وہ لگتا ہے اذیت سے پھٹ جائے گا میرا۔ میں آج بہت تکلیف میں ہوں کیونکہ میری دوست جوزفینا نے خودکشی کرلی ہے۔ میں رونا چاہتی ہوں مگر رو نہیں پارہی ، میرا دم گھُٹنے لگتا ہے۔ کیونکہ میں نے جوزفینا سے واپس آکر ملنے کا وعدہ کیا تھا اور اس کے لیے ترکش ڈریس لے کر آئی تھی۔ میں ترکی میں تھی آج ہی واپسی ہوئی ہے۔ میں بہت پرجوش اور خوش تھی سفر کی تھکان بھی نہیں تھی۔ مگر اب ذہنی اور اعصابی تھکن سے بدن چُور ہے۔جب سے ہوپ ہاؤس سے واپس آئی ہوں ہوپ لیس ہورہی ہوں۔
جب میرا دل بہت زیادہ اداس ہو یا مجھے کوئی کامیابی یا خوشی ملے تو میں چند جگہوں پر جاتی ہوں۔ جن میں اولڈ ہاؤس ، مینٹل ہاسپٹل ، اور hope / امید ہاوس شیلٹر شامل ہیں۔ جہاں بزرگوں ، نفسیاتی ، نیم نفسیاتی مریضوں سے ملتی ہوں ، جو میرا انتظار کرتے ہیں۔ یہی نہیں ویسے بھی ویک اینڈ پر تو لازمی جاتی ہوں مگر کسی غیر معمولی بات پر ویک کے درمیان میں بھی جاتی ہوں۔

آج واپس پہنچتے ہی اپنے کافی زون کے بزنس اور سپاوس ہاشم کے پی ایچ ڈی میں ایڈمیشن کی خوشی سیلیبریٹ کرنے ہوپ ہاؤس گئی ، تو پتا چلا میری ینگ خوبصورت دوست جوزفینا جسے سب جینی کہتے تھے ، اس نے دو دن پہلے خود کشی کرلی ہے۔ جینی کو ماڈل بننے کا شوق تھا مگر وہ اپنا خواب پورا نا کرسکی اس کی وجوہات تو میں نہیں لکھوں گی۔ وہ ڈپریشن کی مریض بن کر ہوپ ہاؤس آگئی ، جوزی کو انجلینا نے سکینڈل کا طعنہ دیا تو ذلت کے احساس کی شدت میں دوسری منزل سے کود کر خودکشی کرلی۔ انجلینا جسے محبت کی شادی میں ناکامی ہوئی تو ریجیکشن کے احساس نے ڈپریشن میں مبتلا کردیا اور وہ عام انسانوں کی سی زندگی جینا بھول گئی تو ماں نے ہوپ ہاؤس میں ایڈمٹ کروا دیا۔ عموما لوگ ان سبکو پاگل قرار دیتے ہیں۔ مگر میرے یہ سب دوست ہیں ، میرے نزدیک یہ معصوم انسان ہیں ، میں انکو حساس انسان سمجھتی ہوں اور جوزفینا سے تو میری گہری دوستی ہوگئی تھی، میں جب بھی ملنے جاتی تھی تو اس کی فیورٹ چاکلیٹس ، کینڈیز لے کر جاتی ہوں۔ آج بھی لے کر گئی تھی مگر۔۔۔۔ آج وہ ملی نہیں۔۔۔۔آنسو۔۔۔۔۔ چھ ماہ بعد ایسا فیز آیا ہے۔ میں جانتی ہوں میں مطمئین انسان ہوں جلد سنبھل جاؤں گی مگر جینی کو نہیں بھول سکتی مجھے اُس سے انسیت ہے۔ کل دن روشن ہوتے ہی اس سے ملنے قبرستان جاؤں گی پھول دے کر آؤں گی۔ جوان موت نے تو پہلے ہی کئی بار میری روح و دل کے بخیے اُدھیڑے ہیں ، میں تو اسکو زندگی کی طرف لُٹانا چاہتی تھی مگر یہ کیا ہوگیا۔

آپ جانتے ہیں!نفس ، امتحان اور عقل انسان کے پاس اللہ کی امانت ہے۔ کسی بھی نفس کو نفسیاتی مسئلہ ہوسکتا ہے ، یہاں تک کہ مجھے بھی۔ہمارے ہاں دماغی صحت کو سیریس نہیں لیا جاتا۔
دنیا بھر میں ذہنی صحت پر اتنا کام ہوا ہے لیکن ہمارے ہاں لوگ اس پر بات ہی نہیں کرنا چاہتے۔کسی کو کاونسلنگ کا مشورہ دو تو وہ ناراض ہوجاتا ہے ، کہتا ہے کہ مجھے پاگل سمجھ رکھا ہے۔
لیکن کوئی کسی الجھن کو سلجھاتا ہوا خود اُلجھ جائے تو کیا اسے اکیلا چھوڑ دیتے ہیں؟؟؟
نہیں!
کیونکہ اس سے وہ پاگل ہوسکتا ہے۔
کچھ حساس لوگ عام لوگوں سے زیادہ سوچتے ہیں۔
جو پہلے نارمل ہوتے ہیں ، اور جو خود کو خود یا ہم انہیں پاگل قرار دے دیتے ہیں۔پیار ، محبت ، نرمی اور توجہ سے ہم انہیں بہتر سے بہترین بنا کر معاشرے کو واپس لُٹا سکتے ہیں۔

اللہ کریم کی عبادت ، شکر گزاری اور سب سے بڑھ کر خدمتِ خلق اگر ہماری زندگی کا مقصد بن جائے تو اسے خوش بختی کہتے ہیں۔
میرے نزدیک psychotic ایک حساس انسان ہے۔ کسی کو نفسیاتی مریض کہنا اس کی دل آزاری ہے۔وہ حساس ہے پاگل نہیں۔ پاگل وہ ہے جو نارمل انسان سے دو قدم پیچھے رہ گیا۔جو دو قدم آگے نکل گیا وہ نفسیاتی ہے۔ اگر یہ اچھائی کی طرف ہو تو فائدہ مند ہے ورنہ نقصان دہ ہے۔
یہ میری ذاتی رائے ہے۔ میں نہ کوئی میڈیکل ڈاکٹر ہوں نہ ماہر نفسیات ہوں۔( البتہ میں سرٹیفائیڈ لائف کوچ ہوں مگر میں نے پروفیشنلی پریکٹس نہیں کی کیونکہ میری میجر فیلڈ انجینئرنگ ہے۔)
ان افراد پر اگر محنت کی جائے تو چند ہی کیسسز میں ان کو بہتر بنا کر معاشرے کو واپس لٹایا جاسکتا ہے۔

یہ حساس انسان جب بے سکون ہو جائیں تو انہیں میڈیکل اسسٹنٹ ، اینٹی سائیکوٹک ڈرگز ، ایک اچھے سائیکاٹرسٹ کی کاونسلنگ اور سائیکو تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔لہٰذا ‏ڈپریشن کو معمولی مت لیں۔
تحقیق بتاتی ہے کہ شدید ڈپریشن آگے چل کر ذہنی حالت کو اس قدر بگاڑ دیتا ہے انسان میں درد دینے اور درد سہنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔
ایسے ہی اک ماں نے اپنے بچوں کو آگ لگادی انہیں زندہ جلتا دیکھ کر وہ سگریٹ پیتی رہی۔ جب وہ نارمل ہوئی تو اسکے بچے جل کر مر چکے تھے۔ ‏پھر جب اس طرح کے واقعات ہوجاتے ہیں تو ہم بڑی بڑی فلاسفی جھاڑنا شروع کر دیتے ہیں کہ ماں تھی یا فرعون ایسا کیسے کرگئی؟تو کسی کو ڈپریشن میں پائیں ‏تو اسے پاگل قرار دینے کی بجائے اسے ہنسانے کی کوشش کریں۔ میں بھی یہی کرتی ہوں اور جوزفینا کو میری حسِ مزاح سے بہت محبت تھی۔ وہ میرا انتظار کرتی تھی۔اسے میری آنکھوں سے بلا کی محبت تھی جنہیں وہ چمکتے دیکھنا چاہتی تھی ، کبھی جب میری گود میں سر رکھے وہ پر شکوہ ہوکر روتی تھی تو میں اپنے آنسو چھپانے کی ناکام کوشش کرتی تھی تو جان لیتی تھی اور مجھے پیار سے ڈانٹتی تھی کیونکہ وہ میری آنکھوں میں آنسو برداشت نہیں کرتی تھی۔۔
اب تم نہیں ڈانٹو گی جینی یار۔۔۔۔

انہیں ہماری توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر توجہ نہ ملے اور اگنور کیا جائے تو ایسے رویے کو محسوس کرنا فطری بات ہے۔
کیونکہ
” توجہ کی طلب “ بشری تقاضا ہے اور دل میں یہ طلب موجود رہتی ہے۔ اس میں ایک اور پہلو یہ کہ اگر کوئی اس طلب کی نفی کرے اور کہے کہ

” مجھے کسی کی اگنورنس یا اٹینشن سے فرق نہیں پڑتا۔“

تو یہ جذبات کی نفی ہے اور جذبات کی نفی اصل میں اپنی ذات کی نفی ہے.
️اگر کوئی ہمیں اگنور کرے تو کیا کرنا چاہیے؟؟؟
جب آپ کو اور کوئی اگنور کرے تو سب سے پہلے اپنے جذبات کی توثیق (validation) کرنی چاہیے۔ اپنے جذبات کو ایکسیپٹ کریں کہ
ہاں! ” مجھے دکھ ہوا ہے کہ مجھے اگنور کیا گیا ، مجھے توجہ کی طلب محسوس ہوئی۔“
دل کو ویلیڈیشن مل گئی ؛ احساسات کو مان لینا اور خود سے سچ بولنا پہلا اور اہم قدم ہے۔
اگلا سٹیپ ؛ سامنے والے کی پسند کو قبول کرنے کا ہے۔ سامنے والے نے اگنور کیا یہ اُس کی مرضی ہے۔
چوائس کا حق اللہ نے اُسے دیا ہے اس لیے مجھے اس کی “ Freedom of Choice ” ” فریڈم آف چوائس “ کو accept / قبول کرنا چاہیے۔

اور پھر خود سے Commitment/کمٹمنٹ کریں کہ ” میں کسی کو بلاوجہ اگنور نہیں کروں گی/ گا ۔“

️ایسے رویوں سے اگر ہمارے رویے ، اخلاق اور کردار متاثر ہوں تو کیا ، کیا جائے ؟؟؟

ایسے رویوں سے اگر ہمارے رویے ، اخلاق اور کردار متاثر ہوں تو یہ Healthy Mind ” صحت مند ذہن “ کی نشانی نہیں ہے۔
ہمارے رویے اور اعمال دوسروں کے رویے کے تابع نہیں ہونے چاہیں۔ اپنے رویوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھیں۔
ہم خود پر نگران ہیں ، خود کو ” جنت “ کی طرف لیڈ کرنا ہے اور اللہ کو اپنے اعمال کا جواب بھی خود دینا ہے۔ سامنے والا ہمارے رویوں یا actions/ اعمال کا جوابدہ نہیں ہے ، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ” فلاں کی وجہ سے یہ کیا۔“

اور ویسے بھی نظر انداز ہونے سے فرق ہمیں پڑتا ہے تو ہم نے خود کی سیلف مینیجمنٹ کرنی ہے۔
جتنی سٹرونگ ہماری سیلف اویرنیس ہوگی ، ہم اتنی ہی آسانی سے اس کیفیت سے نکل آئیں گے۔ اور یہی رویہ ہم نے دوسروں کے لیے رکھنا ہے۔

میں سیلف مینجمنٹ جانتی ہوں ان شاءاللہ جلد نارمل ہوجاؤں گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے